Inquilab Logo

تعلیماتِ گاندھی کا فروغ اور ہمارا نظام تعلیم

Updated: October 02, 2022, 10:42 AM IST | Mumbai

پہلی جماعت سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک، ہمارے نظام تعلیم میں گاندھی کی شخصیت اور خدمات کا احاطہ بھی کم کم ہے اور اُن کی تعلیمات پر خصوصی کورسیز بھی آٹے میں نمک کے برابر۔

Gandhi`s personality and services are also less covered in our education system
ہمارے نظام تعلیم میں گاندھی کی شخصیت اور خدمات کا احاطہ بھی کم کم ہے

پہلی جماعت سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک، ہمارے نظام تعلیم میں گاندھی کی شخصیت اور خدمات کا احاطہ بھی کم کم ہے اور اُن کی تعلیمات پر خصوصی کورسیز بھی آٹے میں نمک کے برابر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چند یونیورسٹیوں میں گاندھی جی سے متعلق کورسیز ہیں مگر ان کی نہ تو تشہیر کی جاتی ہے نہ ہی اُن کورسیز کی تکمیل کے بعد روزگار کے حصول کا کوئی موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ بہت اچھا ہوگا اگر ملک بھر کی یونیورسٹیاں شخصیت و خدمات اور فکروفلسفہ ٔ گاندھی کے فروغ کیلئے باقاعدہ کورسیز شروع کریں مگر اس سے بھی زیادہ اہمیت اس بات کی ہوگی کہ ہر اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں، خواہ وہ کسی اسٹریم سے وابستہ ہو، کم از کم ایک مضمون گاندھیائی تعلیمات اور فکروفلسفہ سے متعلق ہو۔ کیونکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کا ہر شہری اگر ماہر ِ گاندھی نہیں تو کم از کم اتنی اہلیت کا حامل ہو کہ کسی غیر ملکی کو گاندھی جی کی حیات و خدمات کے بارے میں چند بنیادی باتیں بتاسکے۔ 
 ہم آپ جانتے ہیں کہ بیرونی ملکوں میں تو گاندھی کا شہرہ ہے، اُن کے مجسمے نصب کرنے کا سلسلہ جاری ہے، دانش گاہوں میں اُن کی حیات و خدمات پر خصوصی کورسیز بھی جاری کئے جارہے ہیں، بہت سے غیر ملکی مہاتما گاندھی کو سمجھنے کیلئے ہندوستان کا دورہ بھی کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ عالمی سطح پر گاندھی جی کے نام لیوا کل جتنے تھے آج اُس سے زیادہ ہیں۔ لوگ باگ گاندھی جی کے اقوال بطور حوالہ پیش کرتے ہیں اور اس طرح اپنے گاندھی وادی ہونے کا ثبو ت دیتے ہیں یا یہ سمجھاتے ہیں کہ تعلیمات ِ گاندھی سے وہ بھی متاثر ہیں۔ اس کا تازہ ثبوت اس سال یوم آزادی پر جاری ہونے والا صدرِ امریکہ جو بائیڈن کا تہنیتی پیغام ہے جس میں اُنہوں نے گاندھی کے ’’ستیہ اور اہنسا‘‘ کا حوالہ دیا تھا۔ 
 بیرون ملک اس طرح کے اور بھی کئی واقعات مل جائینگے جن میں لوگوں نے گاندھی جی کو کسی نہ کسی حوالے سے خراج عقیدت پیش کیا مگر اندرون وطن صورتِ حال مختلف ہے۔ گاندھی کا پتلا بنا کر اُس پر گولیاں چلانے والوں کو جانے دیجئے، اُن سے گاندھی نوازی کی اُمید فضول ہے تاوقتیکہ وہ اپنا ذہن تبدیل کریں مگر اُن لوگوں کو کیا ہوا جو گاندھی جی کو اپنا رہنما قرار دیتے آئے ہیں۔ انہوں نے گاندھی جی کی تعلیمات کو اُس طرح عام نہیں کیا جیسا کہ گاندھی جی کا حق ہے۔
  مہاتما گاندھی کو پرلوک سدھارے ۷۴؍ برس گزر چکے ہیں مگر جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اُن کی تعلیمات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ اس اہمیت کو شہریوں کی زندگی میں اُتارنے کیلئے ضروری تھا کہ ابتدائی اسکولی تعلیم ہی سے فکروفلسفۂ گاندھی کی تعلیم و تفہیم کا اہتمام کیا جاتا۔ چونکہ یہ نہیں ہوا اس لئے بہت ممکن ہے کہ کوئی غیر ملکی سیاح، جو ہندوستان کے دورے پر ہو، یہاں کے کسی شہری سے گاندھی جی کے بارے میں استفسار کرے اور باتوں باتوں میں یہ راز فاش ہو کہ غیر ملکی سیاح گاندھی جی سے و اقفیت کے معاملے میں ہمارے شہری سے آگے ہے، زیادہ جانتا ہے۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ ہم نے گاندھی کو اپنا کہا اور آگے بڑھ گئے، اُن کے بارے میں تفصیل جاننے اور کتابوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور یہ نہیں سوچا کہ اُن کے افکارونظریات کا ڈنکا آج چہار دانگ عالم میں کیوں بج رہا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ان نظریات کو خود سمجھا جائے اور دوسروں کو سمجھانے میں پُرجوش رہا جائے۔ہمیں ۲؍ اکتوبر اور ۳۰؍ جنوری یاد رہ گیا ہے، تعلیماتِ گاندھی یاد نہیں جبکہ اُن کا ’’اہنسا‘‘ ہی آج کی ہِنسا کو روک سکتا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK