Inquilab Logo

مظاہرین کا درد اور ٹرمپ

Updated: June 04, 2020, 1:26 PM IST | Editorial

سی این این کی ویب سائٹ پر سیڈرک الیکژینڈر نامی ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر نے اپنے ایک مضمون کا آغاز کچھ اس طرح کیا : ’’مَیں ایک سیاہ فام امریکی ہوں جسے ۴۰؍ سال تک نفاذ ِ قانون کی ذمہ داری سنبھالنے کا موقع ملا۔

USA Protest - Pic : INN
امریکہ میں احتجاج ۔ تصویر : آئی این این

سی این این کی ویب سائٹ پر سیڈرک الیکژینڈر نامی ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر نے اپنے ایک مضمون کا آغاز کچھ اس طرح کیا ہے: ’’مَیں ایک سیاہ فام امریکی ہوں جسے ۴۰؍ سال تک نفاذ ِ قانون کی ذمہ داری سنبھالنے کا موقع ملا۔ آج اگر ایک نوجوان، جو سفید فام نہیں ہے، مجھ سے پوچھے کہ بالفرض کوئی پولیس افسر سرراہ روکے تو مجھے کیا کرنا چاہئے، مَیں اس سے کہوں گا کہ اپنے ہاتھ اسٹیئرنگ پر رکھو تاکہ وہ بآسانی دکھائی دیں، اُس کے ساتھ تعاون کا رویہ اپناؤ اور وہ جو کچھ بھی کہتا ہے مان لو۔ میرا یہ جواب سننے کے بعد اگر وہ کہے کہ جناب اتنا کرنے کے باوجود ہمیں قتل کیا جارہا ہے، تو میرے پاس اُس نوجوان سے کہنے کیلئے کچھ نہیں ہوگا۔ چار دہائیوں کے تجربے کے بعد بھی مَیں لاجواب رہ جاؤں گا۔‘‘ 
 نسل پرستی امریکی تاریخ کا جزوِ لاینفک ہے۔ امریکی صدور اپنی ’’سپرپاوری‘‘ کے نشے میں دُنیا بھر کو جمہوریت کے تحفظ ، فرد کی آزادی، ملکوں کی خود مختاری اور امن و سلامتی کا درس دیتے ہیں مگر چراغ تلے کتنا اندھیرا ہے یہ نہیں دیکھتے۔ جارج فلائیڈ سیاہ فاموں پر ہونے والے ظلم و ستم کی طویل تاریخ کا تازہ باب ہے۔ 
 مشہور مقولہ ہے کہ دانا سوچ کر بولتا ہے اور نادان بول کر سوچتا ہے۔ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا شمار نہ تو دانا میں کیا جاسکتا ہے نہ ہی نادان میں کیونکہ موصوف سوچ کر بولتے ہیں نہ بول کر سوچتے ہیں۔ اگر اس مقولہ میں انسانوں کی کسی تیسری قسم کا ذکر ہوتا جس میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے بولنے کے باوجود کسی کے سمجھانے پر نادم ہوتے ہیں تو اس تیسری صف میں بھی ٹرمپ کا شمار نہ ہوتا کیونکہ ناممکن ہے کہ وہ کسی کے سمجھانے سے سمجھ جائیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق اُن کے چند قریبی مشیروں نے اُنہیں تنہائی میں سمجھایا کہ آپ کا بیان  کہ ’’جب لوٹنگ (لوٹ مار) ہوتی ہے تب شوٹنگ ہوتی ہے (گولیاں داغی جاتی ہیں)‘‘ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے نسل پرستانہ فقرے سے مستعار ہے۔ مگر اُنہوں نے توجہ نہیں دی۔ گزشتہ دنوں جب مظاہرین وہائٹ ہاؤس پر تھے اور ٹرمپ کو عمارت کے تہ خانے میں لے جایا گیا اُس وقت بھی اُن کے ٹویٹس میں زبردست جارحیت تھی۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’’اگر مظاہرین نے وہائٹ ہاؤس کی رکاوٹیں توڑیں تو خوفناک کتے اور ہولناک ہتھیار اُن کا استقبال کرینگے۔‘‘ 
 ٹرمپ کی جارحیت اُن کے دیگر بیانات سے بھی عیاں ہے۔ گورنروں سے خطاب کے دوران اُن کا یہ کہنا کہ ’’آپ کمزور ہیں‘‘ (یعنی مظاہروں کو کچلنے کیلئے زیادہ طاقت استعمال کیجئے)، اور پھر یہ بیان کہ ’’فوج بلائی جائیگی‘‘ یہ سمجھاتا ہے کہ وہ پُرامن مظاہروں کو پُرامن نظریئے سے دیکھ ہی نہیں رہے ہیں۔ سفید فام آبادی کو خوش کرنے اور نومبر انتخابات میں اس کا فائدہ اُٹھانے کیلئے اُن کا ہر بیان جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے۔ اب تک کئی رپورٹوں میں مظاہرین کے احتجاج کو پُرامن ہی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اگر تشدد ہوا ہے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ پولیس کی کارستانی ہے جسے غیر ضروری اور غیر قانونی سختی پر اُکسایا گیا ہے۔ 
 اس کے باوجود افسران بالا میں ذمہ دار لوگ بھی ہیں جو ٹرمپ سے خوف کھائے بغیر کہہ چکے ہیں کہ ’’اگر آپ کوئی تعمیری بات نہیں کر سکتے توبراہ کرم اپنا منہ بند رکھئے!‘‘ یہ ہوسٹن کے پولیس سربراہ آرٹ ایسیویڈیو ہیں جنہوں نے مذکورہ اپیل کی ہے مگر عقل ٹرمپ کا اور ٹرمپ عقل کا ساتھ دینے سے معذور ہیں۔ وہ جارج فلائیڈ کےقتل کے خلاف جاری ہنگاموں میں سیاسی و انتخابی فائدہ تلاش کررہے ہیں۔ اسی لئے اُنہوں نے امن کی اپیل کی بجائے جارحیت پر اصرار کیا۔ اُنہیں اپنے عوام کی کتنی فکر ہے اس کا اندازہ اب تک دو گرجا گھروں پر فوٹو کھنچوانے کے اُن کے جوش و خروش سے لگایا جاسکتا ہے۔ اتنے خراب حالات میں بھی وہ ملک اور عوام کے ساتھ نہیں بلکہ طاقت کے نشہ میں ہیں۔ اُنہیں وقت ہی کچھ سمجھا سکے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK