Inquilab Logo

ٹرمپ او راقتدار کی منتقلی کا سوال

Updated: September 25, 2020, 11:51 AM IST | Editorial

وہائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ کے دوران ایک نامہ نگار نے ڈونالڈ ٹرمپ سے سوال کیا کہ کیا صدارتی الیکشن ختم ہوجانے کے بعد آپ اقتدار کی پُرامن منتقلی کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ اُن کے ۴۳؍ پیش روؤں میں سے کسی سے بھی یہ سوال کیا جاتا تو وہ اس کا پُروقار انداز میں جواب دیتا۔

Donald Trump - Pic : INN
ڈونالڈ ٹرمپ ۔ تصویر : آئی این این

وہائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ کے دوران ایک نامہ نگار نے ڈونالڈ ٹرمپ سے سوال کیا کہ کیا صدارتی الیکشن ختم ہوجانے کے بعد آپ اقتدار کی پُرامن منتقلی کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ اُن کے ۴۳؍ پیش روؤں میں سے کسی سے بھی یہ سوال کیا جاتا تو وہ اس کا پُروقار انداز میں جواب دیتا۔ ظاہر ہے کہ جواب اثبات میں ہوتا مگر جو صاف، سیدھا، پُروقار اور مثبت جواب دے وہ ڈونالڈ ٹرمپ نہیں ہوسکتا۔ موجودہ امریکی صدر گفتگو کے دوران ڈانٹتے بھی ہیں، برہم بھی ہوتے ہیں، اپنے مخاطب کی بے عزتی بھی کرتے ہیں اور کسی کے خلاف کارروائی کا حکم بھی جاری کردیتے ہیں۔ مذکورہ سوال کے جواب میں انہوں نے سوال پوچھنے والے صحافی کو نہ تو ڈانٹا نہ برہم ہوئے، اُس کی بے عزتی کی نہ ہی اس کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ مگر جو جواب دیا وہ سب کو حیران کرنے والا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خبر گزشتہ روز کافی دیکھی اور پڑھی گئی۔ اُنہوں نے سوال کا اثبات میں جواب نہیں دیا بلکہ ایک طرح سے دھمکی دی کہ اگر وہ دوبارہ منتخب نہیں ہوئے تو اقتدار کی تبدیلی پُرامن نہیں ہوگی، بہت ممکن ہے کہ فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا پڑے۔ کیا یہ امریکی رائے دہندگان پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں کوئی آئینی تعطل پیدا نہ ہو تو اُنہیں (ٹرمپ کو) حمایت دیں اور اُنہی کو اگلا صدر منتخب کریں؟
 ہم نہیں جانتے کہ اُن کے دل میں کیا تھا۔ ہم کیا کوئی بھی نہیں جانتا کہ ٹرمپ کے دل میں کیا ہوتا ہے۔ وہ ان معنیٰ میں اب تک کے سب سے ’’غیر یقینی‘‘ صدر ہیں کہ کب کیا کہیں گے، کب کیا کربیٹھیں گے اور کب کس سے اُلجھ پڑیں گے کوئی نہیں جانتا۔ خود ٹرمپ بھی نہیں جانتے۔ اُن کے سابق قانونی مشیر مائیکل کوہن نے اپنی حالیہ تصنیف ’’ڈِسلائل: اے میمائر‘‘ میں ڈونالڈ ٹرمپ کو کن کن القاب سے یاد نہیں کیا۔ اُنہوں نے ٹرمپ کو جھوٹا، فریبی، نسل پرست، غنڈہ اور ایسے ہی کئی دیگر القاب سے نوازا اورکتاب کے اجراء کے دوسرے دن کہا کہ امریکی رائے دہندگان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ (ٹرمپ) بار بار دوبارہ اور پھر سہ بارہ منتخب ہونے کی بات کیوں کررہے ہیں؟ بقول مائیکل کوہن : ’’آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ مذاق کررہے ہیں، وہ مذاق نہیں کرسکتے کیونکہ اُن میں حس مزاح نہیں ہے۔ وہ سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں کیونکہ اُن کا ارادہ آئین کو تبدیل کرنے اور اپنے دورِ صدارت کی توسیع در توسیع کی گنجائش پیدا کرنے کا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ یہ وہی کوہن ہیں جنہوں نے ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کا ساتھ دیا تھا۔ اب یہ الگ کہانی ہے کہ وہ متنفر کیوں ہوئے۔
  دراصل ٹرمپ کو اِس مرتبہ کامیابی کی اُمید نہیں ہے۔ اس کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ ہرچند کہ اب تک باقاعدہ صدارتی بحثیں شروع نہیں ہوئی ہیں (پہلی بحث ۲۹؍ ستمبر کو ہوگی) مگر ٹرمپ کی کم ہوتی مقبولیت سے جو راز فاش ہوتا ہے وہ رائے دہندگان کا رُخ ہے جو اُن کے مقابلے میں اُن کے حریف جو بائیڈن کو ترجیح دینے سے متعلق ہے۔ اس کے اسباب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ٹرمپ امریکہ میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے میں ناکام رہے۔ وہ نسلی تشدد اور نسلی عصبیت کو بھی نہیں روک پائے۔ اُن کے دورِ اقتدار میں سیاہ فام عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش تک نہیں کی گئی بلکہ اُن کے خلاف بیان دیا گیا (مثلاً جارج فلائیڈ کے ’قتل‘ کے بعد ہونے والے مظاہروں کے خلاف طاقت کے استعمال کی وکالت)، وغیرہ۔ کنیکٹی کٹ کی کونی پیاک یونیورسٹی کے ایک جائزہ کے مطابق ۵۲؍ فیصد ووٹرس جو بائیڈن کے اور ۳۷؍ فیصد ٹرمپ کے حق میں ہیں۔ کئی دیگر سروے میں بھی بائیڈن کو سبقت حاصل ہے۔ ایسے میں سمجھا جاسکتا ہے کہ اقتدار کی منتقلی کے تعلق سے اُن کے بیان کے پس پشت کیا ہے۔ صرف اور صرف احساس شکست

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK