Inquilab Logo

راہل کی یاترا: مقاصداور مقبولیت(۲)

Updated: November 26, 2022, 10:06 AM IST | Mumbai

مقصد بڑا ہو اور اس پر خلوصِ نیت کے ساتھ عمل ہو تو کامیابی کا حیرت انگیز ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کا قصہ یہی ہے۔ مقصد بڑا ہے۔

Bharat Jodo Yatra
بھارت جوڑو یاترا

مقصد بڑا ہو اور اس پر خلوصِ نیت کے ساتھ عمل ہو تو کامیابی کا حیرت انگیز ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کا قصہ یہی ہے۔ مقصد بڑا ہے۔ اس مقصد کو دلوں میں بسانے والوں کی ٹیم بھی بڑی ہے۔ جو لوگ اس سے وابستہ ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں، ان کا جذبہ تو دیدنی ہے ہی، جن لوگوں نے کنیا کماری سے کشمیر تک کیلئے نام لکھوایا اور راہل گاندھی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر روزانہ ۲۱۔۲۲؍ کلومیٹر چل رہے ہیں ان کے جذبے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ابتدائی مرحلوں میں ان کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے مگر حوصلہ برقرار رہا۔ ہندوستان میں سماجی تحریکات کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے بتاتے ہیں کہ اس نوعیت کی اور اتنی طویل یاترا کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ 
 جیسا کہ اس کالم میں گزشتہ روز کہا گیا، کانگریس کو اس یاترا سے سیاسی فائدوں کی اُمید ہوسکتی ہے مگر اس نے اسے غیر سیاسی بنانے کی ہرممکن کوشش کے ذریعہ مقصد کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ اسے بھرپور طریقہ سے برتا بھی جارہا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کو موضوع بنایا گیا ہے مگر اس لئے نہیں کہ یہ سیاسی موضوعات ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کا گہرا اور روزمرہ کا تعلق عوام سے ہے۔ سب سے بڑا عنوان جو اس یاترا کا ہے وہ بھائی چارہ بڑھانے کا ہے۔ سماج میں پنپتی نفرت کے خلاف اس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے ذریعہ وہ لوگ بھی بیدار ہوئے ہیں جو نفرت انگیزی کے حربوں کو صحیح سیاسی سیاق و سباق میں دیکھنے اور سمجھنے سے عاری تھے۔ یہ بہت بڑا طبقہ ان پریشان حال لوگوں کا ہے جو محنت مشقت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو مسائل کو سمجھنے کا ذہن ہے نہ ہی یہ دیکھنے کا وقت کہ کون کیا کہہ رہا ہے، کیوں کہہ رہا ہے، کیا کررہا ہے اور کیوں کررہا ہے۔ کیا ماہی گیر وں کا طبقہ کیا کارخانوں میں کام کرنے والے لوگ، کیا کاشتکار کیا زرعی مزدور، کیا اساتذہ کیا طلبہ، بھارت جوڑو یاترا میں لوگ جوق در جوق آتے ہیں، جتنا چل سکتے ہیں چلتے ہیں اور یاترا کو اپنے جذبے کی حرارتوں سے نواز کر واپس ہوجاتے ہیں۔ اِس طرح وہ راہل گاندھی جن کی پارٹی کے لوگوں کو شکایت تھی کہ اُن سے ملاقات کا وقت نہیں ملتا، اپائنٹمنٹ نہیں ملتا، وہ عام لوگوں سے روزانہ مل رہے ہیں، اُن کے مسائل سن رہے ہیں اور اُن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ صرف راہل گاندھی نہیں، کنیا کماری سے کشمیر تک جانے کا عزم رکھنے والا ہر یاتری یہی کررہا ہے۔ کسی نے بھی سوچا بھی نہیں تھا، بالخصوص مخالفین نے، کہ یہ وہی راہل گاندھی ہیں جن کا مذاق اُڑانا اُن کا شیوہ تھا، جن کی تحقیر اُن کے معمولات کا حصہ تھی اور جنہیں پپو کہنا اُنہیں مرغوب تھا۔جب سے یاترا نکلی ہے آپ نے کسی کی زبان سے یہ لفظ (پپو) سنا بھی نہیں ہے۔
 یاترا کے بعض فوائد براہ راست کانگریس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً یہ کہ اس سے کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہورہا ہے، آپسی چپقلش کم ہورہی ہے، کیڈر  میں جوش و خروش پیدا ہورہا ہے اور بے کیفی یا بے دلی ختم ہورہی ہے مگر اس کا بڑا فائدہ ملک و قوم کو پہنچ رہا ہے، نفرت کے خلاف بیداری آرہی ہے اور لوگ اس بات کو محسوس کررہے ہیں کہ امن و آشتی کیلئے بھائی چارگی اور بھائی چارگی کیلئے فرد سے فرد کا، ایک فرقہ سے دوسرے فرقہ کا اور ایک ریاست کے افراد کا دوسری ریاست کے افراد سے رابطہ شرط ہے۔ یاترا نے رابطے کا بہترین ذریعہ فراہم کیا ہے۔  n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK