Inquilab Logo

سوال ترجیحات کا

Updated: August 05, 2020, 10:53 AM IST | Editorial

قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے مراحل آتے ہیں جب اُن کے پاس سوائے صبر و تحمل کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا

Ayodhya - Pic : PTI
ایودھیا ۔ تصویر : پی ٹی آئی

قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے مراحل آتے ہیں جب اُن کے پاس سوائے صبر و تحمل کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایودھیا تنازع کا جو فیصلہ ۹؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ کی پانچ رُکنی بنچ نے سنایا، وہ ہزار بے اطمینانی کے باوجود چونکہ فیصلہ ہے، حتمی ہے اور نظر ثانی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد حرفِ آخر بن چکا ہے اس لئے اسے تسلیم کرنا ضروری تھا اور ملک کے مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔ اس طرح اُنہو ںنے اپنا وہ وعدہ پورا کیا جسے بار بار دُہرایا گیا تھا کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسے قبول کیا جائے گا۔ 
 یہ موقف ملک کے عدالتی نظام پر مکمل یقین کا غماز تھا جس کی ستائش ہونی چاہئے تھی مگر قومی میڈیا کا طرز عمل ہی بدلا ہوا ہے۔ اس کے ذریعہ بہت سے ایسے اشیوز زیر بحث لائے جاتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف ضروری مباحث بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں۔ اہم سوالات اُٹھانا تو اس نے ترک ہی کردیا ہے۔ ایسے عالم میں اس سے شکایت بے معنی ہے۔ برادران وطن اور غیر جانبدار دانشوروں نے یقیناً مسلمانوں کے موقف کو محسوس کیا ہوگا اور اپنے دل کے نہاں خانوں میں اس کی ستائش کی ہوگی۔ بہرکیف، کوئی مانے یا نہ مانے، مسلمانوں نے آئین اور اس کے تحت جاری اداروں پر اپنے مکمل ایقان کا ثبوت دے کر ایک نظیر قائم کی اور اب اُس پر قائم رہ کر دوسری نظیر قائم کررہے ہیں۔   
 آج وزیر اعظم بھومی پوجن کیلئے بذات خود ایودھیا میں ہوں گے۔ اس سے برسراقتدار جماعت کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تقریب ٹل بھی سکتی تھی۔ ملک میں کورونا سے متاثرین کی تعداد ۱۸؍ لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ شفا یاب افراد کی تعداد بھی بڑھی ہے مگر نئے کیسیز بھی سامنے آرہے ہیں۔ مہلوکین کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کی اکثر ریاستوں میں مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ عبادت گاہوں میں سلسلۂ عبادت موقوف ہے۔معاشی مسائل کے سبب نچلے متوسط، غریب اور بے حد غریب طبقات کی حالت غیر ہے۔ معیشت پر جو مضر اثرات مرتب ہوئے اور ہورہے ہیں ان سے نمٹنے کیلئے انقلابی اقدامات کی ضرورت تھی۔ وہ ہنوز التواء میں ہیں۔ معاشی پیکیج ضرور دیا گیا مگر ’جب سارا دشت پیاسا ہو تو ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برس سکتا ہے۔‘ اس سے کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں ہوا۔صنعتیں دم توڑ رہی ہیں۔ بڑے کاروباری پریشان، متوسط درجے کے کاروباری ہراساں وفکر مند اور چھوٹے کاروباری جاں بلب ہیں۔ آخر الذکر کیلئے دو وقت کی روٹی بھی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اُدھر چین کی جارحانہ دراندازی پر بھی مکمل خاموشی ہے۔ ملک کے شہری چاہتے ہیں کہ اُس سے کچھ اس طرح نمٹا جائے کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کے نتیجے میں چین سینہ زوری پر آمادہ ہے۔ اس کے تازہ بیان میں ہندوستان کو نصیحت کی گئی ہے کہ ’’اس بات کو یقینی بنائے کہ اختلافات تنازعات میں تبدیل نہ ہوں۔‘‘ یہ طرفہ تماشا ہے۔ وہ ایک طرف جارحانہ پیش قدمی کرتا ہے اور دوسری طرف دوستانہ مشورہ دیتے ہوئے باہمی تعلقات میں اشتراک و تعاون کی اہمیت سمجھاتا ہے۔ نیپال اور بنگلہ دیش کا طرز عمل بھی، جس پر اس کالم میں گزشتہ روز اظہار خیال کیا گیا، مثبت پیش رفت کا متقاضی ہے مگر حکومت اس پر بھی خاموش ہے۔ ترجیحات کئی ہوسکتی تھیں مگر سب کو پس پشت ڈال کر بھومی پوجن کو اولین ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ 
 ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بی جے پی اگر سخت گیر ہندوتوا پر، تو کانگریس نرم ہندوتوا کی اپنی پرانی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کے دل میں اچانک سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی محبت جاگ اُٹھی جن کے دور میں بابری مسجد شہید کی گئی تھی۔ کیوں نہ ہو، شہادت سے پہلے کانگریس ہی کے اقتدار میں بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی اور پھر تالہ کھلوایا گیا تھا۔ اب دیکھ لیجئے پرینکا گاندھی کیا کہتی ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK