Inquilab Logo Happiest Places to Work

حضرت علیؓ ، مظہر ربانی اور سیرت نبوی ؐکا حسین اِمتزاج تھے

Updated: May 15, 2020, 12:54 PM IST | Dr Jahangir Hasan Misbahi

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فاضلانہ اخلاق و کردار کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے، اگر واقعی ہمیں اُن سے سچی عقیدت اور محبت ہے تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ آپ جس مشن کے بہی خواہ رہے اور جس مشن کی تکمیل میں آپ نے جان تک قربان کردی ، ہم بھی آپ کے مشن کو زندہ رکھیں ،اس کو فروغ دیں اور اِس کےساتھ آپ کے فاضلانہ اخلاق کے نور سےاپنے اعمال و کردار کو منور بنائے رکھیں ۔

Hazrat Ali - Pic : INN
حضرت علی ۔ تصویر : آئی این این

اللہ کے شیر، ابوتراب حضرت علی کرم اللہ وجہہ (۵۹۹-۶۶۱ء) صغر سنی میں ایمان لائے اور اُسی وقت سے حیات نبوی کی عملی تفسیر اور قولی تعبیر کی اعلیٰ مثال کے طورپر دنیائے انسانی کے سامنے جلوہ بار ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ہی آپ کی شان عظمت کی گواہی دی اور مختلف مواقع پر مختلف اقوال کے ذریعے اس پر مہر بھی ثبت کردی کہ کسی کو ذرہ برابر بھی کوئی شک باقی نہ رہے۔ مثال کے طور پر آپ ﷺفرماتے ہیں: میں جس کا مددگار و خیرخواہ ہوں علی بھی اُس کا مددگاروخیرخواہ ہے اور اگراِس کے معنی میں کچھ وسعت دی جائے تو بجاطورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ علی جس کا مددگار و خیرخواہ نہیں میں بھی اُس کا مددگار وخیر خواہ نہیں۔ لہٰذا جو لوگ حضرت علی ؓکی عظمت کو اپنے دلوں کی گہرائی میں اُتار نہ پائے ہوں یا کبھی اس پر غور نہ کیا ہو وہ غفلت سے بیدار ہوجائیں۔ 
 ایک مقام پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میں علم و ادب کا شہر ہوں اور علیؓ اُس کا دروازہ ہیں۔ اس سے یہ بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی لاکھ سرور کائناتؐ سے محبت کرلے اور مولائے کائنات سے نہ رکھے تو بلاشبہ وہ حب نبویؐ کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی علامۃ الدہر ہوجائے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جاہ و عظمت کو نہ جانے اور اُس کی معرفت نہ رکھے تو اسے اپنے عمل پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ تمام علمائے زمانہ اِس پہلو پر بھی سنجیدگی سے غور کرلیں۔ سردست ہم مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ کے اخلاق وکردار کے حوالے سے کچھ گفتگو کریں گے:
مسلمانوں کا احترام: جس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے زمام خلافت سنبھالی وہ انتہائی خلفشاری اور بے چینی کا عہد تھا، مگر آپ ؓنے بڑی پامردی اور دوراندیشی سے کام لیا اور کسی بھی طرح کی افراتفری کو پنپنے نہیں دیا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان باہمی احترام کے جذبے کو بہرحال فروغ دیا تاکہ مسلمانوں کے درمیان خون ریزی نہ ہو، اور جان ومال کی تباہی و بربادی نہ ہونے پائے۔ چنانچہ قوم کے نام اپنے اولین خطاب میںآپؓ نےفرمایا:
اللہ کاکلام ہادی ہے اور خیر و شر کے درمیان واضح فرق کی نشاندہی کرتاہے، لہٰذا خیر کو اختیار کرو اور شر سے بچو۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو محترم بنایاہے، ان میں سب سے بلند وبرتر اور محترم ذات ایک مسلمان کی ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائے۔ عوام و خواص دونوں کے حقوق ادا کرنے میں جلدی کرو۔ اللہ کے بندوں اور اُن کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ رب العزت سے خوف کھاتےرہو۔ تم سے چوپائے اور زمین کے بارے میں بھی پوچھا جائےگا، اس لئے اللہ کی اطاعت کرو اور اُس کی نافرمانی سے بچو، اگر خیر کا عمل دیکھو تو اُس کو اختیار کرو اور اگر بُرا عمل دیکھو تواُس کو ترک کردو۔
دنیا سے بے رغبتی: دُنیا سے بےرغبتی کی باتیں کی جائیں توحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حیات کا یہ پہلو بھی اِنتہائی قابل رشک ہےکہ آپ دنیاسے بےرغبتی اور خشیت الٰہی اور خوف ربانی کا مجموعہ تھے۔ بقول زید بن وہب: آپ اس قدر سادگی پسندتھے کہ آپ کی سادگی پر ہر کسی کو تعجب ہوتا تھا۔  ایک بار آپ اپنے گھر سے نکلے توجسم پر ایک ایساتہہ بند تھا جو انتہائی بوسیدہ تھا اور آپ کا کمربندکپڑے کا ایک چیتھڑا تھا، اس سلسلے میں  آپؓ  سے کہا گیاکہ آپؓ اس لباس میں کس طرح رہتے ہیں، اس پرآپؓ نے فرمایاکہ میںیہ لباس اس لئے پسند کرتاہوں کہ یہ نمائش اور نام و نمودسے بہت دور ہے، نماز میں آرام دہ ہے اور مومن کی سنت ہے۔
لیکن ہمارا کیا حال ہے یہ ہم سب پربخوبی عیاں ہے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے دُنیاکے تمام عیش و آرام ترک کردیئے اور آج ہم ہیں کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اللہ کی رضا و خوشنودی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے،  پھر بھی اِس اُمید میں رہتے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہمیں کو ملے،’’وائے ناکامی کہ احساس زیاں جاتا  رہا! ‘‘
معاشرتی حقوق اور دائرۂ کار: جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ نرمی و شفقت کا معاملہ رکھتےتھے کہ اُن سے مزاح بھی کرتےاور اُن کی دل جوئی بھی فرماتےتھے بعینہ یہی حال اور طرز عمل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کابھی تھا، اورآپ ایسے اشخاص کو پسند بھی کرتے تھے جو بچوں کے ساتھ ہمدردی و دل لگی اور دل جوئی کا معاملہ رکھے۔ بچوںکے سامنے بالخصوص ایسی گفتگو اور ایسا ہی عمل انجام دیتےکہ جس کا بہتر سے بہتر اَثر بچوں کے دل و دماغ  پر پڑے۔ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں: باپ کا بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر حق ہے۔ باپ کا حق یہ ہے کہ بیٹا ہر حال میں اس کی اطاعت و تابعداری کرے، البتہ! باپ اگرکسی معصیت وگناہ کےکرنے کا حکم دے تو اُس میں اس کی تابعداری نہ کی جائے، اور باپ پر بیٹے کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور قرآن کی تعلیم دلائے۔
معلوم ہواکہ ایک کامیاب معاشرے کے لئے بڑے اور چھوٹے کا ادب و احترام اور شفقت و ہمدردی انتہائی ضروری ہے۔ یعنی ایک باپ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور شفقت و ہمدردی سے پیش آئے۔ ان کو اچھی سے اچھی تعلیم دےاوراُن کی عمدہ سے عمدہ تربیت کرے، اُنہیں بیہودہ باتوں سے بچائے۔ دوسری طرف بچوں پر بھی لازم ہے کہ وہ بڑوں کا ادب و احترام کریں، اور یہ تمام اخلاقی خوبیاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اندر بخوبی موجود تھیں لیکن آج جو صورت حال ہےوہ انتہائی افسوسناک ہےاور اس کی اصل یہ وجہ ہے کہ آج ہم نےبچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا کم کردیا ہے اور اگر دیتے بھی ہیں تو محض مغربی طرز تعلیم کو کافی سمجھ لیتے ہیں اور ہدایت والی کتاب قرآن مقدس کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔
 عدالت کا سامنا: جنگ جمل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ کھوگئی جو ایک یہودی شخص کے ہاتھ لگی۔ معاملہ جناب قاضی شریحؒ کی عدالت میں پہنچا۔ آپ ایک مدعی کی حیثیت سے جج کے سامنےپیش ہوئے اور اپنا مقدمہ رکھا۔ جج نے آپ سے گواہ کا مطالبہ کیا۔ آپ نے اپنے بیٹے حسنؓ اور اپنے غلام قنبر کو بطور گواہ پیش کیا لیکن قاضی شریحؒ نے یہ کہتے ہوئے آپ کے دونوں گواہوں کو رد کردیا کہ بیٹے کی گواہی  باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی مالک کے حق میں قبول نہیں، اور فیصلہ یہودی شخص کے حق میں دےدیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب سے اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کے باب میں ایک شاہکارتاریخی عمل کا اضافہ یہ ہے کہ آپ خلیفہ راشد ہوتے ہوئےخود جج کے پاس تشریف لے گئے اور  اُن کے فیصلے پر بےچوںچرا عمل کیا۔ یہ موجودہ عہد میں بالخصوص تمام مسلمانوں کے لئےتازیانہ عبرت ہے۔
بیت المال کی اَمانت کا خیال: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے عہدِ خلافت میں جس فاضلانہ اخلاق وکردار کا مظاہرہ کیا وہ آبِ زر سے لکھے جانے قابل ہے اور بہرحال ایک مرد مومن کے لئے سامانِ نجات ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جب تک آپ تخت خلیفہ پرمتمکن رہے بیت المال کاایک دانہ بھی اپنے ذاتی مصرف پر خرچ نہیں کیا، بلکہ ملنے والےذاتی تحفے تحائف کو بھی رعایا کی امانت سمجھا اور  اُنہیں بیت المال میں جمع کروادیا۔ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں: اےلوگو، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! میںنے تمہارے مال سے نہ تھوڑا لیا اور نہ زیادہ سوائے اِس چیز کے، اور جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکالی جس میں ایک قسم کی خوشبو تھی۔ پھرآپ نے فرمایا کہ یہ خوشبو کی شیشی مجھے ایک دیہاتی نے بطور تحفہ پیش کی ہے۔ اس کے بعد آپ بیت المال گئے اورخزانچی سے فرمایاکہ یہ لو۔ اس طرح آپؓ نے  اُسے بھی بیت المال میں جمع کروا دیا۔
 بیت المال کی  اتنی اور ایسی حفاظت کی نظیر شاید ہی کہیں مل سکے لیکن آج مسلمانوں کا معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ جہاں کہیں اعلیٰ مناصب ملے نہیں کہ اللہ کا خوف دل سے یکسر نکل جاتاہےاور پھر ایسے ایسے اخلاقی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیںکہ اللہ کی پناہ! ایسے افراد کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کایہ مثالی عمل بطور خاص نمونہ ہے۔
قاتل کے ساتھ مثالی سلوک: حضرت علی کرم اللہ وجہہ اخلاق و کردار کے عرش پر متمکن تھے کہ جان جارہی تھی لیکن ایسے عالم میں بھی اپنی پیاس پراپنے قاتل کی پیاس کو ترجیح دی۔ یعنی اِبن ملجم جس نےآپ پرمسموم تلوارسے ایسی کاری ضرب لگائی کہ اُسی کے سبب آپ  نے داعی ٔ اجل کو لبیک کہا لیکن جب ملجم گرفتارہوا، اور پیش کیا گیا تو اُس کی شکل دیکھتے ہی آپ نےیہ حکم دیا کہ ’’پہلے اِس کی پیاس بجھائی جائے۔‘‘ پہلے اِس کی پیاس بجھائی جائے‘‘ ایسا معنی خیزجملہ کس کی زبان سے نکل سکتا ہے ؟یہ وہی مثالی فردکہہ سکتا ہے جو صفات الٰہی کا مظہرہوگا اور جس کے اندر سیرت نبویؐ کی جلوہ گری ہوگی۔بلکہ واضح لفظوں میں کہا جائے تو اِس قدر عالی ظرفی کا مظاہرہ وہی کرسکتا ہے جو آسمانِ اخلاق و کردار پرمثل آفتاب و ماہتاب چمکتا ہوگا۔ مزید اپنے قاتل ابن ملجم کے تعلق سے آپ نے اپنے بیٹوں سےیہ وصیت بھی فرمائی کہ اے فرزندو! مسلمانوں کا خون نہ بہانا، تم کہوگے کہ امیرالمومنین قتل کردیئے گئے، مگر خبردار! سوائے میرے قاتل کے کسی دوسرے کو سزا نہ دینا، دیکھو اگر میں اس وار سے فوت ہوجاتاہوں تواُس پر بھی ایک ہی وار کرنا، اس کا چہرہ نہ بگاڑنا، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ خبردار! کسی جاندارکومُثلہ نہ کیا جائے خواہ وہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو۔ آپؓ نےاس بات پر بھی زور دیا کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے، اگر زندہ رہاتو سوچوں گا، معاف کروں یا قصاص لوں اور اگر اس دنیا سے رخ ہوجاؤں تو ایک جان کا بدلہ ایک ہی جان لیاجائے۔
غرضیکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فاضلانہ اخلاق و کردار کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے، اگر واقعی ہمیں اسلام کی اس برگزیدہ شخصیت  سے سچی عقیدت اور محبت ہے تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ آپؓ جس مشن کے بہی خواہ رہے اور جس مشن کی تکمیل میں آپؓ نے جان تک قربان کردی، ہم بھی آپ کے مشن کو زندہ رکھیں، اس کو فروغ دیں اور اِس کےساتھ آپؓ کے فاضلانہ اخلاق کے نور سےاپنے اعمال و کردار کو منور بنائے رکھیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK