Inquilab Logo

یوم جمہوریہ اور عوام کی جمہوری ذمہ داری

Updated: January 26, 2020, 10:06 AM IST | Editorial

آج ہم اپنے ملک کے جمہوری قالب میں ڈھلنے کی عظیم الشان سالگرہ منا رہے ہیں۔ یہ دن ملک کے عوام کو اپنے جمہوری ہونے کی یاد ہی نہیں دلاتا، اس عزم کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ وہ اپنی جمہوریت کی حفاظت اور جمہوری قدروں کے فروغ کیلئے سرگرم رہیں گے۔

یوم جمہوریہ ۔ تصویر : آئی این این
یوم جمہوریہ ۔ تصویر : آئی این این

  آج ہم اپنے ملک کے جمہوری قالب میں ڈھلنے کی عظیم الشان سالگرہ منا رہے ہیں۔ یہ دن ملک کے عوام کو اپنے جمہوری ہونے کی یاد ہی نہیں دلاتا، اس عزم کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ وہ اپنی جمہوریت کی حفاظت اور جمہوری قدروں کے فروغ کیلئے سرگرم رہیں گے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کوئی دوسرا طرز حکومت جمہوری طرز حکومت جیسا عوام کو طاقت اور اپنے حکمراں خود منتخب کرنے کا موقع دینے والا نہیں ہوسکتا۔ ہماری جمہوریت کی بنیاد وہ آئین ہےجو ملک کی روح ہے اور جس نے ایک ایک شہری کو برابری کا حق عطا کیا ہے۔ جمہوریت کی حفاظت آئین کی حفاظت ہے اور آئین کی حفاظت اپنے وجود اور وطن کی حفاظت ہے یہ ایقان ملک کے ایک ایک شہری میں ہونا چاہئے تاکہ ہر خاص و عام ان کے تئیں خود کو ذمہ دار محسوس کرے۔ جس طرح یہ سمجھنا غلط ہے کہ پانی اور ہوا دستیاب نہ ہونے کے باوجود کوئی پیڑ مضبوطی کے ساتھ زمین پر کھڑا رہے گا، بالکل اُسی طرح یہ تصور بھی غلط ہے کہ جمہوریت اپنے آپ زندہ رہے گی۔
  یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ بیشتر شہریوں کی توجہ اس جانب ہے ہی نہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ الیکشن میں ووٹ دے دینا کافی ہے۔ اس سے جمہوریت کا تحفظ ہوجائے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ جمہوریت کو مستقل نشوونما کی ضرورت ہوتی ہے۔ ووٹ دے دینا ایک فرض کی ادائیگی ہے۔ مگر یہ واحد فرض نہیں ہے۔ اور بھی کئی فرائض ہیں مثلاً جب کوئی قانون بنتا ہے تو اس کے مضمرات کو سمجھنا، قابل قبول ہوں تو قبول کرنا، قابل قبول نہ ہوں تو اپنا اعتراض اور احتجاج درج کرانا بھی جمہوریت کے تحفظ کا تقاضا ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی شہری کسی جمہوری حق سے محروم ہو تو اُسے یہ سوچ کر خاموش نہیں ہوجانا چاہئے کہ چلئے شاید میری قسمت ہی میں نہیں تھا۔ اس کیلئے اُسے جدوجہد کرنی چاہئے اور اگر وہ حق اُسے تو حاصل ہے کسی دوسرے کو حاصل نہیں تو اُسے، اُس دوسرے شخص کے حق کیلئے بھی تگ و دَو کرنی چاہئے۔ اس کلیہ کی روشنی میں سوچئے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو دلتوں کے حقوق کی پروا کرتے ہیں، کتنے ہیں جو پسماندہ طبقات کے حقوق کی فکر کرتے ہیں، کتنے ہیں جو قبائلیوں کے حقوق پر توجہ دیتے ہیں، کتنے ہیں جو خواتین کے حقوق کی پامالی کیخلاف آواز اُٹھاتے ہیں اور کتنے ہیں جنہیں طلبہ کے مسائل کا علم ہوتا ہے اور وہ اُن کے جمہوری حق کے اتلاف کو اپنا مسئلہ تصور کرتے ہوئے میدان عمل میں آتے ہیں؟ 
 ایک غلط خیال یہ بھی ہے جو شعوری یا لاشعوری طور پر ملک کے عوام کی اکثریت میں راسخ ہوچکا ہے کہ جمہوریت کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ حکومت ذمہ دار نہیں، ایسا نہیں ہے مگر یہ عوام کی بھی اُتنی ہی بلکہ اُس سے زیادہ ذمہ داری ہے۔ اگر اُمورِ جمہوریت میں عوامی شرکت اور فعالیت یقینی ہوجائے تو کوئی حکومت عوام کے استحصال کی جرأت ہی نہ کرے۔ عوامی شرکت اور فعالیت کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے سوال کریں گے۔ اُن کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔ یہ جاننا چاہیں گے کہ کارپوریشن، اسمبلی یا پارلیمنٹ میں اُس کی حاضری کتنی ہے، وہ کتنے سوال کرتا ہے، اپنے حلقۂ انتخاب کی ترقی کیلئے اُسے جو فنڈ ملتا ہے اُسے کہاں اور کتنا خرچ کرتا ہے اور یہ کہ قومی موضوعات پر ہونے والے مباحث میں اُس کی شرکت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، اگر ہوتی ہے تو اس کا معیار کیا ہے۔ جمہوریت کو توانائی بخشنے کیلئے یہ ضروری ہے، مگر آئیے ہم خود سے سوال کریں کہ کیا ہم اپنی اس ذمہ داری کو انجام دینا تو دور کی بات کیا اس سے واقف ہیں؟ حکومتیں تو جمہوریت کو کمزور کرتی ہیں، مگر عوام اپنی عدم شرکت اور عدم فعالیت کے سبب اُسے زیادہ کمزور کرتے ہیں۔ یوم جمہوریہ اس لئے آتا ہے تاکہ آپ کو ہم کو یاد دلائے کہ اپنے جمہوریہ کے تئیں ہماری بھی ذمہ داری ہے جسے ادا کرنا لازمی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK