Inquilab Logo

راہیں مشکل ہیں مگر منزل دور نہیں

Updated: July 26, 2020, 9:14 AM IST | Dr Mushtaque Ahmed

ابھی حال ہی میں بہار پبلک سروس کمیشن کے تحریری امتحان کا نتیجہ سامنے آیا ہے جس میں پٹنہ حج ہاؤس سے کوچنگ یافتہ ۵۷؍ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، اس میں ۱۶؍ طالبات بھی شامل ہیں۔مسلم سماج کی بہتری کیلئے اس طرح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں ہمارے طلبہ کی کامیابی بہت ضروری ہے۔ بلاشبہ یہ راہیں مشکل ضرور ہیں لیکن محنت ومشقت کرنے والوں کیلئے منزل دور نہیں ہے

Exam - Pic : INN
امتحان ۔ تصویر : آئی این این

بہار ان دنوں کئی طرح کی قدرتی آفات سے دوچار ہے۔گزشتہ پانچ ماہ سے عالمی وبا کورونا کے مضراثرات سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں تو سیکڑوں افراد بجلی سے اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں اور اب سیلاب کی تباہی نے لاکھوں افراد کو بے سروساماں کردیا ہے ۔سیلاب شمالی بہار کا مقدر بن چکا ہے کہ ہر سال اس کی تباہی سے۱۵؍ سے زائد اضلاع غرقاب ہوتے ہیں، سیکڑوں افراد کی جانیں جاتی ہیں اور لاکھوں کے سرسے چھت چھِن جاتی ہے مگر اس مسئلۂ دیرینہ کا حل نہیں نکل پاتا۔ آزادی کے قبل ہی سے شمالی بہار سیلاب کی زد  پر رہا ہے اور آج بھی دربھنگہ، مدھوبنی، سیتا مڑھی، شیوہر، مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، مظفرپور، سمستی پور، مدھے پورہ، سپول، سہرسہ، پورنیہ، ارریہ ، کشن گنج اور فاربس گنج جیسے اضلاع کے بیشتر عوام سیلاب کی وجہ سے پریشان ہیں۔ دراصل سیلاب بہار کی سیاست کا ایک سنگین مسئلہ ہے کہ پڑوسی ملک نیپال جب کبھی اپنے ملک میں پانی کی زیادتی کو کم کرنے کیلئے اپنی ندیوں کا منہ ہندوستان کے ان علاقوں کی طرف کھولتا ہے تو شمالی بہار کی درجنوں ندیوں مثلاً کوسی، گنڈک، باگمتی، کریہہ اور ادھوارا وغیرہ میں پانی میدانی علاقوں میں پھیل جاتا ہے۔
  آزادی کے فوراً بعد ۱۹۵۷ء میں اس مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے بھی ہوئے مگر اس معاہدے کی روشنی میں عملی اقدام نہیں اٹھایا گیاالبتہ ہر پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے وقت سیلاب کا مسئلہ ہاٹ کیک کی طرح سامنے آتا ہے اور سیاسی جماعتوں کیلئے زرخیزی کا سامان ثابت ہوتا ہے اور انتخابی نتائج کے بعد مسئلہ جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے ۔ اس کیلئے کسی ایک سیاسی جماعت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتاکہ آزادی کے بعد ملک کی کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جسے مرکز اور ریاست میں حکومت کا مکمل یا جزوی موقع نہ ملا ہو لیکن کوئی سیاسی جماعت اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکی البتہ ہر سال سیلاب آتا ہے ، حکومت راحت کاری کا اعلان کرتی ہے ، بازآباد کاری کیلئے فنڈس مختص ہوتے ہیں اور برسوں سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔اسلئے شمالی بہار کے لوگوں کیلئے سیلاب مقدر بن چکا ہے اور ہر سال روپیٹ کر اس تباہی کو جھیل لیتے ہیں ۔ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔  
 بہر کیف!موجودہ دورِپریشانی اور زندگی وموت کے تماشوں کے درمیان ایک ایسی خبر بھی آئی ہے جو دل کو ذرا سکون دینے والی ہے  بالخصوص اقلیتی  طبقے کیلئے امید کی کرن لے کر آئی ہے ۔حال ہی میں بہار پبلک سروس کمیشن پٹنہ کے زیر اہتمام منعقدہ ۶۴؍ویں بی پی ایس سی تحریری امتحان کا نتیجہ سامنے آیا ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسی امتحان کے نتائج کی بنیاد پر بہار کی ایڈمنسٹریٹو سروس کیلئے امیدواروں کا انتخاب ہوتا ہے ۔ غرض کہ ڈپٹی کلکٹر، محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی اور دیگر محکموں کیلئے اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا عمل انجام پاتا ہے ۔ اسلئے بہار میں بی پی ایس سی امتحان کی ایک غیر معمولی اہمیت ہے ۔ اس امتحان میں لاکھوں طلبہ شامل ہوتے ہیں اور امتحان کے تینوں مراحل سے گزرکر یعنی پی ٹی، مین تحریری اور پھر انٹرویو میں کامیابی کے بعد وہ سرکاری ملازمت کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ ماضی میں اس اہم امتحان کی طرف مسلم طبقے کی توجہ کم رہی ہے جس کی وجہ سے کامیاب امیدواروں میں مسلم نمائندگی کم رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں ایک خوشگوار اضافہ ہو اہے کہ مسلم طبقے کی نمائندگی بڑھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہماری بیداری ہی ہمیں اپنی منزلوں تک پہنچا سکتی ہے۔ اس بیداری کیلئے قومی سطح پر بھی کوششیں کی گئی ہیں کہ قومی مقابلہ جاتی امتحان اور ریاستی مقابلہ جاتی امتحانات میںمسلم امیدواروں کی حصہ داری میں اضافہ ہو ۔ قومی امتحان بالخصوص یوپی ایس سی کیلئے دہلی میں زکوٰۃ فائونڈیشن، جامعہ ہمدرد، جامعہ ملّیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،حج ہاؤس ممبئی، حج ہاؤس پٹنہ اور کئی رضا کار تنظیموں کے ذریعہ کرناٹک، جموں کشمیر، تمل ناڈو  اور مغربی بنگال وغیرہ میں مفت کوچنگ کا اہتمام برائے اقلیتی طبقہ برسوں سے چل رہاہے اور ان کی کوششوں سے خاطر خواہ فائدہ بھی مل رہاہے۔ اسی طرح بہار میں رحمانی فائونڈیشن مونگیر ، جس کی قیادت مفکر اسلام مولانا ولی رحمانی ، امیر شریعت بہار ، ادیشہ وجھارکھنڈ ، انجینئرنگ اور میڈیکل کے طلبہ کیلئے کوچنگ کرائی جاتی ہے اور اس کا بھی نتیجہ امید افزا رہا ہے۔
  جہاں تک بہار میں حج ہاؤس اور دیگر اضلاع میں مفت کوچنگ کاسوال ہے تو یہ عامر سبحانی(چیف پرنسپل سیکریٹری محکمہ داخلہ و محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود، حکومتِ بہار)کی فکر مندی کا نتیجہ ہے۔ واضح ہو کہ ان کی ایما پر ہی حکومتِ بہار نے اقلیتی طبقے کے طلبہ کیلئے پٹنہ کے حج ہاؤس میں مختلف مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے مفت رہائشی کوچنگ کا اہتمام کیا۔اس کے ساتھ ہی دربھنگہ، کٹیہار ، بھاگلپور، موتیہاری اورآرہ میں بھی مفت کوچنگ مراکز قائم کئے گئے ۔ ان تمام مراکز سے اب تک ہزاروں طلبہ مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے اپنا مستقبل روشن کر چکے ہیں۔
  گزشتہ دنوں بہار پبلک سروس کمیشن کے ۶۴؍ویں بی پی ایس سی مینس تحریری امتحان کا نتیجہ سامنے آیا ہے جس میں حج ہاؤس سے کوچنگ یافتہ ۵۷؍ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، اس میں ۱۶؍ طالبات بھی شامل ہیں۔محکمہ اقلیت فلاح حکومت بہار اور مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی پٹنہ کے زیر اہتمام پی ٹی ، مینس اورپھر انٹرویو کی تیاری کیلئے تمام تر سہولیات دی جاتی ہیں۔ حج ہاؤس پٹنہ میں رہائش کا بھی انتظام ہے اور قیام کے ساتھ ساتھ طعام کی بھی سہولت میسر ہے ۔ عامر سبحانی کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے یہ کوچنگ غریب مسلم ذہین طلبہ کیلئے امید وبیم کا ایک نیا مرکز بن گیاہے۔ حج بھون میں اس کوچنگ کے نگراں محمد راشد نے کووڈ۔۱۹؍کے مدنظر تحریری امتحان میں کامیاب طلبہ کیلئے آن لائن انٹرویو کوچنگ کا اہتمام کیا ہے تاکہ یہ کامیاب طلبہ انٹرویو کے مراحل میں بھی اپنا بہتر مظاہرہ کر سکیں اور کامیابی حاصل کر سکیں۔ اس کوچنگ کی وجہ سے ایسے طلبہ بھی مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہو رہے ہیں جو اقتصادی طورپر پسماندہ ہیں۔ ساتھ ہی  عامر سبحانی کی مساعیٔ جمیلہ کی وجہ سے محکمہ اقلیت ، حکومت بہار کے اعلیٰ حکام بھی کافی دلچسپی لیتے ہیں۔کچھ دنوں قبل تک شہر یار اقبال فیصل اس محکمہ کے ڈائریکٹر تھے ،اب راشد فیضی  اس کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے کوچنگ کو تقویت مل رہی ہے ۔ مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر خالد مرزا ، رجسٹرار کرنل کامیش کمار اور ترقیاتی آفیسر ڈاکٹر انعام ظفر کی کوششیں بھی قابلِ تحسین ہیں کہ یونیورسٹی اس کوچنگ پروگرام کی نوڈل ایجنسی ہے اور کوچنگ کے مسائل کے حل میں پیش پیش رہتے ہیں ۔
 مختصر یہ کہ محکمہ اقلیت فلاح وبہبود، حکومتِ بہار کا یہ فلاحی منصوبہ ریاست کے اقلیتی طبقے کے اندر ایک نئی بیداری کا ذریعہ ثابت ہو رہاہے اور طلباء وطالبات کے اندر مقابلہ جاتی امتحان کے تئیں دلچسپی بڑھی ہے لیکن آبادی کے تناسب میں ابھی جد وجہد کی ضرورت ہے کہ اب یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ ملک کے تمام اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا واحد وسیلہ مقابلہ جاتی امتحان ہے اور یہ تلخ حقیقت بھی سامنے ہے کہ ہمارے طبقے کی حصہ داری آبادی کے تناسب میں کم ہے جبکہ اپنی شناخت مستحکم کرنے اور معاشرے میں نئی روح پھونکنے کیلئے مین اسٹریم انتظامیہ میں ہماری حصہ داری ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ راہیں مشکل ضرور ہیں لیکن محنت ومشقت کرنے والوں کیلئے منزل دور نہیں ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر صحت مند فکر اور فروعی مسائل سے دور ہو کر اس طرح کے فلاحی مراکز سے استفادہ کریں اور قوم وملّت کی تصویر کو بدلنے کی کوشش کریں کہ جب تک ہمارے معاشرے کی تصویر نہیں بدلے گی اس وقت تک ہم اپنی تقدیر بھی نہیں بدل سکتے۔ حج ہاؤس کے منجملہ اراکین اور دیگر مراکز کے معاونین بھی اس کامیابی کیلئے قابلِ مبارکباد ہیں کہ ان کی کوششوں سے ریاست بہار میں مقابلہ جاتی امتحانات کا ماحول سازگار ہو رہا ہے اور مختلف مقابلہ جاتی امتحانات کے نتائج میں مسلمانوںکی نمائندگی کا گراف دنوں دن بڑھ رہا ہے ۔ یہاں اس حقیقت کا بھی اعتراف ضروری ہے کہ محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود نے بہار پبلک سروس کمیشن ، یوپی ایس سی کے علاوہ سی ٹیٹ، ایس ٹیٹ، ایس ایس سی، بہار پولیس سب انسپکٹر، بینکنگ اور ریلوے وغیرہ جیسے مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے بھی مفت کوچنگ کی سہولیات فراہم کرائی ہیں ۔راقم الحروف کی نگرانی میںدربھنگہ میں بھی گزشتہ پانچ برسوںسے مختلف مقابلہ جاتی امتحانات کی مفت کوچنگ کرائی جاتی ہے ۔ سالِ رواں میں سی ایم کالج ،دربھنگہ کے مرکز سے بی پی ایس سی(پی ٹی) کے امتحان میں ۲۲؍ طلبہ کامیاب ہوئے ہیں جبکہ سی ٹیٹ مقابلہ جاتی امتحان میں اب تک ۱۲۶؍ طلبہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح بہار پولیس سروس کے پی ٹی امتحان میں بھی ایک درجن طلبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ دیگر مراکز بھاگلپور ، کٹیہار ، موتیہاری اور آرہ سے بھی ایک بڑی تعداد میں طلبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے مسلم معاشرے میں مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں تھوڑی سی سنجیدگی بڑھی ہے ۔ دیگر اضلاع میں بھی اس طرح کے مراکز قائم کئے جا سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ مسلم طبقے کے سنجیدہ لوگ اس کیلئے آگے بڑھیں اور محکمہ اقلیتی فلاح وبہبودسے رابطہ قائم کر کے کوچنگ کے قیام کیلئے راہیں ہموار کریں کہ وقت کا تقاضایہی ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK