Inquilab Logo

روہنگیا اور کرۂ ارض کے دیگر پناہ گزیں

Updated: September 26, 2020, 10:45 AM IST | Editorial | Mumbai

کورونا کی وباء کیا پھیلی، دُنیا کا ہر موضوع پیچھے چلا گیا۔ اس دوران کسی کو اُن لوگوں کی یاد نہیں آئی جو کورونا کے ظلم کے بہت پہلے سے دُنیا کے ظلم و جبر کا نشانہ تھے اور اب دُہری مار جھیل رہے ہیں ۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 کورونا کی وباء کیا پھیلی، دُنیا کا ہر موضوع پیچھے چلا گیا۔ اس دوران کسی کو اُن لوگوں کی یاد نہیں آئی جو کورونا کے ظلم کے بہت پہلے سے دُنیا کے ظلم و جبر کا نشانہ تھے اور اب دُہری مار جھیل رہے ہیں کیونکہ جو ظلم پہلے سے جاری تھا وہ تو ہنوز جاری ہے، اب اُنہیں کورونا سے بھی لوہا لینا ہے۔ ایسے لوگوں میں وہ پناہ گزیں ہیں جو یا تو اپنے ہی ملک میں بےگھر اور دربدر ہوئے یا دیگر ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ انہی میں شامل ہیں وہ ۷؍ لاکھ روہنگیا جو بنگلہ دیش میں گزشتہ تین سال سے بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں مگر دُنیا کا کوئی ملک اور ادارہ میانمار سے دوٹوک گفتگو کرکے انہیں اپنے وطن میں دوبارہ بسانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ 
 گزشتہ دنوں (جمعرات کو) ایک اعلیٰ سطحی وفد نے بنگلہ دیش کے پناہ گزیں کیمپوں کے روہنگیاؤں سے ملاقات کی۔ ایسے حالات میں جب ہر ملک کے مقتدر اداروں پر کورونا سے نمٹنے کا دباؤ ہے، اس اعلیٰ سطحی وفد نے جس احساس ذمہ داری کا ثبوت دیا اس کی ستائش نہ کرنا بخل سے کام لینا ہوگا۔ ان میں اقوام متحدہ کے ریسیڈنٹ کو آرڈی نیٹر، امریکہ اور یورپی یونین کے سفیر، کناڈین ہائی کمیشن میں شعبہ ٔ امدادِ انسانی کے سربراہ، برطانوی ہائی کمشنر اور عالمی بینک کے مقامی ڈائریکٹر شامل تھے۔ اتنے بڑے اور اعلیٰ سطحی وفد نے دورہ کے اختتام پر جاری شدہ بیان میں کہا کہ روہنگیاؤں کے مسئلہ کا حل میانمار کے پاس ہے۔ 
 اُمید کی جاتی ہے کہ وفد میں شامل لوگ اپنے اختیارات اور اثرورسوخ کا استعمال کرکے میانمار پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرینگے تا کہ وہ روہنگیاؤں کو باعزت طریقے سے قبول کرے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہوگا؟
 یہ سوال ہرگز پیدا نہ ہوتا اگر اعلیٰ سطحی وفود کی سرگرمیاں علامتی اقدامات سے آگے بڑھتیں ۔ دُنیا کے بیشتر حصوں میں پناہ گزیں کیمپ موجود ہیں جہاں موجود لوگ قطعی غیر انسانی ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں محض اس لئے کہ ان کی فریاد سننے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پوری دُنیا میں کم و بیش ۸۰؍ ملین لوگ اپنے گھر، محلے، شہر حتیٰ کہ ملک کو چھوڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ ان میں ۲۶؍ ملین باقاعدہ پناہ گزیں تسلیم کئے گئے ہیں ۔ وہ چاہے روہنگیا ہوں یا فلسطینی، شام کے پناہ گزیں ہوں یا سوڈان کے۔ یہ زخم جتنا ہرا کل تھا، آج بھی ہے مگر نہ تو اقوام متحدہ اظہارِ ہمدردی کے باوجود ان کے ساتھ انصاف کرسکا ہے نہ ہی عالمی طاقتیں ، جن کے پاس ایک دوسرے کو معاشی طور پر زیر کرنے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے تو وقت ہے مگر پناہ گزینوں کی فریاد سننے اور ان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے وقت نہیں ہے۔ عالمی برادری نے واقعی توجہ کی ہوتی تو دُنیا میں کوئی پناہ گزیں کیمپ باقی نہ رہتا، ہر جگہ کے لوگ اپنے گھرو ں کو لوٹ کر پُرامن و پُرسکون زندگی گزار رہے ہوتے۔ 
 البرٹ آئنسٹائن نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ ’’دُنیا اُن لوگوں کی وجہ سے تباہ نہیں ہوگی جو بدی کا محورو مرکز ہیں بلکہ اُن لوگوں کی وجہ سے ہوگی جو خاموش رہنا اور تماشا دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ روئے زمین پر پناہ گزینی کی زندگی گزارنے والے ایک ایک فرد کی بے بسی بہت حساس بننے والی دُنیا کی بے حسی کا اعلان کرتی ہے اور امن و آشتی نیز حقوق انسانی کی حفاظت کے اس کے دعوؤں کی قلعی کھولتی ہے۔ اگر مذکورہ اعلیٰ سطحی وفد یہ سمجھتا ہے کہ روہنگیاؤں کے مسئلہ کا حل میانمار کے پاس ہے تو اسے سوچنا چاہئے کہ میانمار کے مسئلہ کا حل کس کے پاس ہے؟ کیا اس کا ظلم مسئلہ نہیں ؟ کیا اس کی ہٹ دھرمی مسئلہ نہیں ؟ کیا اس کی نسلی عصبیت مسئلہ نہیں ؟ کیا بڑے پیمانے پر اس کے ذریعہ ہونے والی حقوق انسانی کی پامالی مسئلہ نہیں ؟ عالمی برداری چاہے تو میانمار کا مسئلہ ایک دن میں ٹھیک کردے، تب روہنگیا مسئلہ خود بخود ٹھیک ہوجائیگا مگر کوئی چاہے تب نا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK