Inquilab Logo

سچن، گہلوت تنازع

Updated: December 02, 2022, 10:41 AM IST | Mumbai

بھارت جوڑو یاترا مدھیہ پردیش میں ہے اور توقع سے زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اس کے بعد اسے راجستھان میں داخل ہونا ہے جہاں سچن بمقابلہ گہلوت تنازع کبھی بڑھ جاتا ہے اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ اس کا حل نکل آئیگا۔

Bharat Jodu Yatra is in Madhya Pradesh and is going on with more success than expected; Photo: INN
بھارت جوڑو یاترا مدھیہ پردیش میں ہے اور توقع سے زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے؛تصویر:آئی این این

بھارت جوڑو یاترا مدھیہ پردیش میں ہے اور توقع سے زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اس کے بعد اسے راجستھان میں داخل ہونا ہے جہاں سچن بمقابلہ گہلوت تنازع کبھی بڑھ جاتا ہے اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ اس کا حل نکل آئیگا۔ ہم تنازع سے انکار نہیں کرتے مگر اس میں قومی میڈیا کی غیر معمولی دلچسپی سے نالاں ہیں جو اسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے اور باقاعدہ تنازع میں تبدیل کرنے کیلئے اس حد تک کوشاں ہے کہ جب سچن اور گہلوت یکجا ہوتے ہیں تو اس سے یہ منظر دیکھا نہیں جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس یکجائی میں بھی مین میخ نکالنے لگتا ہے۔ ایسی ہی عادت کی وجہ سے اس کا اعتبار بڑی حد تک ختم ہوگیا ہے۔ 
 سچن گہلوت تنازع کا حل کیا ہے؟ یہ پیچیدہ سوال ہے۔ اتنا پیچیدہ کہ نہ تو سچن پائلیٹ اس کا حل سجھا سکتے ہیں نہ ہی گہلوت اس کے حل سے بحث کرسکتے ہیں۔ ان حضرات سے پوچھا جائے تو یہ خود ساختہ اور اپنے حق میں بہتر حل سجھائیں گے۔ کانگریس اعلیٰ کمان کے پاس حل ہوتا تو تنازع کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ کمان سچن سے وعدہ کرکے (اگر واقعی وعدہ کیا گیا ہے تو) پھنس گیا ہے۔ اس سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ وعدہ کرنے سے پہلے اشوک گہلوت کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا اور اُن سے اقرار کروانا چاہئے تھا۔ اشوک گہلوت کا مسئلہ اُن کا احساس ِ عدم تحفظ ہے کہ اگر سچن نے باگ ڈور سنبھال لی تو اُن کے لئے مسائل پیدا ہوجائینگے، اُن کے جاری کئے ہوئے کام رُک سکتے ہیں، راجستھان کی سیاست پر اُن کا اثرورسوخ کم ہوسکتا ہے اور اُن کے حامیوں کو مناسب عہدوں سے محروم ہونا پڑسکتا ہے۔ ہمارے خیال میں سیاست کے دشت میں عرصۂ دراز تک سیاحی کرنے کے بعدبھی اگر کوئی اس طرح کے عدم تحفظ کا شکار ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس نے کمزور بنیادوں پر سیاست کی شاندار اور پُرشکوہ عمارت کھڑی کی ہے۔ اشوک گہلوت ملک کے قابل احترام اور تجربہ کار لیڈر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سیاست میں سچن کا قد بلند کرنے میں اُن کا بھی ہاتھ ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ پارٹی میں بڑوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے بعد کی نسل کی تربیت کریں اور اُنہیں مناسب عہدوں پر فائز کرکے اُن کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ کہا جاتا ہے کہ گہلوت نے سچن کو مرکزی کابینہ میں جگہ دینے کی سفارش کی تھی۔ یہ اچھا کام تھا۔ خود پائلیٹ نے راجستھان کی سیاست اور انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کیلئے سخت محنت کی ہے۔گزشتہ دنوں راہل گاندھی نے بڑی عمدہ بات کہی کہ دونوں حضرات پارٹی کا سرمایہ ہیں۔ نہ تو سچن کے بغیر پارٹی ترقی کرسکتی ہے نہ گہلوت کے تجربہ کے بغیر انتخابی کامیابیوں کو دُہرایا جاسکتا ہے۔ اس لئے کانگریس اعلیٰ کمان کی حکمت یہ ہونی چاہئے کہ دونوں میں سے کوئی ناراض نہ ہو، پارٹی کیلئے سچن کی خدمات کا اپنا انداز اور دائرہ ہے اور گہلوت کا اپنا انداز اور دائرہ۔ دونوں کو ناراضگی سے بچا لینا آسان نہیں ہے مگر دونوں کو ساتھ بٹھا کر کوشش کرنا پارٹی کے اختیار میں ہے۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سچن کو گہلوت کی موجودہ میعاد پوری ہونے تک انتظار کرنے کیلئے راضی کرلیا جائے تاکہ آئندہ سال ہونے والے الیکشن میں اُن کے یعنی گہلوت کے تجربے سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ سچن کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ اُن کے ساتھ جو اراکین اسمبلی ہیں اُن کی تعداد کم ہے لیکن اُن کے ساتھ عمر ہے۔ وہ آئندہ ایک نہیں کئی بار وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK