Inquilab Logo

حج سے متعلق سعودی عرب کا فیصلہ

Updated: June 14, 2021, 8:50 AM IST | Mumbai

حکومت ِ سعودی عرب کا یہ فیصلہ نہایت افسوسناک ہے کہ اس سال بھی عازمین کی محدود تعداد ہی حج بیت اللہ سے سرفراز ہوسکے گی۔ گزشتہ سال بھی یہی ہوا تھا جبکہ نہ تو گزشتہ سال سعودی عرب میں کووڈ کے متاثرین کی تعداد زیادہ تھی نہ اس سال ہے۔ ہم نے ۱۴؍ مارچ ۲۰۲۰ء سے اب تک کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس دوران کوئی وقت ایسا نہیں آیا جب سعودی میں نئے متاثرین کی تعداد ۵؍ ہزار سے زیادہ رہی ہو۔

Only a limited number of pilgrims will be able to perform Hajj this year.Picture:INN
اس سال بھی عازمین کی محدود تعداد ہی حج بیت اللہ سے سرفراز ہوسکے گی تصویر آئی این این

حکومت ِ سعودی عرب کا یہ فیصلہ نہایت افسوسناک ہے کہ اس سال بھی عازمین کی محدود تعداد ہی حج بیت اللہ سے سرفراز ہوسکے گی۔ گزشتہ سال بھی یہی ہوا تھا جبکہ نہ تو گزشتہ سال سعودی عرب میں کووڈ کے متاثرین کی تعداد زیادہ تھی نہ اس سال ہے۔ ہم نے ۱۴؍ مارچ ۲۰۲۰ء سے اب تک کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس دوران کوئی وقت ایسا نہیں آیا جب سعودی میں نئے متاثرین کی تعداد ۵؍ ہزار سے زیادہ رہی ہو۔ پچھلے سال چونکہ کورونا وائرس کو ٹھیک طریقے سے سمجھا نہیں جاسکا تھا، خوف کی حکمرانی تھی، بہت سے ملکوں میں متاثرین اور مہلوکین کی تعداد دل دہلا دینے والی تھی، اس لئے جب گزشتہ سال ’محدود حج‘ کا فیصلہ کیا گیا تو اسے ایک اہم طبی حکمت عملی کے طور پر، ناگواری کے ساتھ ہی سہی، مان لیا گیا تھا مگر چونکہ کورونا کی وباء کے سائے میں گزشتہ ڈیڑھ سال کی ایک ایک رات اور ایک ایک دن گزرا ہے اس لئے ہر ملک کے عوام جان گئے ہیں کہ وباء سے بچاؤ کی کیا کیا تدابیر ہیں جن کا عمل میں لایا جانا ازحد ضروری ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت ِسعودی عرب بیرونی ملکوں کے عازمین کو، کم تعداد میں ہی سہی، حج بیت اللہ کی اجازت دیتی تو عازمین بہتر تیاری کے ساتھ اُس مقدس سرزمین پر قدم رنجہ ہوتے۔ ان کی جانب سے ہونے والی ہر ممکن احتیاطی تدبیر میں ٹیکہ لینا بھی شامل ہوتا۔ حکومت سعودی عرب کو اختیار تھا کہ وہ مزید احتیاطوں کو لازم کردیتی، مثلاً سعودی پہنچنے کے بعد عازمین کو تین دن یا سات دن قرنطینہ میں رہنے کیلئےکہا جاتا۔ یہ گوارا تھا۔ مگر خدا جانے کیوں ایک ایسا فیصلہ کیا گیا جس سے دُنیا کے لاکھوں عازمین یقینی طور پر دل مسوس کر رہ گئے ہوں گے۔ 
 فریضۂ حج کی ادائیگی کیلئے دُنیا کے ہر خطے کے لوگ پُرجوش ہوتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ فارم پُر کرنے سے پہلے کس نے اس موقع کا کتنا انتظار کیا۔ سفر حج کیلئے مطلوبہ رقم پس انداز کرنے کیلئے کتنے پاپڑبیلے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آن واحد میں حج کا فیصلہ کرتے ہیں اور فارم پُر کردیتے ہیں۔ بہتوں کیلئے یہ گھڑی برسوں کے انتظار کے بعد آتی ہے۔ جتنا انتظار کیا جاتا ہے سفر حج سے اُتنی ہی جذباتی وابستگی بڑھتی جاتی ہے۔ کاش اس جذباتی نزاکت کو پیش نظر رکھا جاتا!
 حج بیت اللہ سے واپسی پر ہر حاجی سعودی عرب کے ذریعہ کئے جانے والے انتظامات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا۔ حکومت ِ سعودی عرب اس پر خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ۵۰ء کی دہائی سے لے کر اب تک حکومت نے زائد از ۱۰۰؍ ارب ڈالر حاجیوں کیلئے بہترین انتظامات پر صرف کئے ہیں۔  جس انداز کے انتظامات کئے گئے ہیں اُن سے یہ نتیجہ اخذ کرتے دیر نہیں لگتی کہ خرچ ہونے والی رقم اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اہمیت رقم کی نہیں بلکہ اُن انتظامات کی ہے جن کے سبب حجاج کرام کو ہر ممکن سہولت میسر آتی ہے اور وہ حج کے تمام ارکان بحسن و خوبی ادا کرپاتے ہیں۔ 
 اگر حسن انتظام وزارت حج یا حکومت سعودی عرب کا خاصہ ہے تو اسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ ممکن تھا کہ ایسے انتظامات کو راہ دی جاتی جن کے سبب حاجیوں میں سوشل ڈسٹنسنگ ہر حال میں قائم رہتی۔ کسی بھی جگہ بھیڑ نہ ہوتی۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ حکومت صرف ۱۰؍ لاکھ لوگوں کو اجازت دیتی جبکہ غیر وبائی دور میں ہر سال کم وبیش ۲۵؍ لاکھ افراد حج کرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا؟n

hajj Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK