Inquilab Logo

فرقہ وارانہ اتحاد کو بچائیے

Updated: April 20, 2022, 10:09 AM IST | Mumbai

رام نومی اور ہنومان جینتی پر ملک کی مختلف ریاستوں میں ہونے والا فرقہ وارانہ تصادم انتہائی افسوسناک ہے۔تصادم کے واقعات جہانگیر پوری (دہلی)، کرولی (راجستھان)، کھرگون (مدھیہ پردیش)، ہولگنڈہ گاؤں (کرنول، آندھرا) اور لوہر دگا (جھارکھنڈ) میں رونما ہوئے

The sectarian clash between Ram navamiand Hanuman Jainti in different states of the country is very sad.
رام نومی اور ہنومان جینتی پر ملک کی مختلف ریاستوں میں ہونے والا فرقہ وارانہ تصادم انتہائی افسوسناک ہے

رام نومی اور ہنومان جینتی پر ملک کی مختلف ریاستوں میں ہونے والا فرقہ وارانہ تصادم انتہائی افسوسناک ہے۔تصادم کے واقعات جہانگیر پوری (دہلی)، کرولی (راجستھان)، کھرگون (مدھیہ پردیش)، ہولگنڈہ گاؤں (کرنول، آندھرا) اور لوہر دگا (جھارکھنڈ) میں رونما ہوئے۔ مزید دو شہروں میں ایسے ہی حالات پیدا ہوئے جن میں ایک ہبلی ہے اور دوسرا بڑودہ (وڑودرہ)۔ ہبلی میں حالات اُس وقت بگڑے جب سوشل میڈیا پر ایک اہانت آمیز پوسٹ دیکھی گئی جبکہ بڑودہ میں دو بائیک سواروں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے کے سبب تصادم ہوا۔ ان دو واقعات کی نوعیت قدرے مختلف ہے مگر ان کے نتیجے میں بھی جو کچھ ہوا وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ دیگر شہروں کے حالات میں دیکھا گیا اور جو نہایت تکلیف دہ ہے۔ جہانگیر پوری، کرولی، کھرگون، ہولگنڈہ اور لوہر دگا کے واقعات میں ایک ہی جیسا پیٹرن صاف گواہی دے رہا ہے کہ یہ واقعات منصوبہ بند تھے۔اگر پولیس نے ضروری فعالیت کامظاہرہ کیا ہوتا تو انہیں روکا جاسکتا تھا۔
 ہر فساد کے بعد دعوؤں اور جوابی دعوؤں کا سیلاب سا آجاتا ہے چنانچہ اب بھی وہی کیفیت ہے۔ ایسے میں یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ پہلا پتھر کس نے چلایا؟ اس سے پہلے یہ سوال بہت اہم ہے کہ جن گزرگاہوں پر کوئی عبادت گاہ واقع ہے، شہری انتظامیہ نے وہاں سے جلوس کے گزرنے کی اجازت ہی کیوں دی اور اگر اجازت دینے میں کوئی قباحت نہیں تھی تو حفظ ماتقدم کے طور پر وہاں ضروری پولیس فورس کیوں تعینات نہیں کیا گیا۔ جہاں تک ہماری رائے کا تعلق ہے، پولیس چاہے تو فساد نہیں ہوسکتا، یا، ریاستی انتظامیہ پولیس کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو پابند کردے کہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہونا چاہئے تو کسی کی مجال نہیں کہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بنیادی خطا پولیس ہی کی ہوتی ہے جو چاہے تو کسی بھی تہوار سے قبل سخت ہدایات جاری کرکے شرپسندوں کو نچلا بیٹھنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ اگر یہ خیال، جس کا اظہار کئی سابق افسران کرچکے ہیں، درست ہے تو جہاں جہاں بھی فرقہ وارانہ تصادم ہوا ہے وہاں وہاں کی ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو جوابدہ بنائے کہ آپ کی علمداری میں جو کچھ بھی ہوا، وہ کیوں ہوا اور اس کے لئے آپ کی خدمات پر حرف گیری کیوں نہ ہو۔ 
 عموماً ایسا نہیں ہوتا بلکہ پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ شرپسندوں کو گرفتار کرے۔ اس کا نتیجہ، یکطرفہ گرفتاریاں، کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس سے بچنے کی کوشش ہوگی تب ہی ریاستوں میں نظم و نسق کی صورتحال بہتر طور پر قائم رہ سکتی ہے۔اس میں محکمۂ پولیس کے ساتھ بھی مسئلہ ہے ’’آرڈرس‘‘ کا۔ اُنہیں بالائی احکام کا انتظار رہتا ہے، سیاسی سطح پر بھی اور قانونی اعتبار سے بھی، مثال کے طور پر، طاقت کے استعمال کیلئے ایگزیٹیو مجسٹریٹ کی اجازت۔ 
 عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ تصادم ، تصادم سے شروع نہیں ہوتا۔ پہلے فضا بنائی جاتی ہے۔ ماضی میں افواہوں کا راج ہوا کرتا تھا۔ اب سوشل میڈیا کی حکمرانی ہے جس کے ذریعہ ماحول سازی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اگر پولیس کا سائبر سیل متحرک رہے اور ہر طرح کی پوسٹس کا جائزہ لیتا رہے تو صورت حال کو قابو میں رکھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ سوشل میڈیا ہی نہیں، حالیہ برسوں میں میڈیا کا جارحانہ اور منفی کردار بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ وہ صحافت جسے خیرسگالی کا پیغامبر ہونا چاہئے تھا، افسوس کہ مضحکہ خیز ہوگئی ہے۔ اسے بھی روکا جانا چاہئے ۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK