Inquilab Logo

سائنس اور معاشیات سے دلچسپی ہونی چاہئے

Updated: February 23, 2020, 2:43 PM IST | Mubarak Kapdi

یہ دو ایسے شعبے ہیں کہ ان میں مہارت حاصل کئے بغیر آج کی دنیا میں ترقی کی گنجائشیں بہت محدود ہو جاتی ہیں۔ اس کیلئے انفرادی کے ساتھ اجتماعی کوششیں بھی ہونی چاہئیں۔ اس پر توجہ دینا ضروری ہے

سائنس اور معاشیات سے دلچسپی ہونی چاہئے ۔ تصویر : آئی این این
سائنس اور معاشیات سے دلچسپی ہونی چاہئے ۔ تصویر : آئی این این

بر صغیر سے لے کر خلیجی ممالک تک کو پتہ نہیں کہ کن وجوہات کی بناء پرہمارے اکثر تعلیمی اداروں میںکچھ یہ ٹرینڈ یا رحجان دکھائی پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں سائنس اور معاشیات  مضامین سے بیزاری محسوس ہوتی ہے۔ اس بظاہر معمولی نظر آنے والی کمی کا خمیازہ مسلم ممالک اور دنیا کی ۱۸۰؍ کروڑ مسلم آبادی بھگت رہی ہے۔ہمارے خیال سے دنیا میں ترقی کا پہلا اصول تقویٰ ہے،دوسرا اصول حصول علم کا جذبہ اور جد و جہد،تیسرا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں مہارت اور چوتھا معیشت کا قابو میں رکھنا۔ اب ہمیں بڑاتعجب اورشدید افسوس ہوتا ہے کہ سارے علوم کی اساس یعنی تقویٰ میں ہمارے پاس اول درجے کا علم اور ہدایت نامہ ہمیں میسر ہوتے ہوئے بھی ہم کامیابی کے دوسرے اصولوں کی کسوٹی پر ناکام کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟ ہم کسی احساس کمتری کا شکار نہیں البتہ اپنے مستقبل کیلئے ہوائی قلعے بھی نہیں بنا سکتے، اسلئے حقیقی اعداد و شمار پر فکر تو کرنی ہی ہوگی۔
 آج ہم موازنہ کرنا چاہیں گے۱۹۴۰ء سے ۲۰۲۰ء تک یعنی گزشتہ ۸؍ دہائیوں میں دنیاوی محاذ پر پیش رفت کا۔ ۱۹۴۰ء سے ۲۰۲۰ء تک یہودیوں کو نازیوں نے لگ بھگ ختم کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہیں حراستی کیمپس میں ٹھونسا گیا، کیمیکل گیس چیمبرس میں کیڑے مکوڑوں کی طرح ہلاک کیا گیا اور  ہولو کاسٹ یعنی سنگین تباہی سے گزارا گیا .... آج ہماری قوم اسی موڑ پر آکھڑی ہوئی ہے ۔ کیااس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی اس قوم کی تعمیر نو ممکن ہے ؟ جی ہاں فکر نو، تدبیر نو، ترکیب نو اور ترتیب نو سے کام لیا جائےتو قطعی ممکن ہے ۔یہودی قوم ہماری روایتی دشمن ہو سکتی ہے، اسلئے ہم اس سے کچھ سیکھنا بھی نہیں چاہتے مگر ایک قیامت صغریٰ سے گزر کر جو قوم دنیا پر چھا گئی ہو، اس کی حکمت عملی کا جائزہ تو لیا ہی جاسکتا ہے۔
 آج اس روئے زمین پر ۵۷؍ مسلم ممالک ہیں اور یہودی ملک صرف ایک یعنی اسرائیل۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ۱۸۰؍ کروڑ ہےاور یہودی صرف ایک کروڑ ۴۵؍ لاکھ۔ فی زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ناپنے کا پیمانہ ہے، نوبل انعامات۔گزشتہ ۱۲۰؍ برسوں میں ۲۰۶؍یہودیوں کو نوبل انعام ملے ہیں جبکہ صرف تین مسلمانوں کو یہ ایوارڈ ملا ہے۔(یاد رہے کہ نوبل انعام برائے امن میں کچھ جانب داری برتی جاتی ہوگی البتہ فزکس، کیمسٹری، میڈیسن اور معاشیات میں دیئے جانے والے انعامات کی تقسیم میں بڑی شفافیت برتی جاتی ہے)۔طبعیات کیلئے ڈاکٹر عبدالسلام، کیمیا کیلئے احمد زویل اور کیمیا ہی میں عزیز سنکار کے نوبل حاصل کرنے والے ان سائنس دانوں نے اپنے کسی مسلم ملک کے بجائے مغربی ممالک کی تجربہ گاہوں میں تحقیقی کام انجام دیئے ۔یہودیوں نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی یہ ترقی ہٹلر کے زہریلے گیس چیمبرس سے گزرنے کے بعد کی ہے۔ آج ہمیں ویسے ہی ہٹلروں سے سامنا ہے، ہم اس کیلئےکتنا تیار ہیں؟ ہم شاید یہ کہیں کہ’ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں‘۔آج واقعی یہ بھلا ہوا کہ مسلمانوں کو نازی دور دھکیلنے کیلئے تیار کئے ہوئے کالے قانون کے خلاف ہماری خواتین نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔اگر وہ مردوں نےسنبھالا ہوتا تو شاید سارے شاہین باغوں میں چیخ چیخ کر صرف شکوہ، جواب شکوہ سنایا جاتا۔آج قوم کی تعمیر نو کیلئے جب ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں تب بہت ہی سنجیدگی سے یہ کہنا چاہیں گے کہ قوم کے جذباتی اور جوشیلے مقررین سے اگر ہمیں چھٹکارہ حاصل کرنا ہے توہم ہمارے معاشرے میں یہ قانون نافذ کریں کہ ہمارے اجلاس میں جو مقرر ۹۰؍ ڈیسی بل سے زیادہ آواز سے میں چیختے ہوئے یا  چلاتے ہوئے تقریر کرے گا، اسے ہر بار ایک ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا اور جو مقرر کوئی بے محل شعر پڑھےگا، اسے ہر بار دو ہزار روپے جرمانہ دینا ہوگا۔
  درا صل اسلام غور وفکر کا مذہب ہے اور قرآن کریم نے بار بار اس کی تاکید کی ہے۔ رسول ؐنے اس پر ہمیشہ زور دیا اور آپ کی اپنی زندگی بھی غور وفکر سے عبارت تھی۔ پہاڑوں کے غاروں میں بیٹھ کر اپنے خالق اور اس کی خلقت میں کئی کئی دن تک غور وفکر کیا کرتے تھے مگر اب ایسا لگتا ہے گویا  ہم نے تدبر و تفکر کا سلسلہ ہی بند کردیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان سائنس میں سب سے پیچھے ہیں۔ موجودہ عالم اسلام کا جائزہ لیں تو احساس ہوگا کہ یہاں سائنس داں ہی نہیں بلکہ سائنسی اداروں کی بھی کمی ہے۔ جو مسلم ممالک غریب ہیں ان کا رونا تو یہ ہے کہ وہ غریب ہیں اور ان کے پاس پیسے نہیں ہیں مگر جن کے پاس تیل کی دولت ہے اور سیال سونا بہہ رہا ہے ان کے ہاں بھی نہ تو سائنسی ادارے ہیں اور نہ ہی اچھے میڈیکل کالج اور اسپتال ہیں۔ خلیجی ملکوں میں سرمایہ دار بیمار ہوتے ہیں تو علاج کیلئے امریکہ اور یورپ جاتے ہیں اور غریب بیمار ہوتے ہیں تو ہندوستان آتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک دولت خرچ کرنے کا سلیقہ بھی نہیں رکھتے ہیں۔دلی اور ممبئی کے اسپتالوں اور نرسنگ ہومس میں عرب مریضوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور وہ یہاں لاکھوں روپے خرچ کرکے جاتے ہیں مگر خود وہ اپنے ملک میں دولت کی فراوانی کے باوجود صحت کے مراکز قائم نہیں کرسکتے، آخراس کے پیچھے وجہ کیا ہے؟
 عالمی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ دنیا میں وہی قوم برتر رہتی ہے جو علوم سائنس میں آگے ہوتی ہے۔ یونان کسی زمانے میں سائنس میں بہت آگے تھا اور تب اس نے سکندر اعظم کو پیدا کیا تھا، جس کا سامراج ساری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔یہاں اسقلی بیوس، بقراط اور ارسطو پیدا ہوئے تھے۔ علم وہنر کے اس خزینے سے روم نے فائدہ اٹھایا تو اس کے ہاں جالینوس اور ہیرو فیلوس  جیسے نامور حکماء پیدا ہوئے۔ جب مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا اور خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ و بنو عباس کا دور آیا تو جابر بن حیان، زکریا رازی، قاسم زہراوی اور ابن سینا جیسے سائنس و طب کے ماہرین پیدا ہوئے جنھوں نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور ان کی ایجادات و اختراعات اور تحقیقی کتب سے ہی استفادہ کرکے مغرب کے اہل علم نے سائنس و طب کو جدید رنگ و آہنگ عطا کیا۔ عباسی عہد میں تو بغداد علم و فن کا مرکز بن چکا تھا اور عرب ہی نہیں ہندوستان تک سے ماہرین کو یہاں لایا جاتا تھا جو ریسرچ کے نئے نئے کام انجام دینے کے ساتھ ساتھ سائنس و طب کی کتابیں دوسری زبانوں سے ترجمہ کیا کرتے تھے۔ یہاں میڈیکل کالج اور اسپتال اسی دور میں قائم ہونے لگے تھے اور دارالترجمہ میں علمی کتابوں کے ترجمے بھی ہوتے رہتے تھے۔ جس طرح آج طلبہ اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ اور یورپ جاتے ہیں اسی طرح اس دور میں ساری دنیا سے طلبہ بغداد آیا کرتے تھے۔
 عہد وسطیٰ کے مسلمان سائنس دانوں نے بڑی بڑی ایجاد یں کی ہیں۔ ان میں جابر بن حیان کا نام سر فہرست ہے، جن کی کیمیا میں مہارت کی وجہ سے انہیں آج بھی بابائے کیمسٹری کہا جاتا ہے۔ اس عظیم سائنسداں کوآج کی مغربی دنیا گیبرکے نام سے جانتی ہے۔ الجبرا انہی کی تحریر کردہ کتاب ہے جو مشرق سے مغرب تک اسکولوں میں داخل نصاب ہے۔ جابر ہی نے سلفائڈس، سفیدہ، سنکھیا اور کحل حاصل کرنے کے طریقے ایجاد کئے۔ انہوں نے نائٹرک ایسیڈ سلفیورک ایسڈکی ایجاد کی اور دیگر کئی قسم کے کیمیکل کی پہچان کی۔
 بنوعباس کے عہد کی میں جو سائنس داں اور طبیب زیادہ شہرت کے حامل تھے ان میں مسلمان کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی تھے جن کی سرپرستی خود خلیفہ کیا کرتا تھا۔ یوحنابن ماسویہ، حنین بن اسحٰق، ثابت بن قرہ، قسطا بن لوقا، یعقوب بن اسحٰق اور ربن طبری معروف اطباء تھے۔ نویں اور دسویں صدی کے ابو بکرمحمد بن زکریا رازی کوامام طب اور عرب کا جالینوس کہا جاتا تھا۔انہوں نے دوسروں کی لکھی ہوئی باتوں پر انحصار کرنے کے بجائے خود تحقیق کیا۔ انہوں نے پہلی بار چیچک اور جراثیم کے تعلق سے ریسرچ کر کے حقائق دنیا کے سامنے پیش کئے۔ آج جو اسپتالوں کے رکھ رکھاؤ اور ڈاکٹروں کی تربیت کا طریقہ رائج ہے وہ انہی کی ایجاد ہے۔ ان کی کتاب الحاوی حفظان صحت پر بہترین تصنیف ہے۔ شیخ ابو علی ابن سیناکو آج کی دنیا اویسیناکے نام سے جانتی ہے۔ وہ مذہبی ، لسانی اور ادبی علوم کے ساتھ ساتھ موسیقی، فلسفہ، منطق، نجوم و فلکیات، کیمیا و ریاضیات،طبعیات و حیاتیات کے عالم تھے۔ انہیںسائنسی علوم کی سمجھ قدرتی طور پر ملی ہوئی تھی۔ان کی تحریر کردہ کتاب القانون فی الطب آج بھی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK