• Mon, 04 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سرسید اکیڈمی اور اس کی قابل تحسین سرگرمیاں

Updated: October 13, 2024, 4:18 PM IST | Professor Akhtarul Wasi | Mumbai

’’یومِ سرسید‘‘ (۱۷؍اکتوبر) کی مناسبت سے۔

Sir Syed Academy. Photo: INN
سرسید اکیڈمی۔ تصویر : آئی این این

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ۱۹۷۰ء میں بنے ہوئے ۵۰؍سال ہوا چاہتے تھے کہ اسی مناسبت سے یونیورسٹی کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ یونیورسٹی کی گولڈن جبلی منائی جائے لیکن یہی وہ وقت تھا جب اس کے اقلیتی کردار جو کہ ۱۹۶۵ء کے ایک ناخوشگوار حادثے کی بناء پر بحق سرکار ضبط کر لیا گیا تھا، کی لڑائی زوروں پر تھی۔ اس وقت ہم سب نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک اقلیتی کردار بحال نہیں ہو جاتا یونیورسٹی میں کوئی جشن نہیں ہونا چاہئے۔ تین دن کی اسٹرائک کے بعد اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر عبدالعلیم مرحوم نے طلبہ کی یہ مانگ مان لی اور جشن کا پروگرام منسوخ ہو گیا لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ سرسید کا مکان جو کہ انتہائی خستہ حالت میں تھا، پروفیسر خلیق احمد نظامی مرحوم کی تحریک پر اس کی تعمیر اور تزئین نو کا بیڑا اٹھا لیا گیا اور اسی طرز پر جس پر سرسید نے اسے بنایا تھا اس کی تعمیرنو ہو گئی۔ 
  بعد میں نظامی صاحب کی تحریک پر ہی سرسید اکیڈمی کی اسی گھر میں جہاں سرسید رہتے تھے، اساس رکھی گئی اور نظامی صاحب اس کے بانی ڈائریکٹر ہوئے اور ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۵ء تک پہلے اس منصب پر رہے، بعد ازاں وہ شام میں ہندوستان کے سفیر بنا دیئے گئے اور جب وہاں سے لوٹے تو ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۵ء تک ایک دفعہ پھر سرسید اکیڈمی کی باگ ڈور اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر علی محمد خسرو نے ان کے ہاتھوں میں سونپ دی۔ اس بیچ کے وقفے میں پروفیسر ظہیرالدین ملِک نے سرسید اکیڈمی کی باگ ڈور سنبھالی۔ ان کے بعد پروفیسر عتیق احمد صدیقی، پروفیسر شان محمد، پروفیسر افتخار عالم خاں، پروفیسر اصغر عباس، پروفیسر سعود عالم قاسمی، پروفیسر صلاح الدین عمری، پروفیسر طارق احمد اور پروفیسر علی محمد نقوی نے اکیڈمی کی سربراہی کی۔ چلتے چلتے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر گلریز احمد نے سرسید اکیڈمی کی باگ ڈور مشہور مصنف، محقق، ذرائع ابلاغ عامہ کے ماہر اور سرسید کے عاشق صادق پروفیسر شافع قدوائی کے سپرد کر دی۔ 
 جہاں تک سرسید اکیڈمی کی اشاعتی سرگرمیوں کا سوال ہے، ا س کا دائرہ وسیع ہے۔ اب تک وہ گیارہ جلدوں میں مقالات سرسید، جی ایف آئی گراہم کی تصنیف ’’لائف اینڈ ورک آف سرسید احمد خاں ‘‘، کرسچیئن ڈبلیو ٹرال کی تصنیف’’سید احمد خاں : اے ری انٹرپریٹیشن آف مسلم تھیولوجی‘‘، شیام کرشن بھٹناگر کی تصنیف’’ہسٹری آف ایم اے او کالج علی گڑھ‘‘، کرسچیئن ڈبلیو ٹرال کی تصنیف’’تبئین الکلام: دی گوسپل ایکورڈنگ ٹو سید احمد خاں ‘‘ اور سرسید کے پوتے سر راس مسعود اور سرسید کے رفقاء اور علی گڑھ تحریک کی ممتاز شخصیات بشمول راجہ جے کشن داس، جسٹس سر شاہ محمد سلیمان، نواب وقار الملک، نواب سر حافظ احمد سعید خاں، پاپا میاں شیخ عبداللہ، مولوی چراغ علی، کرنل بشیر حسین زیدی، صاحب زادہ آفتاب احمد خاں، سر ضیاء الدین احمد اور حاجی محمد اسماعیل خاں رئیس دتاولی پر مونوگراف اور سرسید ڈے پر دیئے گئے کلیدی خطبات کو شائع کرچکی ہے۔ 
 شافع قدوائی کا معاملہ یہ ہے کہ نئے نئے موضوعات ان کے خیال میں غیب سے آتے ہیں اور وہ ان پر یا تو خود قلم اٹھاتے ہیں یا دوسروں سے لکھواتے ہیں۔ فی الحال وہ سرسید کی سوانح ’’حیات جاوید‘‘ اور میر ولایت حسین کی آپ بیتی کے تصحیح شدہ ایڈیشن عنقریب منظرعام پر لانے والے ہیں۔ 
 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بانی سرسید احمد خاں کی اولین اردو سوانح حیات، الطاف حسین حالی کی ’’حیات جاوید‘‘ کے تصحیح شدہ ایڈیشن کی مع حواشی، تعلیقات و اشاریہ کی اشاعت کا فیصلہ سرسید اکیڈمی نے کیا ہے، جو کہ سرسید ڈے پر انشاء اللہ منظر عام پر آجائے گی۔ اس کے ساتھ ہی سرسید کے ایک رفیق اور مدرسۃ العلوم کے ٹیچر میر ولایت حسین کی آپ بیتی، جو علی گڑھ تحریک کی تفہیم کا اساسی حوالہ ہے، بھی مع حواشی و تعلیقات شائع کی جارہی ہے۔ سرسید اپنی ملازمت کے دوران اور وائسرائے کی قانون ساز کونسل اور شمال مغربی صوبہ جات و اودھ کے گورنر کی قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے جن شہروں بشمول آگرہ، بنارس، غازی پور، بجنور، میرٹھ، مرادآباد، کلکتہ، نینی تال، روہتک، الہ آباد اور شملہ وغیرہ میں قیام پذیر رہے، وہاں ان کی سرگرمیوں پر مبنی مونوگراف بھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔ ان میں چند کتب کا اجراء ۱۷؍ اکتوبر کو یوم سرسید کی تقریب میں عمل میں آئے گا۔ 
 حیات جاوید پہلی بار ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی۔ اس کے متداول ایڈیشنوں میں مختلف مقامات پر تسامحات در آئیں۔ ان کی تصحیح اور قرآن شریف کی آیات و احادیث کی تخریج کی ضرورت تھی۔ حیات جاوید میں جن اشخاص، کتابوں اور مقامات کا ذکر ہے ان پر حواشی و تعلیقات کی ضرورت تھی۔ اشاریہ بھی نامکمل تھا۔ اسی طرح حیات جاوید جب شائع ہوئی تو اس پر وحیدالدین سلیم، مولانا حبیب الرحمٰن خاں شروانی، سر عبدالقادر اور مولانا ابوالکلام آزاد کے تفصیلی تبصرے شائع ہوئے۔ ان اولین تبصرو ں سے واقفیت عام نہیں ہے۔ چنانچہ تصحیح شدہ ایڈیشن میں ان مذکورہ تبصروں کو بھی شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔  سرسید اپنی ملازمت کے دوران مختلف شہروں میں مقیم رہے، جہاں ان کے قیام سے متعلق تفصیلی معلومات سے مطالعات سرسید کے صفحات بڑی حد تک عاری ہیں۔ سرسید اکیڈمی نے ان شہروں میں سرسید کے قیام سے متعلق ۱۰۰؍ صفحات پر مشتمل مونوگراف شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان میں سے چند مونوگراف کا اجراء سرسید ڈے کے موقع پر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اے ایم یو کے پبلیکیشنز ڈویژن کی جانب سے زمخشری کی تفسیر ’’الکشاف‘‘ کے تحلیلی تجزیہ پر مبنی میرے استاد پروفیسر فضل الرحمٰن گنوری (سابق ڈین، فیکلٹی آف تھیولوجی، اے ایم یو) کی تحقیقی تصنیف کی اشاعت بھی آخری مراحل میں ہے۔  خیال رہے کہ مشہور معتزلی عالم محمود بن عمر الزمخشری (م۵۳۸ ہجری) کی تصنیف ’الکشاف‘ جو چھٹی صدی ہجری کی تالیف ہے پورے تفسیری ادب میں ایک نمایاں انفرادی مقام رکھتی ہے۔ اس میں عربی نحو و صرف اور ادبی نقطہ نظر سے قرآنی آیات کا تحلیل و تجزیہ جس انداز میں کیاگیا ہے اس کو غیرمعمولی اعتبار حاصل رہا ہے۔ 
 پروفیسر شافع قدوائی اس اعتبار سے بھی خوش نصیب ہیں کہ انہیں پروفیسر نعیمہ خاتون کی صورت میں ایک ایسی وائس چانسلر ملی ہیں جو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلے طالب علم رہیں پھر استاد اور پھر پرنسپل اور انہیں علی گڑھ سے گہرا عشق ہے۔ بقول پروفیسر شافع قدوائی کہ وائس چانسلر محترمہ پروفیسر نعیمہ خاتون نے سرسید اور علی گڑھ تحریک سے متعلق اہم کتابوں کے تصحیح شدہ ایڈیشنوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور اس میں خود بھی دلچسپی لے رہی ہیں۔ 
  یہ بھی انتہائی قابل ستائش بات ہے کہ شافع قدوائی نے سرسید اکیڈمی میں علی گڑھ سے متعلق کتابوں پر مذاکرات کا اہتمام کرنا شروع کیا ہے اور اس سلسلے کا پہلا پروگرام مشہور فرانسیسی اسکالر ڈاکٹر لارینس گوٹیئر کی علی گڑھ اور جامعہ پر کیمبرج یونیورسٹی سے کی گئی پی ایچ ڈی پر مبنی کتاب پر تھا جس میں وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کے علاوہ پروفیسر عرفان حبیب اور دوسرے علی گڑھ کے ممتاز اساتذہ نے شرکت کی۔ امید ہے کہ محترمہ پروفیسر نعیمہ خاتون کی مدت کار میں اور شافع قدوائی کی کوششوں کے نتیجے میں سرسید اکیڈمی نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔ 
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔ )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK