Inquilab Logo

معاشرتی بگاڑ، متشد ّد رَویہ اور تربیت کی ضرورت و اہمیت

Updated: January 24, 2020, 2:42 PM IST | Noorulallah Siddiqui

ہر شخص اپنی طبیعت اور تربیت کے مطابق غم، خوشی اور غصے کا اظہار کرتا ہے۔ ماحول اور تربیت کا ہر شخص کے مزاج اور عادات و اطوار پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

اسلام دین محبت ہے اور اس کی تعلیمات عدم تشدد پر محیط ہیں ۔ تصویر : آئی این این
اسلام دین محبت ہے اور اس کی تعلیمات عدم تشدد پر محیط ہیں ۔ تصویر : آئی این این

ہر شخص اپنی طبیعت اور تربیت کے مطابق غم، خوشی اور غصے کا اظہار کرتا ہے۔ ماحول اور تربیت کا ہر شخص کے مزاج اور عادات و اطوار پر گہرا اثر ہوتا ہے، غصے اور حق تلفی میں ردعمل کی کیفیت کا تعلق بھی انسان کی تعلیم و تربیت اور اخلاقی اقدار کے تابع ہوتا ہے۔ ہم خلفائے راشدین کے ادوار سے لے کر قرون وسطیٰ کے ائمہ و محققین تک کے حالات زندگی اور سیاسی، سماجی مشکلات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بڑی بڑی علمی شخصیات پر آنے والی مشکلات اور ان کے ردعمل سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ کسی بھی ناپسندیدہ صورتحال یا غم و غصہ کی حالت میں ردعمل دیتے ہوئے حد سے تجاوز نہ کریں۔ 
 اسلام دین محبت ہے اور اس کی تعلیمات عدم تشدد پر محیط ہیں۔ آج ہم اپنے روزمرہ کے امور و معاملات پر نگاہ ڈالیں تو اس پر سختی اور سنگینی کا رنگ غالب نظرآئے گا، ہم جس اللہ وحدہ لاشریک اور پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں ان کی تعلیمات امن، محبت اور حسن اخلاق پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سلامتی دینے والا، امان بخشنے والا، امن دینے والا اور ہر خوف اور دہشت و وحشت سے حفاظت فرمانے والا سرفہرست ہیں۔ 
 عفو و محبت سنت الٰہیہ ہے۔ ایک روایت میں حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کریم ہے، وہ کرم اور اعلیٰ اخلاق کو پسند فرماتا ہے اور برے اخلاق کو ناپسند فرماتا ہے۔ دین اسلام کی محبت بھری تعلیمات سے اللہ رب العزت ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمہاری زندگیوں میں یہ تصور راسخ ہو جائے کہ تم مرض سے نفرت کرو مگر مریض سے نہیں، اس لئے کہ اگر تم مریض سے ہی نفرت کرنے لگو گے تو اس کا ٹھکانہ کیا ہو گا، تم دکھوں سے ضرور پرہیز کرو مگر دکھیوں سے ہر گز نہیں کیونکہ اگر تم ہی ان سے دامن چھڑانے لگے تو ان شکستہ دلوں کا مداوا کون کرے گا، اسی طرح تم گناہ سے نفرت کرو مگر گنہگار سے نہیں کیونکہ اگر تم ہی گنہگاروں کو ٹھکرانے لگ گئے تو انہیں راہ راست پر لانے والا کون ہو گا۔
 انتہا پسندی اور عدم برداشت کے موجودہ ماحول میں محبت اور عدم تشدد کا اسلامی موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ دین اسلام کی جملہ تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں ہمیں جا بجا انسانوں سے محبت اور عدم تشدد کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے بیان میں بھی محبت اور رحمت کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔ مشرکین اور کفار مکہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے، کسی کو کوڑے مارے جاتے، کسی کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا کبھی آپؐ  کو پتھروں سے لہو لہان کیا جاتا اور کبھی معاشرتی مقاطعہ کیا جاتا۔ ظلم و ستم کی اس انتہا پر جب صحابہ کرامؓ یہ عرض کرنے پر مجبور ہو جاتے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپؐ ظالموں اور مشرکوں کے لئے بددعا کیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے اس تقاضے پر جواباً ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو صرف سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔  اگر ہم قرآن و سنت کی مذکورہ تعلیمات کا صدق دل سے مطالعہ کریں تو ہمارے دلوں میں کبھی نفرت جگہ نہیں بنا پائے گی اور ہم انسانیت سے نفرت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
 ہمارے رویوں میں انتہا پسندی اور شدید ردعمل کی بڑی وجہ اسلامی تعلیم و تربیت کے ماحول سے دوری اور بیگانگی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم تو ہے مگر تربیت کا فقدان ہے، اگر ہم صحیح معنوں میں ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا احتساب کرنا ہو گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK