Inquilab Logo

سوشل میڈیا صرف تفریح ہی نہیں بلکہ کاروبار کابھی ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے

Updated: February 04, 2022, 3:56 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ہر گزرتے دن کے ساتھ سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اس رجحان میں آئندہ کئی برسوں تک کمی آنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی قیمتوں کو کم کرکے دنیا کے ہر شخص کے ہاتھ میں انہیں تھما دینا، اب ٹیکنالوجیکل کمپنیوں کا ہدف بن گیا ہے۔ آج شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں انٹرنیٹ کی رفتار ’’ٹو جی‘‘ ہو۔

Representation Purpose Only- Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 ہر گزرتے دن کے ساتھ سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اس رجحان میں آئندہ کئی برسوں تک کمی آنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی قیمتوں کو کم کرکے دنیا کے ہر شخص کے ہاتھ میں انہیں تھما دینا، اب ٹیکنالوجیکل کمپنیوں کا ہدف بن گیا ہے۔ آج شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں انٹرنیٹ کی رفتار ’’ٹو جی‘‘ ہو۔ انٹرنیٹ کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے عالمی سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ اب فائیو جی کا دور آگیا ہے، اور وہ دن دور نہیں جب دنیا کے ۷۵؍ فیصد سے زائد کام انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی مدد سے چٹکیوں میں کئے جانے لگیں گے۔ اسمارٹ فون کی آمد اور انٹرنیٹ کی آسان دستیابی کا سب سے زیادہ فائدہ سوشل میڈیا کمپنیوں (فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، ٹک ٹاک، یوٹیوب، میکس ٹکا ٹک، اسنیپ چیٹ، ٹمبلر، پن ٹریسٹ، اور ایسے ہی کئی دیگر ایپس) کا ہوا ہے جن پر صارفین سب سے زیادہ وقت گزارتے ہیں ۔ اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے ۷ء۹؍ بلین افراد میں سے ۴ء۸؍ بلین افراد کسی ایک سوشل میڈیا ایپ یا سائٹ پر فعال ہیں ۔ اس تعداد میں سالانہ ۱۰؍ فیصد کا اضافہ ہورہا ہے۔سوشل میڈیا ایپس دنیا میں کئی قسم کی تبدیلیوں کا محرک بن رہے ہیں ۔ اب خبریں سوشل میڈیا پر بریک کی جانے لگی ہیں ، اور لوگ تفریحی ویڈیوز بنا کر انہیں اپ لوڈ کرنے لگے ہیں جنہیں دنیا کا کوئی بھی صارف کسی بھی وقت دیکھ سکتا ہے۔انٹرنیٹ نے دنیا کے کونے کونے سے لوگوں کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو خاص بنا دیا ہے۔ ۲۰۱۳ء میں شاہ رخ خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’وہ دن قریب ہے جب سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے عام لوگ بھی سلیبریٹی بن جائیں گے اور ان کے مداحوں کا ایک الگ حلقہ ہوگا۔ صرف فلم اور ٹی وی اسٹار نہیں ہوں گے بلکہ سوشل میڈیا اسٹار بھی ہوں گے۔ اور میم بنانا کریئر کا ایک آپشن ہوگا۔‘‘آج ان کی یہ تمام باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں ۔ اب لوگوں کو مشہور یا بدنام ہونے میں چند منٹ لگتے ہیں ۔ 
 تاہم، سوشل میڈیا لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کے علاوہ انہیں کاروبار کرنے کا بھی یکساں موقع دے رہا ہے۔ اس نے تجارت کے روایتی انداز کو بدل دیا ہے۔ آج سے ۱۰؍ سال پہلے کاروبار کرنے کیلئے انٹرنیٹ کا سہارا شاذ و نادر ہی لیا جاتا تھا۔ ملک میں فلپ کارٹ اور امیزون نامی دو ہی کمپنیاں تھیں جن کے ذریعے لوگ کم کم ہی خریداری کرتے تھے۔ کاروبار کے آغاز کیلئے کم سے کم چند لاکھ روپوں کی ضرورت توہوتی ہی تھی، مثلاً خام مال خریدنا، اسے بنانے کا خرچ، دکان کرائے پر لینا، ملازمین کی خدمات حاصل کرنا وغیرہ ۔مگر اب ان چیزوں کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ خاص طور پر بڑے انویسٹ مینٹ (سرمایہ کاری) کا خرچ بچ گیا ہے، جیسے دکان خریدنا یا کرائے پر لینا، اس کی تزئین کاری کرنا، ملازمین کو تنخواہیں دینا، وغیرہ۔ 
 گزشتہ ۳؍ سال میں ، خاص طور پر لاک ڈاؤن کے دوران سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے کاروبار کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اگر آپ کسی کام میں مہارت رکھتے ہیں تو سوشل میڈیا کی مدد سے اپنی اشیاء و خدمات صارفین کو فروخت کر سکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر کیک، پیسٹریز اور پکوان بنانے کی ٹپس دینا اور انہیں فروخت کرنا، فٹنس ٹپس دینا، ڈائٹس بتانا، کشیدہ کاری کا کام، مصوری، موسیقی، بلاگ رائٹنگ، تفریحی ویڈیوز بنانا، ڈیزائنر کپڑوں کی فروخت، جیولری، بیوٹی پروڈکٹس، مردو ں اور خواتین کے ایکسس سریز، جوتے، چپل، کھلونے، فیشن ایبل ماسک، وغیرہ کا کاروبار کیا جارہا ہے۔ اسی طرح ادرک لہسن کا پیسٹ، بریستا پیاز، شیزوان چٹنی، مختلف قسم کے سوس اور چٹنیاں ، چکن کے فروزن آئٹم، حتیٰ کہ صاف کئے ہوئے اور کٹے ہوئے گوشت، مچھلیاں ، جھینگے وغیرہ بھی انہی ذرائع سے فروخت کئے جارہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ایسے افراد کو ’’کریئٹر‘‘ اور ’’پروفیشنلز‘‘ کا نام دیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران جب لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوگئی تھیں تو بیشتر افراد نے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کیا اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مدد سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اس میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد انہوں نے ملازمت تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے بزنس کو مزید مستحکم کرنے کے اقدام کئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر اشیاء وخدمات فروخت کرنے والوں میں غریب اور متوسط طبقے کے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ آج دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں کے لوگ بھی سوشل میڈیا کی مدد سے نہ صرف برانڈیڈ اور فرسٹ کاپی والی بلکہ اپنی بنائی ہوئی اشیاء بھی فروخت کررہے ہیں ۔ یہ افراد اپنی اشیاء کی تصویریں کھینچتے ہیں اور انہیں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کرکے لاکھوں صارفین کی توجہ حاصل کرتے ہیں ، جن صارفین کو یہ چیزیں خریدنے میں دلچسپی ہوتی ہے وہ آرڈر دے کر انہیں خرید لیتے ہیں ۔ اس طرح سوشل میڈیا آن لائن کاروبار کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اپنے محکموں میں ’سوشل میڈیا ٹیم‘ کا اضافہ کرلیا ہے جن کا مقصد کمپنی کی اشیاء و خدمات کو سوشل میڈیا صارفین تک پہنچانا ہے۔ 
 یہی نہیں سوشل میڈیا، کریئٹرس اور پروفیشنلز کو دہرا منافع حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ ایک جانب جہاں یہ افراد اپنی اشیاء و خدمات فروخت کرکے پیسے کماتےہیں تو دوسری جانب ،اگر ان کے فالوورز اور سبسکرائبرس کی تعداد ایک مخصوص نمبر تک پہنچ جائے تو انہیں ایک پوسٹ کیلئے سوشل میڈیا کمپنی کی جانب سے بھی ادائیگی کی جاتی ہے، مثلاً اگر آپ کے یوٹیوب چینل کے کسی ویڈیو کو ۱۰؍ ہزار افراد نے دیکھا ہے تو آپ کو اس کے ۲۰۰؍ سے ۵۰۰؍ روپے ملیں گے۔ اسی طرح ہر ویڈیو کے ’’وییوز‘‘ کی مناسبت سے کمپنی کی جانب سے رقم ادا کی جائے گی۔انسٹاگرام پر اگر آپ کے ۵۰؍ ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں تو کمپنی ایک پوسٹ اپ لوڈ کرنے کے ۱۵؍ ہزار روپے دیتی ہے۔مختلف کمپنیوں نے فالوورز اور ادائیگی کا مختلف تناسب مقرر کیا ہے۔ چونکہ کاروبار آن لائن ہوتا ہے اسلئے فروخت کنندگان مختلف مدوں میں ٹیکس ادا کرنے سے بھی محفوظ رہتے ہیں ۔ عام آدمی کی جانب سے سوشل میڈیا پر کاروبار کرنے سے روایتی تاجروں کو نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن نئے تاجروں کیلئے سوشل میڈیا کاروبار کرنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں فائدہ گاہکوں اور صارفین کا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK