سوشل میڈیا پر اِن دنوں ’تاریخ‘ پر گھمسان مچا ہوا ہے۔ یہ آگ این سی ای آر ٹی کے اقدام نے بھڑکائی ہے۔ اس نے نصاب سازی کا ایسا کارنامہ انجام دیا کہ تاریخ کا ’جغرافیہ‘ ہی بدل دیا ہے۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 5:43 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
سوشل میڈیا پر اِن دنوں ’تاریخ‘ پر گھمسان مچا ہوا ہے۔ یہ آگ این سی ای آر ٹی کے اقدام نے بھڑکائی ہے۔ اس نے نصاب سازی کا ایسا کارنامہ انجام دیا کہ تاریخ کا ’جغرافیہ‘ ہی بدل دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر اِن دنوں ’تاریخ‘ پر گھمسان مچا ہوا ہے۔ یہ آگ این سی ای آر ٹی کے اقدام نے بھڑکائی ہے۔ اس نے نصاب سازی کا ایسا کارنامہ انجام دیا کہ تاریخ کا ’جغرافیہ‘ ہی بدل دیا ہے۔ خبر ہے کہ آٹھویں جماعت کی سوشل سائنس کی کتاب میں نوآبادیاتی دور کی تاریخ سے ٹیپو سلطان اور اینگلو میسور جنگ ہی غائب کردی گئی۔ اس پر ادوید نامی صارف تبصرہ کیا کہ’’۱۷۸۴ء کا معاہدۂ منگلور وہ آخری موقع تھا جب کسی ہندوستانی حکمران (ٹیپو سلطان) نے شکست خوردہ انگریزوں سے شرائط منوائیں۔ یہ ٹیپو سلطان کا ہی خوف تھا کہ لارڈ ویلزلی نے انہیں `انگریزوں کاسب سےخطرناک دشمن قرار دیا۔ اور اب، این سی ای آر ٹی نے انہیں درسی کتابوں سے نکال دیا ہے۔ شرمناک!‘‘ کارواں انڈیا کے کنسلٹنگ ایڈیٹر سشانت سنگھ نے لکھا کہ’’ اگر ٹیپو سلطان کو شکست نہ ہوتی تو ہندوستان میں کبھی برطانوی راج قائم نہ ہوتا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے انہیں اپنا سب سے طاقتور دشمن قرار دیا تھا، اور ٹیپو کی شکست کی داستانیں لندن میں طویل عرصے تک فخر سے سنائی جاتی رہیں۔ ‘‘
معروف مورخ ڈاکٹر آڈری ٹرشکے نے انڈین ایکسپریس کی اس ضمن میں خبر کا لنک کا شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ ایک اور دن، اور ہندوستانی نصاب میں ایک اور مسلم مخالف تبدیلی۔ تاریخ تو ہمیشہ وہی رہتی ہے، لیکن ہندتوا کے دباؤ میں آکر ہندوستانی قوم اپنے نوجوانوں کو اس سے بےخبر کر رہی ہے، یہ ایک المیہ ہے۔ ایک نیا حاشیہ (فٹ نوٹ) بھی شامل کیا گیا ہے، جو بہت کچھ چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ حاشیے میں کہا گیا ہے کہ ماضی کے واقعات کے لیے موجودہ سماج کو قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔ چونکہ یہ تبدیلیاں واضح طور پر مسلم مخالف ہیں، تو یہاں بات مسلم برادری اور ان پر ہندو قیادت میں ہونے والے تشدد کی ہو رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے۔ وہ فٹ نوٹ بظاہر جو کہتا ہے، حقیقت میں اس کے برعکس مفہوم رکھتا ہے۔ ‘‘
ٹرشکے نے اپنے طویل تھریڈ میں سنسکرت کے شاعر آنند وردھنا کے دو اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا کہ’’ این سی ای آرٹی کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ تاریک ہے۔ جو بظاہر کہتا تو ہے’ مردہ لوگوں کے اعمال کا الزام زندہ لوگوں پر نہ دو‘ لیکن اصل میں سب جانتے ہیں کہ منشاء کیا ہے۔ تاریخ کا الزام موجودہ نسل پر ہی دو۔ موجودہ سیاق و سباق میں اس کا اصل مطلب ہے۔ مسلمانوں کو اُس تاریخ کا ذمہ دار ٹھہراؤ، جو ہندتوا کے ذہن میں بسا ہوا ایک فرضی المیہ ہے۔ میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ دور سے یہ سب دیکھتی رہتی ہوں اور ہندوستانی تاریخ کی اجتماعی تذلیل اور بی جے پی کے ہندوستان میں مسلمانوں سے نفرت پر شدید افسوس اور تشویش محسوس کرتی ہوں۔ میری ہمدردی، ہمیشہ کی طرح، اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو ان تعصبات کا نشانہ بنتے ہیں اور ان کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ‘‘
تاریخ میں پی ایچ ڈی ہولڈر ڈاکٹر روچیکا شرما نے ویڈیو پوسٹ کیا کہ’’ دیکھئے کیسے چولا راجا چالوکیہ راجا کو ہرانے کے بعد جین مندر توڑے، اور ایک پورے شہر کو آگ لگادی۔ لیکن این سی ای آرٹی چولا راجاؤں کو کبھی بھی ظالم نہیں بولے گی۔ ‘‘ ڈاکٹر روچیکا نے آج تک پر ڈبیٹ کے دوران جب مغل بادشاہوں کو بلا کسی ثبوت کے ظالم کہنے پر مدلل بحث کی تو اینکر انجنا اوم کشیپ نے بات گھمانے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر روچیکا کی حق گوئی کی سوشل میڈیا پر خوب ستائش کی گئی، جبکہ نفرتی ٹرولز نے ان کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔
جب بات تاریخ بدلنے کی ہورہی ہے تو لگے ہاتھوں نام بدلنے کے ایک معاملے کا ذکر بھی ہوجائے۔ مہاراشٹر میں ایک اور شہر کے نام کی تبدیلی عمل میں آرہی ہے۔ سانگلی ضلع میں واقع اسلام پور کو ایشور پور کیا جارہا ہے۔ ایک ہندتواوادی تنظیم نے یہ مطالبہ کیا اور فرنویس سرکار نے جھٹ پٹ مرکز کو تجویز بھی بھیج دی ہے۔ سوشل میڈیا پر زعفرانی حلقے اس خبر پر خوش ہیں۔ وہیں کچھ اسے سیاسی شعبدہ بازی اور منافرتی سیاست قرار دے رہیں۔ اے بی پی ماجھا نے اس خبر کو ایکس پر شیئر کیا۔ لوگوں کے تبصرے ملاحظہ فرمائیں۔ ایکس مانو نامی صارف نے سوال قائم کیا’’شہر کی حالت بدلے گی کیا؟‘‘دتا دھرما دھیکاری نے چٹکی کاٹی کہ’’یہ فیصلہ بھی تاریخی ہی ہوگا۔ ‘‘بابا یاگا ۱۲۱۲؍ نے لکھا کہ’’اس فیصلے کا عوام کو خیرمقدم کرنا چاہئے، اس کے سبب کسانوں کی خودکشی کم ہوجائے گی، مہنگائی بھی گھٹے گی، تعلیم اور صحت کی سہولیات کا معیار بلند ہوگا، راستوں کے گڑھے خودبخود بھرجائیں گے، سماجی اتحاد بڑھے گا، آلودگی گھٹے گی۔ ‘‘اشوک اہیرے نے لکھا کہ’’صرف نام ہی بدل سکتے ہیں ‘‘۔ ابھے یوراج منڈھارے نے مہاراشٹر اسمبلی کے احاطے میں ہونیوالی مارپیٹ کے تناظر میں نام تبدیلی کا مذاق اڑایا کہ’’ ودھان سبھا کا نام بدل کر دے دنادن سبھا رکھ دیجئے۔ ‘‘
جاتے جاتے آپ کو بتادیں کہ کیرالا کی نرس نمیشا پریا جسے یمن میں قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی کا معاملہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے۔ کیرالا کے مفتی اعظم شیخ ابوبکر مسلیار کی مداخلت سے نمیشا کی سزا موخر کردی گئی۔ وہ مقتول کے ورثاء سے بات چیت کرکے خون بہا کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ ان کی کوششوں کی سوشل میڈیا پر سراہنا کی جارہی ہے۔ ان کے آفیشیل اکاؤنٹ سے جب اس سلسلے میں پوسٹ کی گئی تو بڑی تعداد میں لوگوں نے اسے شیئر کیا۔ لینن روی نے لکھا کہ ’’نمیشا پریا کی سزائے موت کو ملتوی کر دیا گیا، اور یہ انسانیت پر مبنی مداخلت کانتھاپورم اے پی ابوبکر مسلیار کی وجہ سے کامیاب ہوئی۔ یہ واقعی سیکولر ہمدردی کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔ ‘‘ اشونی سونی نے لکھا کہ ’’اگر یہ کام کسی پرچی بابا نے کیا ہوتا تو میڈیا میں ڈبیٹ ہوتی۔ کیرالا کے مفتی اعظم شیخ ابوبکر احمد نے یمن حکومت سے بات کرکے نمیشا کی پھانسی رکوادی۔ چھوٹی سی خبر ہے لیکن نفرتی عناصر کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ‘‘ پنکج باجپئی نے اس موضوع پرلکھا کہ’’ ابوبکر صاحب کو تہہ دل سے شکریہ۔ مفتی ابوبکر صاحب کی کوششوں نے بخوبی باور کرادیا کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ ‘‘