Inquilab Logo

پاکستان اور اسرائیل کی دوستی کی قیاس آرائیاں

Updated: June 15, 2022, 9:42 AM IST | Pervez Hafeez | Mumbai

آج کل پاکستان کے ارباب اقتدار کو بھی یہی باور کرایا جارہا ہے کہ جب عرب ممالک فلسطین تنازع کے حل کے بغیر اسرائیل کے ساتھ دوستی کرسکتے ہیں تو پاکستان کوایسا کرنے میں کیوں اور کیا قباحت ہے ۔

Neighboring Pakistan, there is speculation that Israel and Pakistan are getting closer.
ہمسایہ ملک پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ اسرائیل اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔

ہمسایہ ملک پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ اسرائیل اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ ان قیاس آرائیوں کے جنم داتا کوئی اور نہیں اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ ہیں۔ انہوں نے دو ہفتے قبل سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ پچھلے دنوں انہیں پاکستانی نژاد امریکیوں کے ایک وفد سے ملنے اور بات چیت کرنے کا  ’حیرت انگیز تجربہ‘ ہوا۔ پندرہ افراد پر مشتمل اس وفد کی قیادت ایک امریکن پاکستانی خاتون انیلہ علی کررہی تھیں۔ اسرائیلی صدر نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی وفد کا اسرائیل کا دورہ اس’’عظیم تبدیلی‘‘ کا ثبوت ہے جو ابراہیمی معاہدوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں رونما ہورہی ہے۔
 یہ خبر جیسے ہی اسلام آباد پہنچی وہاں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا۔ سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف پارٹی کے سربراہ عمران خان گزشتہ دو ماہ سے سارے ملک میں اس بیانیہ کی تشہیر کررہے ہیں کہ امریکہ نے سازش کرکے ان کی حکومت گرائی ہے۔ اسرائیلی صدر کے انکشاف کے بعد سے عمران ریلیوں میں یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ چونکہ انہوں نے امریکی دباؤ کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اسی لئے انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ عمران یہ پیشن گوئی بھی کر رہے ہیں کہ شہباز شریف کی’’ امپورٹیڈحکومت‘‘ واشنگٹن کے حکم پر اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہی ہے۔ نوزائیدہ پاکستانی حکومت جو ہر محاذ پر لڑکھڑارہی تھی اور معزولی کے بعد عمران کی بڑھتی عوامی مقبولیت سے پہلے سے ہی پریشان تھی، اسرائیل نوازی کے اس نئے حملے سے مزیدبوکھلاگئی۔ وزارت خارجہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اسرئیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اسرائیل جانے والے وفد کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔پاکستان کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ جب تک فلسطینیوں کے مسئلہ کا منصفانہ حل نہیں ہوجاتا ہے اور فلسطینیوں کو ان کی علاحدہ ریاست نہیں ملتی ہے، اسلام آباد اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔
  پاکستانیوں کے دلوں میں فلسطینیوں کی حمایت اور ہمدردی کا جذبہ اس قدر کوٹ کوٹ کربھرا ہے کہ شدید عوامی ردعمل کے خوف سے اب تک کوئی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جرات نہیں کر سکی ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت کیلئے بھی اتنا بڑا فیصلہ جس کے خطرناک سیاسی اور معاشرتی نتائج ہو سکتے ہیں آسان نہیں ہوگا۔لیکن یہ نکتہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اس طرح کا فیصلہ اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یعنی ملٹری۔اگر باوثوق سیاسی پنڈتوں کی مانیں تو سعودی عرب اور امریکہ کی مشترکہ کوشش پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کیلئے  ذہنی طور پر تیار کرچکی ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ انقلابی تبدیلی کب آئے گی یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔
 معاہدہ ابراہیمی جو ٹرمپ کے صہیونی داماد جیرڈ کشنرکی ذہنی اختراع تھی،کی اساس اس مفروضہ پر رکھی گئی کہ فلسطین کے مسئلہ کو حل کئے بغیر بھی عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین دوستی ہوسکتی ہے اور سفارتی، معاشی، عسکری، اسٹریٹیجک اور جاسوسی اور نگرانی کی ٹیکنالوجی جیسے امورپر سمجھوتے بھی ہوسکتے ہیں۔ کئی دہائیوں تک عربوں کا یہ موقف تھا کہ وہ اسرائیل کو اسی وقت تسلیم کریں گے جب اسرائیل ۱۹۶۷ء کی جنگ میں غیر قانونی طور پر ہڑپے گئے ان کے تمام مقبوضہ علاقے خالی کردےگا، ایک ایسے خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو جس کی راجدھانی مشرقی یروشلم ہو یقینی بنائے گا اور فلسطینی رفیوجیوں کی واپسی کے حق کو تسلیم کرلے گا۔اسرائیل نے نہ مقبوضہ علاقے خالی کئے اور نہ ہی فلسطینیوں کو آزاد ریاست ملی اور پھر بھی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم بھی اور اس کے ساتھ تجارت بھی کررہے ہیں۔آج کل پاکستان کے ارباب اقتدار کو بھی یہی باور کرایا جارہا ہے کہ جب عرب ممالک فلسطین تنازع کے حل کے بغیر اسرائیل کے ساتھ دوستی کرسکتے ہیں تو پاکستان کوایسا کرنے میں کیوں اور کیا قباحت ہے جبکہ اس کا اسرائیل کے ساتھ کوئی جھگڑا بھی نہیں ہے۔ انہیں بتایا جارہا ہے پاکستان کے لئے معاشی بحران سے نکلنے کا یہ سنہرا موقع ہے۔  اسرائیل سے دوستی کی صورت میں پاکستان کو صرف اقتصادی اور تجارتی ہی نہیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی اسرائیلی تعاون حاصل ہوسکتا ہے۔  
  پاکستان کو یہ بھی سمجھایا جارہا ہے کہ اس کے قریبی دوست اور پارٹنر چین اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی رشتے تیزی سے مستحکم ہورہے ہیں پھر اسے پس و پیش کیوں ہے؟ پاکستان اور اسرائیل میں کئی اہم مماثلتیں بھی ہیں۔ دونوں مملکتیں مذہبی اور نظریاتی بنیاد پر معرض وجود میں آئی تھیں۔برطانوی حکومت نے چودہ اگست ۱۹۴۷ءمیں ہندوستان کا بٹوارہ کرکے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے پاکستان نام کا ہوم لینڈ بنا یا اور نو ماہ بعد چودہ  مئی ۱۹۴۸ءمیں فلسطین کو تقسیم کرکے اسرائیل نام کایہودی ملک وجود میں لایا گیا۔ انڈونیشیا کے بعدپاکستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا اور ایٹمی پاور والا واحد مسلم ملک ہے۔ اسرائیل سے رشتے نارمل کرنے کے لئے پاکستان پر صرف امریکہ کا ہی دباؤ نہیں ہے۔ سعودی عرب بھی پچھلے کئی برسوں سے اسلام آباد کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے قائل کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ ستمبر ۲۰۲۰ء میں معاہدہ ابراہیمی کے دو ماہ بعد ہی وزیر اعظم عمران خان سے ایک ٹیلی وژن انٹرویو کے دوران پوچھا گیا تھا کہ کیا امریکہ کے علاوہ کسی ’’ برادرمسلم ملک‘‘ کی جانب سے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے تو انہوں نے تردید نہیں کی محض اتنا کہاکہ ’’ چھوڑیں جانے دیں۔ ہم کئی چیزیں نہیں بتاسکتے ہیں کیونکہ ان سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں اور ہم انہیں اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
 ۲۰۲۰ء میں پاکستان صرف اقتصادی مسائل کا شکار تھا لیکن اس وقت وہ معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے۔پاکستانی حکمرانوں کو یہ سبز باغ دکھایا جارہا ہے کہ اگر وہ اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو نہ صرف بین الاقوامی اداروں بلکہ دولتمند ملکوں سے بھی اسلام آباد کومالی اعانت حاصل ہو جائے گی۔پاکستان کے پاسپورٹ پر موٹے حروف میں یہ نوٹ لکھا ہوتا ہے کہ’’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لئے کار آمد ہے۔‘‘ مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے جیو پالیٹکل منظرنامے اور پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اب یہ تحریر پاکستانی پاسپورٹوں پر زیادہ دنوں تک نہیں رہے گی۔n

pakistan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK