Inquilab Logo

کشمیر میں طوفان دب گیا ہے، تھما نہیں ہے

Updated: October 20, 2020, 10:06 AM IST | Hasan Kamal

محبوبہ مفتی کی رہائی کے بعد یہی لگتا ہے کہ کشمیر کا طوفان دب ضرور گیا ہے، تھما نہیں ہے۔ دنیا میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ۴؍اگست ۲۰۲۰ء کو جو بھی کیا گیا ہے، کشمیری عوام اس پر راضی نہیں ہیں۔

Kashmir Politics
کشمیری سیاستداں

 گزشتہ ہفتہ ایک نیوز چینل پر بات کرتے ہوئے جموں کشمیر کے سابق چیف منسٹرموجودہ لوک سبھا کے ممبر فاروق عبداللہ نے بری بے خوفی سے کہا کہ لداخ کی سرحدوں پر چین جو کچھ کر رہا ہے ، اس کی تہہ میں اس کی ۳۵؍ اے اور ۳۷۰؍ کو ختم کئے جانے کے اقدامات سے خفگی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی کشمیری ان دفعات کے خاتمہ کو قبول نہیں کرتا۔اس لئے ہر کشمیری دعا کرتا ہے کہ اللہ کرے چین کی سرحدی جارحیت ان دفعات کی بحالی کا سبب بن جائے۔ ان کے اس بیانیہ پر کئی طرح کے رد عمل سامنے آئے۔ کچھ نے اسے توقع کے عین مطابق بتایا، کچھ نے حیرت کا اظہار کیا تو کچھ نے برہمی کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ فاروق عبداللہ کا امیج ایک خوش باش لیڈر کا ہے جو اپنی کشمیری شناخت کی حفاطت کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو۔ اس امیج کے علاوہ ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ این ڈی اےاور یو پی اے دونوں کی سرکاروںمیں وزیر کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ یعنی انہیں سیاست کے تقاضے بھی نبھانے آتے ہیں۔ایک ایسی تہہ دار سیاسی شخصیت کے منہ سے اتنی سخت بات سن کر ظاہر ہے کہ سب کو حیرت ہوئی۔ لیکن یہ اس قسم کا ان کا یہ پہلا بیان نہیں تھا۔ ایک سال سے زیادہ کی نظر بندی سے نکلتے ہوئے بھی انہوں نے کچھ اسی طرح کا بیان یو ٹیوب چینل ’ دی وائر‘ پر مشہور صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے بھی دیا تھا۔ بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ  سخت بیان تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ آج کشمیری عوام ہندوستان پر چین کو ترجیح دیں گے۔ اس سوال کے جواب میں کہ مذکورہ دو دفعات کے خاتمہ کی خبر سن کر ان کا پہلا رد عمل کیا تھا؟ انہوں نے کہا تھا کہ انہیں ایسا لگا کہ جس دوست پر انہوں نے ایک عمر بھروسہ کیا تھا۔ اس نے ان کی پشت میں خنجر گھومپ دیا ہو۔ ان کا اشارہ ہندوستان کی  طرف تھا، صاف لگ ر ہاتھا کہ ۴؍ اگست ۲۰۲۰ ءنے سب کچھ بدل دیا تھا۔ انہوں نے کرن تھاپر کو بتایا کہ ان دفعات کے خاتمےکے اعلا ن سے صرف ۷۲؍ گھنٹے پہلے انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی اور مؤ خر الذکر نے بھنک بھی نہیں  لگنےدی کہ ایسا کچھ ہونے  والا ہے۔فاروق عبداللہ کے اس بیان سے خواہ کوئی حیرت زدہ ہو یا کوئی برہم ہے ایک ایسی حقیقت بہر حال موجود ہے ، جس سے شاید ہی کوئی انکار کر سکے۔ ۴؍ اگست ۲۰۲۰ء سے پہلے اگر ریاست میں ترنگا لہرایا جاسکتا تھا تو صرف اس لئے کہ فاروق عبداللہ نے وہاں ایسا ماحول بنا رکھا تھا کہ ایسا کیا جاسکے اور  اگر ریاست میں ایسے لوگ موجود تھے ، جو ہندوستان کے لئے خیر سگالی کے جذبات رکھتے تھے تو یہ بھی ان ہی جیسے لوگوں کی کاوش کا نتیجہ تھا۔۱۹۸۹ء کے بعد ریاست کے حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ دہلی کی سرکاروں کے لئے کام کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ عالم یہ تھا کہ ریاست میں اسمبلی الیکشن تو آسانی سے ہو جاتے تھے اور عوام ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی ریاست کے لئے حکومت بنا رہے ہیں۔ لیکن جب لوک سبھا کے الیکشن ہوتے تھے تو وادی میں ووٹنگ بس دو چار فیصد سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ووٹنگ تو دہلی سرکار بنانے کے لئے ہو رہی ہے۔گویا وہ دہلی کی سرکار سے اپنا کوئی تعلق ہی نہیں سمجھتے تھے۔حال  ہی میں تو یہ بھی دیکھا گیا کہ ریاست میں محبوبہ مفتی اور بی جے پی کی مخلوط سرکار بن جانے کے بعد اننت ناگ کی لوک سبھا سیٹ کے لئے چنائو ہوا تو محض ایک فیصد ووٹ پڑے۔ تھوڑے دنوں بعد دوبارہ ووٹنگ کروائی گئی، لیکن ووٹنگ کی فیصد وہی رہی۔ 
 فاروق عبدللہ کے سان و گمان میں بھی نہیں تھا  کہ وہ ا ن حالات میں بھی ریاست میں ہندوستان دوست ماحول بنانے کے لئے جو محنت کرتے رہے ، اس کا صلہ انہیں یہ دیا جائے گا کہ ان سے بھی وہی سلوک کیا جائے گا  جو انتہا پسندوں سے کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب یہ اطلاع ملی کہ فاروق عبداللہ کو غیر قانونی کارروائیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت نظر بند کر دیا گیا ہے تو سارے ملک میں لوگ دانتوں تلے انگلی دبا کر رہ گئے۔ اس پر طرہ یہ کہ جب لوک سبھا میں وزیر داخلہ امیت شاہ سے پوچھا گیا کہ کیا فاروق عبداللہ کو نظر بند کیا  گیا ہے تو امیت شاہ نے نہایت نازیبا انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے گھر میں بند ہیں اور ہم ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر تو انہیں باہر نہیں لا سکتے۔ امیت شاہ نہایت دیدہ دلیری سے جھوٹ بول رہے تھے۔ فاروق عبداللہ کو قید کیا جا چکا تھا۔فاروق عبداللہ کے لہجے کی تلخی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہیں ہندوستان کی عدلیہ نے بھی بہت مایوس کیا تھا۔ ۳۵؍ اے اور ۳۷۰؍ کو ہٹانے کی آئینی حیثیت ۔ اور اب جب کہ  محبوبہ مفتی کی نظر بندی بھی ختم ہو چکی ہے، حالات ایک نیا رخ لینے لگے ہیں۔ اگر کسی کا خیال تھا کہ سال بھر سے زیادہ مدت کی قیدو بند نے محبوبہ مفتی کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا ہوگا تو یہ خیال درست نہیں ثابت ہوا۔ نظر بندی کے خاتمہ کے اعلان کوابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ جب تک ریاست جموں کشمیر کی ۴؍اگست ۲۰۲۰ ءسے پہلے والی آئینی حیثیت بحال نہیں کی جائے گی تب تک ان کی جد و جہدجاری رہے گی۔ اب تو یہ لگتا ہے کہ بی جے پی نے محبوبہ مفتی کے ساتھ حکومت بنا کر اور پھر اسے گرا کر بس یہ بتانا چاہا تھا کہ تمام ہندوستان اس کے زیرنگیں آ چکا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی محض ایک سیاسی چال تھی۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے بی جے پی کے پاس نہ پہلے کوئی واضح منصوبہ تھا۔ نہ آج ہے۔ ظاہر ہے کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی بھی صرف ایک سیاسی کارروائی تھی۔مودی سرکار کے پاس بس ایک نہایت واضح اور مستقل  پالیسی ہے کہ ایسا کیا کیا جائے جس سے الیکشن میں جیت مل جائے۔  حالانکہ لشمیر کی آئینی  حیثیت بدلنے کے بعد بی جے پی کو کسی الیکشن  میں کوئی قابل ذکر کامیابی   بھی  نہیں مل سکی ہے۔
 ان کالموں میں کئی بار کہا جا چکا ہے کہ لداخ میں چین کی فوجی کارروائی کو صرف ایک سرحدی تنازع نہ سمجھا جائے۔ لداخ کی آئینی حیثیت کی تبدیلی اس کا اہم سبب ہے۔ وزیر خارجہ  ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ چین سے گفت و شنید کا  سلسلہ جاری ہے، لیکن بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں ، جو خفیہ رکھی گئی  ہیں۔ یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ یہ باتیں کیا ہو سکتی ہیں۔ بہر حال محبوبہ مفتی کی رہائی کے بعد یہی لگتا ہے کہ کشمیرکا طوفان دب ضرور گیا ہے، تھما نہیں ہے۔ دنیا میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ۴؍اگست  ۲۰۲۰ء کو جو بھی کیا گیا ہے، کشمیری عوام اس پر راضی نہیں ہیں۔ آئندہ چند ہفتے یا زیادہ سے زیادہ چند ماہ شایدان خفیہ رکھی جانے والی باتوں کا راز بھی فاش کر دیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK