Inquilab Logo

قصہ گوگل کے پلکیں جھپکانے کا

Updated: December 16, 2020, 9:59 AM IST | Editorial

پیر کو گوگل اور اس کی دیگر خدمات ایک گھنٹے کیلئے موقوف کیا ہوئیں، دُنیا بھر کے صارفین پہلے تو ہکا بکا رہ گئے کہ یہ کیا ہوا اور پھر سوشل میڈیا پر شکایتی پیغامات پوسٹ کرنے لگے۔

Google - Pic : INN
گوگل ۔ تصویر : آئی این این

 پیر کو گوگل اور اس کی دیگر خدمات ایک گھنٹے کیلئے موقوف کیا ہوئیں، دُنیا بھر کے صارفین پہلے تو ہکا بکا رہ گئے کہ یہ کیا ہوا اور پھر سوشل میڈیا پر شکایتی پیغامات پوسٹ کرنے لگے۔ کسی نے کہا میں اپنے کمرہ میں تاریکی میں بیٹھا ہوں (گوگل ہوم کے بہت سے صارف ایپ کے ذریعہ بجلی کنٹرول کرتے ہیں) تو کسی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ لیجئے اب گوگل بھی ایسا کریگا! دراصل اس ایک گھنٹے کے دوران گوگل اور جی میل ہی تعطل کا شکار نہیں ہوئے، گوگل ایپ، گوگل میپ، گوگل پے، گوگل پلے، گوگل ڈرائیو، گوگل ہوم،گوگل کروم، یو ٹیوب اور دیگر بھی ٹھہر سے گئے۔ ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے مگر سابقہ تعطل اور پیر کے تعطل میں فرق تھا۔ اِس بار پوری دُنیا کے صارف پریشان ہوئے، یہ الگ بات کہ جتنی دیر میں وہ مسئلہ کو سمجھ پاتے یا اس کے حل کی تدابیر پر غور کرتے، اُتنی دیر میں خدمات بحال ہوگئی تھیں۔ گوگل نے اس کی تکنیکی وجوہات بیان کیں جسے سب نے قبول کرلیا اور صارفین سے معذرت طلب کی اور سب نے معاف بھی کردیا مگر ایک کھٹکا تو اُن کے دل میں پیدا ہوا ہی ہوگا کہ اگر ایسا بار بار ہوا اور زیادہ وقفہ کیلئے ہوا تو کیا ہوگا؟ 
 اُمید کی جاسکتی ہے کہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا مگر بعض اوقات کچھ معاملات انسانی اختیار کے باہر ہوجاتے ہیں۔ پیر کو بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ویسے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ کے صارفین ابتداء سے گوگل کی خدمات سے اتنا مطمئن ہیں کہ وہ کسی دوسرے سرچ انجن کی خدمات کے بارے میں نہ تو جانتے ہیں نہ ہی سوچتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کرنا ہو تو انسانی ذہن سیدھے گوگل سرچ انجن کی طرف جاتا ہے۔ معدودے چند لوگ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ بنگ، یانڈیکس، سی سی سرچ، وَن سرچ ، ڈک ڈک گو (DuckDuckGo)اور اسٹارٹ پیج جیسے کتنے ہی سرچ انجن ہیں جو گوگل کے سرچ انجن جیسی خدمات پیش کرتے ہیں مگر ان کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع اور تیز رفتار نہیں ہے جتنا گوگل کا ہے۔ 
 واضح رہے کہ مذکورہ تمام کمپنیوں کا مارکیٹ شیئر (۱۳؍ فیصد) گوگل (۸۷؍ فیصد) سے کافی کم ہے۔ اس مقبول عام اور مقبول عالم سرچ انجن پر فی سیکنڈ ۴۰؍ ہزار سوالات کاجواب تلاش کیا جاتا ہے یعنی ایک دن میں ساڑھے تین ارب سوالات یا معلومات۔ یہی وجہ ہے کہ اب گوگل پر کچھ تلاش کرنا فعل (Verb)  بن گیا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب اس کے بانیان کمپنی فروخت کرنے کے فراق میں تھے مگر کوئی گاہک نہیں مل رہا تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ جب اس کمپنی کی مجموعی مالیت ۳۰۰؍ ارب ڈالر ہے جو، ظاہر ہے کہ، ایک خطیر رقم ہے۔ جس کمپنی نے کرائے کے ایک گیراج سے کام شروع کیا تھا، آج اس کے دفاتر کئی ہزار مربع فٹ پر پھیلے ہوئے ہیں اور دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ان میں کیلی فورنیا اور نیویارک میں واقع ’گوگل پلیکس‘خاص اہمیت کے حامل ہیں۔    
 ہم آپ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ابتدائی دور میں ہوتے تو ممکن تھا کہ مشینوں پر انحصار کی بابت سوچتے مگر اب تو ان کے عادی ہوچکے ہیں اور اپنے حساب کتاب سے لے کر دستاویزات تک اور سوال کا جواب حاصل کرنے سے لے کر راستہ سمجھنے اور روزمرہ کے دیگر کاموں تک مشینوں اور تکنالوجی پر ہمارا انحصار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب واپسی کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ اس لئے پہلا اور آخری کام یہی کرسکتے ہیں کہ خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں سے بہتری کی اُمید رکھیں اور  اُن سے اعلیٰ خدمات کا مطالبہ کرتے رہیں۔ صارفین او رکر بھی کیا سکتے ہیں

google Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK