Inquilab Logo

کامیاب وہی ہے جس کو احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ کو حساب دینا ہوگا

Updated: February 21, 2020, 2:41 PM IST | Dr Abdul Wasi Shakir

ہر فرد کو چاہئے کہ اپنے معاش کے لئے ایک وقت مقرر کرے کہ مجھے اپنے اوقات کا کتنا حصہ معاش کے لئے صرف کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر آدمی کی روزی اور اس کا رزق مقرر ہے۔

بعض اوقات وقت کی کمی کا احساس شدید ہوتا ہے ۔ تصویر : آئی این این
بعض اوقات وقت کی کمی کا احساس شدید ہوتا ہے ۔ تصویر : آئی این این

ہر فرد کو چاہئے کہ اپنے معاش کے لئے ایک وقت مقرر کرے کہ مجھے اپنے اوقات کا کتنا حصہ معاش کے لئے صرف کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر آدمی کی روزی اور اس کا رزق مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا ہمارے مقدر میں لکھا ہے اُتنا ہی ہمیں ملے گا، چاہے ہم ۸؍گھنٹے کام کریں یا ۱۶؍گھنٹے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’روزی انسان کا پیچھا کرتی ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب) نیز فرمایا کہ ’’رزق میں کمی یا تاخیر سے پریشان نہ ہو اور روزی کو کمانے میں خوش اسلوبی سے کام لو۔‘‘ (ایضاً)
lوقت مقررہ کی پابندی کا اہتمام
 ہمارے معاشرے میں دیئے گئے وقت کی پابندی کا اہتمام نہ ہونے کے کلچر کی وجہ سے روزانہ کئی گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔ بالعموم میٹنگز اور پروگرام دیئے گئے وقت سے ۲۵۔۲۰؍ منٹ بعد شروع ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ وقت  پر آجاتے ہیں اور کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو وقت پر آجاتا ہے اس کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے اور جس نے بلایا ہوتا ہے اس کا بھی۔ اگر ہم اس کا تعین کریں تو روزانہ آدھا یا پونا گھنٹہ انتظار میں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس انتظار کے وقت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اپنے دائروں میں انتہائی ممکنہ حد تک وقت کی پابندی کا اہتمام کریں اور کروائیں تو سب کے وقت کو ضائع ہونے سے بچا جاسکتے ہیں۔
lمعذرت کرنا سیکھیں
 روزمرہ معاملات میں ہم بعض اوقات تکلف یا تعلق کی وجہ سے وعدہ کرلیتے ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سےاس وعدے کو پورا نہیں کر پاتے۔ اس کے نتیجے میں جن سےہم وعدہ کرتے ہیں وہ بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور ہماری ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہئے کہ کسی کو وقت دینے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرلیں کہ یہ ممکن بھی ہوگا یا نہیں۔ معذرت کرنا کوئی گناہ کا کام نہیں لیکن وقت دینے کے بعد نہ پہنچنا عہد کی خلاف ورزی ہے۔ مغربی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے ’نہیں‘ کہنا سیکھ لیا ہے تو آپ نے گویا اپنا آدھا وقت بچالیا۔
lتاخیر اور ٹال مٹول سے گریز
 بعض اوقات ایک ہی وقت میں ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ ہم ایک کام شروع کرتے ہیں لیکن اس کو پورا کئے بغیر دوسرا کام شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً دفتری زندگی میں روزانہ  بہت سے خطوط  اور نوٹس ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم ان کو پڑھتے ہیں اور رکھ دیتے ہیں۔ ایک دو دن کے بعد انہیں پھر دوبارہ پڑھتے ہیں اور رکھ دیتے ہیں، اور پھر تیسری دفعہ اس پر کام شروع کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو خط ہم ایک ہی دفعہ پڑھ کر کام کرسکتے تھے اس کو تین دفعہ پڑھنے کے بعد اس کام کو کرپاتے ہیں۔اسی طرح توجہ اور تجاویز کے ضمن میں بہت ساری چیزیں ہمیں موصول ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان کے جواب دینے کے وقت کو کم سے کم کریں۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ جو کام ہمیں خود کرنے ہیں ان کی ترجیح متعین کریں اور جو کام دوسروں کے حوالے کرنے ہیں ان کو فوری طور پر دوسروں کے سپرد کردیں۔
lطویل گفتگو سے گریز
 مختصر گفتگو ایک فن ہے۔ حضور اکرم ؐ کے جو خطبات تحریری صورت میں احادیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ان سب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختصر ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ صحابہؓ کے سامنے حضور اکرمؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کو پڑھنے میں صرف ۷؍ منٹ لگتےہیں۔ اسی طرح صحابہؓ کے خطبے بھی مختصر ہوتے تھے۔ حضور ﷺ کے خطبات کی ایک خصوصیت اختصار کے ساتھ ساتھ تکرار بھی تھی۔ آپؐ ایک ہی بات کو دو تین دفعہ بیان کرتے  تھے تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ جدید سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی فرد ایک گھنٹے کی تقریر توجہ سے سنے تو اس کا صرف ۱۰؍فیصد اگلے دن تک یاد رکھ سکتا ہے جبکہ مختصرگفتگو میں یہ تناسب بڑھ کر ۲۵؍فیصد تک ہوجاتا ہے۔ ہم جتنی طویل گفتگو یا خطاب کریں گے، اس کا استحضار اتنا ہی کم ہوگا۔
lفارغ اوقات کا بہتر استعمال
 روزمرہ کی زندگی میں بہت سارے اوقات ایسے آتے ہیں کہ جب ہم فارغ بیٹھے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم سفر میں ہوتے یا انتظار کررہے ہوتے ہیں یا کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے ہیں۔ ان اوقات میں ہمیں اس بات کی عادت اپنالینی چاہئے کہ جب بھی ہم فارغ ہوں تو اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔ حضور اکرمؐ نے بہت سارے کلمات بتائے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے اور اجر میں بہت بھاری ہیں۔ ان کلمات کو بار بار دہراتے رہیں۔ کثرت سے استغفار کریں۔ ایک ایک لمحہ جو ہمارے پاس ہے وہ اللہ کے ذکر میں اور استغفار میں صرف ہو تو یہ وقت کا بہترین استعمال ہے۔ ہمارے وقت کا کوئی لمحہ فارغ ہونے کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ حدیث سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ کارآمد ہوتا ہے۔ جب اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، جب خوش ہوتا ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔ ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا بھی بھرپور اہتمام کرنا چاہئے کہ نہ تو ہمارے وقت کا کوئی حصہ ضائع ہو اور نہ ہی ہماری وجہ سے کسی اور کا۔ جب ہم دوسروں کے وقت کی قدر و قیمت کا احساس کریں گے تواللہ تعالیٰ ہمارے وقت میں برکت ڈال دے گا۔
lوقت میں برکت کی دعا
 وقت میں برکت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جس طرح ہم اپنے مال، کاروبار، رزق اور اولاد میں برکت کی دعا کرتے ہیں اسی طرح اپنے وقت میں برکت کے لئے بھی دعا کریں۔ اگر ہمیں وقت میں برکت حاصل ہوگئی تو زندگی بڑی آسان ہوجائے گی۔ جن لوگوں کو اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے ان کے پاس وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا بلکہ ان پر یہ احساس غالب رہتا ہے کہ میرے پاس وقت ہے اور جو کام بھی میرے سپرد ہوگا میں اُسے کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ وقت میں یہ برکت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور اس کی رحمت ہے جو ان لوگوں پر نازل ہوتی ہے جو اس سے برکت طلب کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ دعا فرماتے تھے : ’’یا اللہ! زندگی کے اوقات میں برکت دے اور انہیں صحیح مصرف پر لگانے کی توفیق عطا فرما۔‘‘
 وقت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ ایک غیرمعمولی امانت ہے۔ اس کے ایک ایک لمحے کی قدر و قیمت کے احساس کے ساتھ اللہ کی بندگی کے لئے، جہنم  سے بچنے اور جنت کے حصول کے لئے اس کا استعمال ہونا چاہئے۔ کامیاب وہی ہے جو اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ اسے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ یقیناً وہ اپنے وقت کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقررکردہ ترجیحات کے مطابق گزارنے کا اہتمام کرے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK