Inquilab Logo

بھائی چارہ کے ایسے واقعات دل کو چھو لیتے ہیں

Updated: May 30, 2020, 9:53 AM IST | Ram Puniyani | Mumbai

ہندوستان برسہا برس سے مختلف مذاہب کا گہوارہ اور ان مذاہب کے ماننے والوں کا مسکن ہے۔ ہندوستان کی پہچان بھی یہی ہے۔ کورونا بحران کے دوران ایسے کئی واقعات سامنے آئےجن میں عوام نے بھائی چارے کا بہترین ثبوت دیا۔  حالیہ دنوں میں ہندوستان کورونا کی وبا اور اس سے صحیح ڈھنگ سے نہ نمٹنے کے نتائج سے جوجھ رہا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وبا کو ایک خاص طبقہ کے لوگوں کو بدنام کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 حالیہ دنوں میں ہندوستان کورونا کی وبا اور اس سے صحیح ڈھنگ سے نہ نمٹنے کے نتائج سے جوجھ رہا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وبا کو ایک خاص طبقہ کے لوگوں کو بدنام کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ نفرت پھیلانے والے یہ لوگ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے طاقتور میڈیم کا استعمال کررہے ہیں جس نے فیک نیوز کا سہارا لے کر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت کو شدید تر کردیا ہے۔ اس وسیع تر تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے بیچ بھائی چارہ جیسے ختم ہونے کو ہے۔ ان سب باتوں سے پرے اس وقت خوشی کا احساس ہوتا ہے جب مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کی مدد کو آگے آتے ہیں ۔اس تعلق سے سب سے زیادہ دل کو چھو‘ لینے والی خبر امرت اور فاروق کی سامنے آئی۔ وہ ایک ٹرک میں سورت سے یوپی کی جانب سفر کر رہے تھے۔ راستے میں امرت بیمار ہوگیا۔ دیگر مسافروں نے اسے رات کے اندھیرے میں ہی ٹرک سے اترنے کیلئے کہا۔ اُسے تنہا نہ چھوڑتے ہوئے اس کا دوست فاروق بھی ٹرک سے اُتر گیا ۔ فاروق نے بیمار امرت کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور مدد کیلئے پکارنےلگا۔ اس کی وجہ سے دوسروں کی توجہ اس کی طرف گئی اور ایک ایمبولنس امرت کو اسپتال لے گئی۔
 ایک اور واقعہ میں ایک مزدور کا بچہ معذور تھا، اس لئے کسی کی سائیکل لے گیا لیکن اپنے پیچھے ایک خط چھوڑ گیا جس میں دل کو چھونے والے الفاظ میں معافی مانگتے ہوئے کہاکہ وہ مجبور ہے کہ اسے اپنے معذور بچے کے ساتھ سفر کرنا پڑرہا ہے جو چل نہیں سکتا، لیکن اس کےپاس کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ کئی لوگوں نے کہا کہ سائیکل چوری کی شکایت درج کرانی چائے لیکن سائیکل مالک پربھو نے نہیں ایسا نہیں کیا۔ جس نے سائیکل لی تھی وہ محمد اقبال خان تھا۔ 
 سیوڑی، ممبئی میں پانڈورنگ ابالے نامی معمر شہری اپنی عمر اور دیگر مسائل کے سبب انتقال کرگیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے اس کے قریبی افراد آخری رسومات کا انتظام نہیں کرسکے۔ ایسے وقت میں اس کے مسلم پڑوسی آگے آئےاور اس کی آخری رسومات ہندو رسم و رواج کے مطابق ادا کیں ۔ اسی طرح کے واقعات بنگلورو اور راجستھان میں بھی پیش آئے ہیں ۔ تہاڑ جیل میں ہندو قیدیوں نے مسلمانوں کے ساتھ روزہ رکھا جبکہ پونے کے اعظم کیمپس میں موجود مسجد اور منی پور میں ایک چرچ کو قرنطینہ مرکز میں تبدیل کردیا گیا۔ خیرسگالی کے ایسے ہی ایک واقعے کے تحت ایک مسلم لڑکی نے ہندو گھر میں پناہ لی تو میزبان رات کو اٹھ کر اس کیلئے سحری تیار کرتے تھے۔
 ایسے ہی بے شمار واقعات وقوع پذیر ہورہے ہونگے جن پر نہ کسی کی توجہ گئی اور نہ انہیں کوئی بیان کررہا ہے۔ کورونا کے پھیلائو کو کورونا بم اور کورونا جہاد تک کہہ کر اس کے نام پر فرقہ پرستی شروع ہوئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ فرقہ پرست اپنے منصوبے میں پوری طرح کامیاب ہوگئے ہیں لیکن لوگوں کے دلوں اندرونی تہوں میں موجود انسانیت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بھلے ہی سیاسی ایجنڈے کے تحت کوئی کتنا بھی نفرت پھیلالے لیکن صدیوں پرانی بھائی چارگی کو ختم نہیں کیا جاسکے گا کہ یہی اصل ہندوستان ہے۔
 ہندوستانی ثقافت کی جڑیں مذہبی رواداری میں پیوست ہیں جو مختلف حوالوں سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں ۔ عہد وسطیٰ جسے سب سے زیادہ بدنام کیا گیا ہے اور جیساکہ کئی فرقہ پرست نظریات کے حامل افراد اس دور کو ہندوئوں کے متاثر ہونے کا دور قرار دیتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی دور میں بھکتی روایات پروان چڑھی ہیں اور ہندوستانی زبانوں میں ادب کو فروغ بھی اسی دور میں حاصل ہوا ہے۔ یہاں تک کہ فارسی جو کہ درباری زبان تھی، اودھی سے رابطہ میں آئی اور ایک نئی زبان اُردو وجود میں آئی، جو کہ خالص ہندوستانی زبان ہے۔ تلسی داس خود اپنی سوانح حیات ’کویتائولی‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک مسجد میں سوتے تھے۔ جہاں تک ادب کا معاملہ ہے کئی مسلم شاعروں نے ہندو دیوی دیوتائوں کی تعریف میں عمدہ شاعری کی ہے۔ بھگوان شری کرشن کی مدح میں رحیم اور رسخان کا عمدہ کلام کون بھول سکتا ہے۔
 کھانے پینے کی عادتیں ، لباس کی عادتیں اور سماجی زندگی ان دونوں مذاہب ہی کی اقدار سے مستعار ہے۔ عیسائیت کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہندوستانیوں کی زندگی میں نظر آتی ہیں ۔ یہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے گہرے تعلقات کی ہی علامت ہے کہ مسلمان کبیر جیسے بھکتی سنتوں کو مانتے ہیں اور کئی ہندو، صوفی سنتوں کی درگاہوں پر حاضری دیتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے رابطے کی علامتیں ہندی فلموں میں بھی نظر آتی ہیں ۔ یہاں بھی آپ ہندوئوں کے نقطۂ نظر سے مقدس تصور کئے جانے والے کئی گیت ایسے ہیں جو مسلمانوں نے تیار کئے ہیں ۔ ان میں سے میرا سب سے پسندیدہ گیت آج بھی ’من تڑپت ہری درشن کو آج‘ ہے جسے شکیل بدایونی نے لکھا، اس کی موسیقی نوشاد علی نے ترتیب دی اور اسے محمد رفیع نے گایا ہے۔ رفیع صاحب نے لاتعداد بھکتی گیت گائے ہیں ۔
 ہماری جنگ آزادی میں انگریزوں کی تقسیم کی سیاست کے باوجود مسلمانوں اور ہندوئوں نے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جمع کیا اور نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف جنگ لڑی۔ کئی ادبی شخصیات نے مختلف فرقوں کے لوگوں کے اتحاد کا نہایت ہی عمدہ مرقع پیش کیا ہے۔ جنگ آزادی کے دوران اور اس کے بعد جبکہ فرقہ پرستی کی آگ بھڑک رہی تھی گنیش شنکر ودیارتھی جیسے لوگوں اور مہاتما گاندھی جیسی قدآور شخصیت نے اپنی ان تھک کوششوں سے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی، انہی کوششوں کے سبب فرقہ پرست طاقتوں کی نفرت پروری کے باوجود ہندو اور مسلمانوں نے راحت کی سانس لی۔
  یہاں پر۲؍ دوستوں کی کوششیں یاد آرہی ہیں جنہوں نے نفرت کی آگ کے خلاف اپنی زندگی دائو پر لگادی۔ گجرات میں وسنت رائو ہگستے اور رجب علی کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا جنہوں نے اپنی زندگی بھائی چارگی بحال کرنے کیلئے وقف کردی۔ یہ تعلقات بہت گہرے ہیں لیکن موجودہ حکومت ہماری ثقافت پرمسلم یا اسلامی اثرات کوبرداشت نہیں کرسکتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ شہروں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں جیسے کہ فیض آباد، ایودھیا ہوگیا، مغل سرائے، دین دیال اپادھیائے ہوگیا، وغیرہ وغیرہ۔
 ہمارے سماج میں مختلف فرقوں کے بیچ تعلقات بہت گہرے ہیں ۔ کورونا بحران کے دوران سامنے آنے والے واقعات اس حقیقت کے عکاس ہیں اور ملک کے شہریوں کو یہ سمجھانے کیلئے کافی ہیں کہ ہم ہمیشہ سے مل جل کر رہتے آئے ہیں اور ہماری ترقی و کامیابی مل جل کر رہنے ہی میں پوشیدہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK