Inquilab Logo

سلطانہ کا خواب : مشہور ادیبہ رقیہ شیخاوت کی یاد میں

Updated: April 06, 2020, 6:10 PM IST | Shahid Nadeem

سال ۱۸۵۷ء کا دور انتشار کا دور تھا ۔ انگریز ملک میں قدم جمانے کی کوشش کررہے تھے۔ معاشرہ اور زندگی نئے رنگ اور طور طریقے اختیار کررہے تھے۔ تعلیم سے محروم عورتوں کی سماجی حالت کچھ بہتر نہیں تھی ۔ اس کے بہت بعد انیسویں صدی کا ابتدائی دور تھا جب دنیا بھر میں یہ بحث جاری تھی کہ عورتوں کو کن موضوعات اور مضامین کی تعلیم دی جائے کہ وہ ایک اچھی ماں ، بیوی اور بیٹی ثابت ہو سکیں۔ اسکے علاوہ اور بھی کئی پہلو تھے لیکن عورتیں ان سب سے دور گھریلو زندگی اور ذمہ داریوں اور رسم و رواج میں سمٹی ہوئی تھیں

Begum Ruqaiya University, Bangaladesh - PIC : Wikipedia
بیگم رقیہ یونیورسٹی، بنگلہ دیش ۔ تصویر : وکی پیڈیا

 سال ۱۸۵۷ء کا دور انتشار کا دور تھا ۔ انگریز ملک میں قدم جمانے کی کوشش کررہے تھے۔ معاشرہ اور زندگی نئے رنگ اور طور طریقے اختیار کررہے تھے۔ تعلیم سے محروم عورتوں کی سماجی حالت کچھ بہتر نہیں تھی ۔ اس کے بہت بعد انیسویں صدی کا ابتدائی دور تھا جب دنیا بھر میں یہ بحث جاری تھی کہ عورتوں کو کن موضوعات اور مضامین کی تعلیم دی جائے کہ وہ ایک اچھی ماں ، بیوی اور بیٹی ثابت ہو سکیں۔ اسکے علاوہ اور بھی کئی پہلو تھے لیکن عورتیں ان سب سے دور گھریلو زندگی اور ذمہ داریوں اور رسم و رواج میں سمٹی ہوئی تھیں۔ ان سب کے باوجود چند تعلیم یافتہ نوجوان اور خاندان عورتوں کی تعلیم کے لئے کام کررہے تھے۔ اپنی نوبیاہتا بیوی اور بہنوں کو پوشیدہ طور سے تعلیم دینے کی کوشش کررہے تھے۔ رقیہ حسین بھی ان میں سے ایک تھیں جنہوںنے اپنے بھائی کی مدد سے پڑھنا لکھنا سیکھا ۔ شادی کے بعد ان کے روشن خیال بیرسٹر شوہر  نے بھی ان کی حوصلہ افزائی اور اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کیا ۔
 بیگم رقیہ بنگلہ دیش کے پیر بند گائوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ظہیرالدین محمد ابو علی حیدر صابر زمیندار اور متمول خاندان سے تھے۔ انہوں نے چار شادیاں کی تھیں ۔ رقیہ کی والدہ کا نام رحمت النساء تھا ۔ دو بہنیں اور تین بھائی تھے جس میں ایک بچپن میں ہی فوت ہو گیا ۔ بڑے بھائیوں نے کلکتہ کے سینٹ زیویئرس کالج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن انہیں اور ان کی بہن کو کبھی اسکول نہیں بھیجا گیا۔ وہ بتاتی ہیںکہ مسلم خواتین کو قرآن کی تلاوت کے لئے تھوڑی اردو تعلیم دی جاتی تھی لیکن یہ روایت بھی چند اعلیٰ گھرانوں تک ہی محدود تھی۔ ان کی بہن کی بنگالی ادب سےدلچسپی دیکھ کر گھر والوںنے انہیں دیہات روانہ کردیا  اور پھر جلد ہی ان کی شادی بھی کردی۔ ان کی بہ نسبت رقیہ خوش قسمت تھی ۔ اسے پڑھنے کا زیادہ موقع ملا ۔ انہوںنے اپنے بھائی ابراہیم کی مدد سے انگریزی سیکھی ۔ انگریزی اور بنگالی پڑھنے کا کام وہ رات میں کرتیں جب سب سوجاتے۔ 
 رقیہ اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ اگر ان کی بہن کریم النساء پر تعلیم اور بنگالی ادب کے مطالعہ پر پابندی نہ ہو تی وہ ایک اہم ادیب ہو تیں۔ اس پابندی نے نہ جانے کتنی عورتوںکو تعلیم سے محروم کردیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں رقیہ کا بیاہ خان بہادر شیخاوت حسین سے ہو گیا۔ وہ بھاگل پور میں ڈپٹی مجسٹریٹ تھے۔ تعلیم نسواں کے زبردست حامی ۔ ان کی خواہش تھی کہ رقیہ کی سرپرستی میں مسلم لڑکیوں کے لئے اسکول قائم کریں۔ اس مقصد سے وہ اس زمانے میں ہر ماہ کچھ رقم بچاکر رکھتے تھے۔ شادی کے ٹھیک گیارہ سال بعد ۱۹۰۹ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ سال بھر میں رقیہ نے اپنے شوہر کی یاد میں بھاگل پور میں اسکول شروع کردیا۔ آغاز میں محض پانچ طالبات تھیں۔ وہ گھر گھر جاکر بچیوں کو اسکول میںداخل کرنے پر زور دیتیں۔ سوتیلی بیٹی سے جائیداد کے تنازع  کے بعد وہ الگ بھاگل پور اسکول کے قریب منتقل ہو گئیں۔ 
 ۱۹۱۶ء میں انہوںنے عورتوں کی تعلیم اور ملازمت میںرہنمائی کے لئے مسلم  وومنس اسوسی ایشن قائم کی ۔ اس دوران انہیں بنیاد پرستوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اس کی منفی تشہیر کی گئی ۔نسواںمخالف کا خطاب دیا گیامگر وہ ثابت قدم رہیں ۔ بیگم رقیہ نے کئی افسانے ، ناول ، مضامین اور سائنس فکشن لکھے۔ ’سلطانازڈریم ‘ ان کا ایک نیم فنٹاسی  اورنیم سائنسی  ناول ہےجو پہلے مدراس کے انگریزی رسالے دی انڈین لیڈیز میگزین میں شائع ہوا اور ۱۹۰۸ء میں اسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ ان کے شوہر ملازمت کے سلسلے میں اکثر سفر میں رہتے ۔ رقیہ شیخاوت نے وقت گزاری کے لئے یہ ناول تحریر کردیا۔ سلطاناز ڈریم ایک یوٹوپیائی دنیا کا نال ہے جہاں عورتوں کی حکمرانی ہے۔ محبت اور سچائی وہاں کا دین ہے اور جرم ممنوع ۔کام کے لئے دو گھنٹے مقرر ہیں۔ کھیتی باڑی کے لئے محنت و مشقت نہیں کرنی پڑتی ۔کاریں فضا میں اڑتی پھرتی ہیں۔ خاتون سائنسدانوں نے سورج کی توانائی پر قابو پالیا ہے۔ 
 رقیہ شیخاوت کا ۹؍ دسمبر ۱۹۳۲ء میں انتقال ہو ا۔ ۲۰۰۴ء میں بی بی سی کے سروے ’دی گریٹ بنگالی آف آل ٹائم ‘ کے مطابق وہ چھٹے نمبر پر تھیں ۔ بنگلہ دیش میں آج بھی ۹؍ دسمبر ان کی یاد گار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش حکومت نے اپنی پہلی عوامی یونیورسٹی رنگ پور میں ان کے نام سےقائم کی اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں لڑکیوںکا ہاسٹل بھی انہی سے منسوب ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK