• Sun, 07 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کم عمربچوں میں بڑھ رہا جنسی میلان، تشویش ناک مسئلہ

Updated: September 18, 2025, 5:42 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

کم عمر اسکولی بچوں کو صرف تعلیم سے آشنا کرنا ہی اساتذہ کا فرض نہیں ہے بلکہ ان کی تربیت کرنا اور زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

معاصر انسانی معاشرہ رفتار وگفتار اور افکار و افعال کی سطح پر آئے دن ایسے مسائل سے دوچار ہور ہا ہے جن کا بر وقت اور موزوں حل تلاش کرنے کی کوشش میں اگر تساہلی برتی جائے تو صورتحال اس حد تک بگڑ سکتی ہے کہ پھر اصلاح اور سدھار کی گنجائش کم رہ جائے گی۔ ایسا ہی ایک مسئلہ کم عمر بچوں میں بڑھ رہا وہ جنسی میلان جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ جس قدر سنگین ہے اس پر والدین اور ان دیگر افراد کی توجہ اسی قدر کم ہے جن افراد کی سرپرستی یا صحبت میں بچے پروان چڑھتے ہیں۔ یہ عدم توجہی کچھ تو نادانستہ طور پر ہے اور کچھ اس جھجھک کے سبب جو بنام اخلاقیات اس مسئلے کو دانستہ طور پر نظر انداز کرتی رہتی ہے۔ کم عمر بچوں کی نگہداشت اور ان کے طفلانہ تجسس کی تسکین جس دانشمندی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے عموماً ایسی دانشمندی کا مظاہرہ والدین اور ان دیگر افراد کے ذریعہ بہت کم کیا جاتا ہے جوزندگی کے اس انتہائی نازک دور میں بچوں کی پرورش و پرداخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 
کم عمر بچوں میں بڑھ رہا جنسی میلان بہت حد تک اس ماحول کا شاخسانہ ہے جس میں بچوں کی پرورش اور تربیت انسانوں سے زیادہ ان جدید تکنیکی آلات کے سپرد کر دی گئی ہے جو انھیں ورچوئل دنیا کی سیر کراتے وقت ایسے جہانوں میں بھی لے جاتے ہیں جن سے بچوں کے معصوم ذہن پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ اثرات جب بچوں کی شخصیت کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں تب ان کے برتاؤ میں وہ تبدیلیاں رونماہونا شروع ہو جاتی ہیں جن کے سبب بچوں کی معصومیت غصہ اور تشدد کی راہ اختیار کر لیتی ہے۔ اس مرحلے پر اگر والدین صورتحال کی نزاکت اور حساسیت کو محسوس نہ کرسکیں یا محسوس کرتے ہوئے بھی اپنی مصروفیت اور بعض مصلحتوں کی بنا پر در گزر کرتے رہیں تو بچوں میں ایسی کجی پیدا ہو جاتی ہے جو ان کی فطری نشو ونما پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس کجی کے سبب بچے ایسے مطالبات کرنے لگتے ہیں جو بہ اعتبار عمر اُن کیلئے موزوں نہیں ہوتے۔ ان مطالبات کی عدم تکمیل کی صورت میں وہ جارح رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور ان دیگر ذرائع کی تلاش کرنے لگتے ہیں جو ان کے مخدوش جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کر سکیں۔ 
اس ضمن میں والدین، سرپرست اور گھر کے دیگر افراد کے علاوہ ان تمام افراد کو بھی سنجیدہ بیداری سے کام لینے کی ضرورت ہے جو اساتذہ کی شکل میں بچوں کے ساتھ دن کا ۶؍ سے ۸؍گھنٹہ گزارتے ہیں۔ کم عمر اسکولی بچوں کو صرف تعلیم سے آشنا کرنا ہی اساتذہ کا فرض نہیں ہے بلکہ ان کی تربیت کرنابھی ان کی ذمہ داری ہے۔ زندگی کے معاملات جس رفتار سے پیچیدگی اختیار کرتے جارہے ہیں اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسکولوں میں کم عمر بچوں کی ذہنی نشو و نما کے علاوہ ان کی نفسیاتی تربیت اس انداز سے کی جائے جو ان کے افکار و جذبات کو مخدوش خیالات اور جنسی آلودگی سے محفوظ رکھ سکے۔ کم عمر اسکولی بچے ان حساس موضوعات پر بے جھجھک گفتگو کرنے لگے ہیں جو اَب سے کچھ برس قبل تک مخرب اخلاق کے زمرے میں آتے تھے۔ 
بچوں کا یہ رویہ نہ صرف ان کے تعلیمی مراحل کو مختلف مسائل سے دوچار کرتا بلکہ اس کا اثر ان کی صحت پر بھی پڑتا ہے۔ کم عمر بچوں میں مایوسی اور اضطراب اور غصہ و جارحیت کے ایسے اکثر معاملات سامنے آئے ہیں جن کا بنیادی سبب ان کا وہ جنسی میلان رہا ہے جو کم عمری میں ہی ان کی شخصیت کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ 
جنسی میلان کے سبب بچوں کے برتاؤ میں ہونے والی غیر فطری تبدیلیوں پر اگر والدین اور اساتذہ کی مصلحانہ توجہ نہ ہو تو صورتحال سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔ بچے جب جسمانی تبدیلی کے مراحل سے گزرتے ہیں تو ان کے اندر ایسا تجسس پیدا ہونا فطری امر ہے جوان تبدیلیوں سے حظ اٹھانے کی تحریک عطا کرتا ہے۔ اس موقع پر اگر ان کی نگہداشت اور مشفقانہ رہنمائی میں کوتاہی برتی جائے اور انھیں موبائل یا ٹیب جیسے آلات کے سپرد کر دیا جائے تو ان کے وجود کا فطری پن زائل ہونے لگتا ہے۔ موبائل اور ٹیب پر ان دنوں جس طرح کے مواد کی تشہیر عام ہوگئی ہے اس سے بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافہ کم اور ان کی فطرت میں ایسی خرابیوں کے پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے جو ان کی پوری زندگی کو پیچیدہ قسم کے مسائل کی آماجگاہ بنا سکتی ہیں۔ ریل بنانے اور دیکھنے کا شوق اب اس جنون کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کے سبب ان جدید تکنیکی آلات پر فحشیات کا ایک دفتر کھل گیا ہے۔ کم عمربچوں کو اس سے محفوظ رکھنا والدین کیلئے ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے جس کا تصفیہ اگر موثر انداز میں نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ نہ صرف بچے کی شخصیت بلکہ پورے گھریلو ماحول کو متاثر کر سکتا ہے۔ 
بچوں کی بہتر پرورش کا عمل اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان کی تربیت پر والدین اور گھر کے دیگر سینئر افراد سنجیدہ توجہ نہ دیں۔ گھر کے علاوہ اسکول میں بھی صرف تدریس ہی پر زور نہ دیا جائے بلکہ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھا جائے اور ان کی شخصیت کو نفسیاتی کجی سے محفوظ رکھنے کیلئے ایسی منظم حکمت عملی اختیار کی جائے جو اُن کے افکار اور رویہ کو ان آلودگیوں سے محفوظ رکھنے میں معاون ہو جن کے سبب بچوں کی فطری نشو و نما متا ثر ہوتی ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK