Inquilab Logo

میں جس مکان میں رہتا ہوں، اُس کو گھر کردے

Updated: October 18, 2020, 10:48 AM IST | Pro Syed Iqbal

شہریوں کی اکثریت جھوپڑوں میں رہنے پراسلئے مجبور ہے کیونکہ انہیں بہتر مکان فراہم کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے، موجودہ حکومت کو چاند پر پہنچنے کی جلدی ہے، بلٹ ٹرین چلانی ہے ، پارلیمنٹ کی نئی عمارت بنانی ہے، اراکین پارلیمنٹ کو تگڑی تنخواہیں دینی ہیں اور ایسے کتنے ہی کام کرنے ہیں جن سے عام آدمی کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے،اسلئے یہاں بے مکانی لوگوں کا مقدر ہے

Slums - PIC : INN
کچی بستیاں ۔ تصویر : آئی این این

پچھلے ہفتے حکومت کی طرف سے دہلی کی ایک قدیم جھوپڑپٹی کو توڑنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ یہ جھگیاں ریلوے کی  زمین پر  بنی ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آزادی  کے  بعد سے آج تک  اس علاقے کی طرف کسی کی توجہ کیوں نہیں گئی؟ ایسی جگہ جو آج ۴۰؍ ہزار انسانوںکا ٹھکانہ ہے۔ جہاں یہ غریب چھوٹے موٹے کام کرکے کسی طرح زندگی گزارتے ہیں، اب اچانک  ان پر افتادآن پڑی ہے تو یہ راتوں رات کہاں جائیں گے؟ کیا ان کیلئے کسی متبادل  جگہ کا انتظام کیا گیا ہے ؟ اگر حکومت اس بستی کے  وجود سے بے خبر تھی تو یہاں بجلی اور پانی کی سہولتیں کس نے فراہم کیں؟یہاں کے باسیوں کو راشن کارڈ اور آدھار کارڈکس اتھاٹی نے دیئے؟ یہاں رہنے والی  ایک خاتون نے ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں بتایا کہ وہ یہاں ۴۰؍ سال قبل شادی کے فوراً بعد آگئی تھیں۔ ان کے بچے یہاں پیدا ہوئے، یہیں بڑے ہوئے اور اپنی شادیاں کرکے وہ بھی یہیں بس گئے، تو آج کون ہے جو اُن کی بسی بسائی دنیا کو اجاڑنا چاہتا ہے؟
 یہ کہانی صرف دہلی کی نہیں بلکہ  یہ تمام بڑے شہروں کا مقدر ہے۔ دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں جھوپڑے  اور جھگیاں نہ ہوں۔ جب کام کی تلاش میں لوگ اپنے گاؤں اور قصبے چھوڑ کر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں تو کھلی جگہوں پر بنے ان سستے داموں کے چھوٹے مکان خرید کر کسی طرح قدم جمالیتے ہیں۔ ان بستیوں میں نہ (چوبیس گھنٹے ) پانی کا نظم ہوتا ہے، نہ بیت الخلاء کی سہولت۔ پھر بھی یہ غریب مزدور جینے کیلئے ہرطرح کی تکلیف برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ۴۰ء اور ۵۰ء کی دہائی میں جب بڑے شہروں میں ملیں اور فیکٹریاں تیار ہوئیں تو آس پاس کے علاقوں سے روزگار کی تلاش میں لوگ جوق درجوق یہیں آنے لگے۔ مل مالکان  اور بڑے سیٹھوں نے ان مزدوروں کیلئے  10x10 کی کھولیاں بنانی شروع کیں جنہیں عرف عام میں چال کہا جانے لگا۔ ان چالوں میں ہر منزل پر ایک بیت الخلاء بنایا اور پانی کا   نلکا لگا دیا جسے چال کے لوگ مل جل کر استعمال کرنے لگے۔ اس ایک کمرے کی جنت میں کبھی دو اور کبھی تین خاندان سرچھپالیتے اور شکایت تک نہیں کرتے کیونکہ بڑے شہروں میں مکان خریدنا مہنگا سودا تھا۔ اپنے گھر کی تعمیر کا خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے مگریہ  خواب اکثر  شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے۔ عام طور پر  لو گ ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں میں اپنا گھر بناتے ہیں جب فنڈ کی ایک معقول رقم ان کے ہاتھ آتی ہے مگر شہروں میں تو ذاتی مکان خریدنے کا خیال بھی ناممکن تھا  کیوں کہ یہاں زمینیں سرکار کی ملکیت ہوتی ہیں، اسلئے کسی عمارت میں فلیٹ خریدنے کیلئے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں جو عموماً عام آدمی کے  پاس نہیں  رہتے۔ اب یا تو آپ اپنے کسی دوست یا عزیز سے قرض لیجئے یا بینک سے قرض لے کر برسوں قسط ادا کیجئے ۔ بصورت دیگر ، چپ چاپ اسی گھر میںپڑے رہئے جہاں آپ کے والدین نے اپنی عمر گزار دی تھی۔
 بڑے شہروں کے رہائشی علاقوں کا تجزیہ کریں تو واضح ہوگا کہ یہاں کی ۶۰؍ فیصد آبادی ایسے ہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں بنیادی سہولتیں عنقا ہیں۔  لوگ باگ پھر بھی ان علاقوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ وجہ ظاہر ہے۔ یہ تنگ وتاریک مکانات اتنے سستے ہیں کہ کہیں اورجائیں تو ان کی جیب نئے فلیٹ کی قیمت ادا ہی نہیں کرسکتی۔ شاید آپ یقین نہ کریں کہ قلب شہر کے مسلم علاقوں میں جب لوگوں نے ’نزول ‘ کیا تو اس وقت مکانات کے کرایے ماہانہ پانچ  روپے ہوا کرتے تھے اورآج نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی  وہ ہزار روپے سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ چونکہ یہ مکانات کام کی جگہ سے قریب ہوتے ہیں، اسلئے ٹرانسپورٹ پربھی خرچ کرنا نہیں پڑتا ۔ پیدل چل لیں، بس کا سفر کرلیں یا اسکوٹر خریدلیں، منٹوں میں آپ اپنے کام کی جگہ تک پہنچ جاتے ہیں لیکن اہم ترین وجہ یہ  بھی ہے کہ اپنی ساری خامیوں اور کمیوں کے باوجود ان علاقوں میں اپنوں کے درمیان رہنے کا جو اطمینان اور تحفظ کا احساس میسر ہے وہ اجنبی علاقوں میں ہجرت کرنے کے خیال سے باز رکھتا ہے۔ اب چاہے ان محلوں اور گلیوں میں بھیڑ بھاڑ ہو، پانی کی قلت ہو، صفائی کا مسئلہ ہو، گلیوں میں دونوں طرف پارکنگ کرنا پڑے، یہاں رہنا ہر حال میں اچھا لگتا ہے۔
 اچھا ہی ہوا جو نوجوان نسل نے پڑھ لکھ کر Privacy کے معنی سمجھ لئے اور اپنے انداز میں ایک آرام  دہ زندگی گزار نے کیلئے ملک کے باہر ملازمتیں کرلیں۔ اگر ایسا نہ کرتے تو مالی آسودگی حاصل کرنے کے بعد پرانے محلوں کو خیر باد کہہ کر مضافات کی نئی بستیوں میں فلیٹ تلاش نہیں کرتے ( میرا روڈ اور ممبرا کی بستیاں اسی نوجوان نسل کے خوابوں کا ثمرہ ہے )۔  اہل ایمان تو بینک سے قرض نہیں لیتے مگر برادران وطن نے اس مسئلے کا حل  اس طرح تلاش کیا کہ پڑھی لکھی اور ملازمت کرنے والی  لڑکیوں سے شادیاں کیں ، دونوں نے مل کر بینک  سے قرض لئے اور جوانی میں اپنے مکان بنالئے۔ کہیں تاجر  پیشہ گروہ نے لائق وفائق داماد ڈھونڈ کر اپنی بیٹیوں کو گھر خرید کر دیئے۔ ہمارے ہاں عموماً لڑکے والے بھی غریب ہوتے ہیں اور لڑکی والے بھی مالدار نہیں ہوتے، اس لئے لڑکیاں ایک غریب گھر چھوڑ کر دوسرے  غریب گھر میں چلی آتی ہیں اور والدین باورچی خانے میں اُٹھ آتے ہیں۔ اب گھر کے حصول کیلئے جو جدوجہد شروع ہوتی ہے تو اس میں پندرہ بیس سال لگ ہی جاتے ہیں جس میں آبائی مکان ، کھیت یا دوسری جائیداد کا فروخت کرنا ضرو ری ہوتا ہے ، ورنہ آخری صورت میں صاحبزادے اپنے والدین کی موت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ گھر کے درودیوار ترکے کی  صورت  میں ان کی جھولی میں آگریں۔  ایک صورت کراے کے مکان میں منتقل ہونے کی بھی ہے۔ مگر شہروں میں کرائے زیادہ ہونے کی وجہ سے متوسط  طبقہ کا فرد ان کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کرائے کے مکانوں میںرہنا  پسند کرتے ہیں۔ ان کی منطق یہ ہوتی ہے کہ مکان خرید کر بلڈروں اور بینکوں کو لاکھوں روپے کیوں دیئے جائیں۔ اس سرمایے کو کسی نفع بخش کام میں لگایاجاسکتا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جسے پرتعیش زندگی گزارنے کا شوق  ہے۔ ان میں سے کچھ تو اسلئے بھی کرایہ دار بنے رہتے ہیں کہ بینکوں کو ہر ماہ سود نہیں دینا پڑتا اور ایک تعداد ان کی بھی ہوتی ہے جو اپنی ملازمتوں  کے سبب کسی ایک جگہ زیادہ عرصے تک نہیں رہ پاتے۔ خود ہماری حکومت نے بھی کرائے میں اضافے کو روکنے کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا، نہ کرایہ داروں میں اتنا اتحاد ہے کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈال سکیں جبکہ دیگر ملکوں کے حالات بالکل مختلف ہیں۔ مثلاً جرمنی میں کرایہ داروں کی انجمن کی اجازت کے بغیر کرائے نہیں بڑھائے جاسکتے۔ لندن کے میئر صادق خان نے ۵؍ برسوں کیلئے کرایوں کو ’فریز‘کردیا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی حالیہ الیکشن میں کرایہ داروں کی حمایت میں بولنے لگے ہیں۔
 بدقسمتی سے ہمارے ہاں رہائش کا مسئلہ کسی سیاسی پارٹی کی ترجیحات میں شامل  ہی نہیں رہا۔ نہ آج تک کوئی الیکشن اس  مسئلے کو بنیاد بنا کر لڑاگیا۔ ہاں! ایک اضافی بیت الخلاء اور پانی کی اضافی لائنوں کی لالچ میں عوام اسی سیاستداں کو ووٹ دیتے آئے ہیں جس نے ذات پات کو اہم گردانا یا کسی فرقہ وارانہ مسئلے پر نعرے لگوائے۔ ورنہ ہمارے غریب ووٹرز میں سیاسی شعور کا ایسا فقدان ہے کہ سیاست داں روپوں کی تھیلی، کمبل اور ساڑیاں لے کر دروازے پر آجائیں تو انہیں اپنا مائی باپ سمجھ لیتے ہیں۔ چند سال پہلے شیوسینا نے ایک جھوپڑے کے اوپر دوسرا کمرہ بنانےکی سرکاری اجازت دے کر ووٹروں کے دل جیت لئے تھے اور الیکشن بھی..... لیکن اس جیت کے بعد بھی جھوپڑپٹی کے مکینوں کو گھردینے کی ٹھوس پالیسی نہیں بنائی گئی۔ سیاستدانوں کو بھی پتہ ہے کہ فلیٹوں میں رہنے والے چاہے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہماری مخالفت کریں مگر ووٹ دینے یہ غریب ہی آئیں گے، اسلئے انہیں یہیں بسائے رکھو۔ بس! وقتاً فوقتاً کچھ سہولتیں دے کر انہیں خوش کرتے رہو۔ بالفاظ دیگر، ہر سیاسی پارٹی عوام کو ایک باعزت  زندگی گزارنے کے بنیادی حق سے محروم رکھنے کو ہی سیاست سمجھتی ہے۔
  اس باب میں سنگاپور کے پہلے  وزیراعظم  Lee Kuan Yew کا  یہ بیان اکثر دُاہریا جاتا ہے کہ جب تک حکومتیں ایک عام آدمی کے مستقبل کو  خوبصورت نہیں بناتیں ، وہ آدمی حکومت اور معاشرے کیلئے کارآمد نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سنگا پور کے دس شہریوں میں سے ۹؍کے پاس اپنا ذاتی مکان ہے اور سنگاپور کی آبادی مجموعی طورپر خوشحال ہے۔ ہاؤسنگ کالونیاں تو ہم  نے بھی بنائیں مگر ایسی غیر معیاری اور بدصورت بنائی کہ دور ہی سے اپنی  پسماندگی کا اعلان کرتی نظر آتی ہیں۔ فرانس اور جرمنی میں کسی بلڈر کی ہمت نہیں کہ وہ سرکاری فنڈ حاصل کرکے ناقص عمارتیں تعمیر کرے۔ سان فرانسسکو میں کسی بھی نئی عمارت کے تعمیراتی نقائص کے خلاف عدالت میں اپیل کی جاسکتی ہے ۔ نتیجتاً وہاں اکثر تعمیراتی کام میں تاخیر  ہوجاتی ہے۔ روسی حکومت اپنی نگرانی میں سالانہ دس لاکھ مکانات تعمیر کرتی ہے اور ہر مکان اتنا آرام دہ ہوتا ہے کہ عام روسی اپنی زندگی بڑے آرام سے گزارتا ہے اوراسے سرکار سے شکایت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں بلڈرس اس قدر ناقص مٹیریل استعمال کرتے ہیں کہ چند برسوں  ہی میں مکان ٹپکنے لگتے ہیں یا عمارتیں زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ حکومت نے Redevelopment کے نام پر بھی ایک بدعت ایجاد کی ہے جس سے مکینوں کو ہی نقصان ہوا ہے۔ یہ  شاطر بلڈرس دوتین برسوں میں پرانی عمارت کو ازسرنو تعمیر کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اورا س دوران مکینوں کو کرایوں کے مکان میں منتقل ہوجانے پر انہیں کرایہ دینے کا بھی وعدہ کرتے ہیں مگر دوچار مہینے کے بعد یہ وعدے بھی  بھلادیئے جاتے ہیں ۔ اب تعمیر ادھوری رہ جاتی ہے یا تعمیر شروع ہی نہیں ہوتی۔ پتہ  چلتا ہے کہ بلڈر صاحب اضافی فلیٹ فروخت کرکے کب کے جاچکے ۔ بلڈرس سے ملے ہوئے ’منافقین ‘ کو تب جاکر اپنی حماقت کا احساس ہوتا ہے کہ پڑوسیوں سے الگ ہوکر اور بلڈر کی ہاں میں ہاں ملاکر ( صرف چند اضافی اسکوائر فٹ کی لالچ میں ) انہوں نے اپنا  ہی نہیں سب کا نقصان کیا ہے ۔ اب عدالت جایئے اوراپنا جائز حق حاصل کرنے کیلئے برسوں انتظار کیجئے۔
  پرانی بستیوں کی حالت زار کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب بمبئی کی  لوکل ٹرینیں ان کے درمیان سے گزرتی ہیں۔ حکومت کی بے حسی دیکھئے کہ یہ سیاستداں اپنے لئے تو کشادہ مکانات بنالیتے ہیں مگر جن کے ووٹوں سے  اقتدار حاصل کیا تھا، انہیں بے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ جب تک عوام کیلئے سستے گھر بنائے نہیں جاتے، گھروں کے فنانس کیلئے معقول اسکیمیں نہیں بنتیں اور بڑے شہروں کی مناسب منصوبہ بندی نہیں ہوتی، شہریوں کی اکثریت انہی جھوپڑوں میں رہنے کیلئے مجبور ہوگی۔ تعجب نہیں جو چند سال بعد یہ خبر آئے کہ فلاں جھوپڑپٹی کو مسمار کردیا گیا اور  فلاں علاقے میں عمارت گر پڑی کیونکہ موجودہ حکومت کو چاند پر پہنچنے کی جلدی ہے، بلٹ ٹرین چلانی ہے ، پارلیمنٹ کی نئی عمارت بنانی ہے، اراکین پارلیمنٹ کو تگڑی تنخواہیں دینی ہیں اور ایسے کتنے ہی کام کرنے ہیں جن سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے   والا۔ اب غریب عوام صرف اپنے خدا سے دعا کرتے رہیں کہ  ؎ ’’میں جس مکان میں رہتا ہوں، اس کو گھر کردے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK