گزشتہ دنوں جیا بچن کے ایک مداح نے ان کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش کی اور ان کی برہمی کا نشانہ بن گیا، وہ پہلے بھی اپنی بدمزاجی کااظہار کرچکی ہیں۔
EPAPER
Updated: August 24, 2025, 12:56 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
گزشتہ دنوں جیا بچن کے ایک مداح نے ان کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش کی اور ان کی برہمی کا نشانہ بن گیا، وہ پہلے بھی اپنی بدمزاجی کااظہار کرچکی ہیں۔
فلمی دنیا کی بلند قامت شخصیت اور گزشتہ ۲۰؍ برسوں سے راجیہ سبھا میں سماج وادی پارٹی کی رکن جیا بچن کا ایک ویڈیو گزشتہ دنوں وائرل ہوا۔ یہ ویڈیو کلپ مبینہ طور پر نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب کا ہے جہاں ان کا ایک مداح ان کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش میں ان کی بدمزاجی کا ہدف بنا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب جیابچن نے عوامی سطح پر ایسے غیظ کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ ان کے مداحوں اور فلمی فوٹو گرافروں کو ان کے غصہ کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ جیا بچن کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ انھوں نے اداکاری اور سیاست میں بھلے ہی اپنی لیاقت اور ذہانت کا ثبوت پیش کیا ہو لیکن عام انسانوں کے تئیں ان کے کردار میں وہ بلندی اور مزاج میں وہ اعتدال عنقا ہے جو حقیقی معنوں میں شخصیت کو عظیم بناتا ہے۔
شخصیت کی عظمت کا براہ راست تعلق ان انسانی صفات سے ہے جن کا دولت و شہرت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نرم مزاجی، ملنساری اور خیر خواہی سے خالی شخصیت کسی بھی شعبہ ٔ حیات میں خواہ کتنا ہی بڑا رتبہ اور شہرت حاصل کر لے، حقیقی معنوں میں وہ انسانیت کی اس تعریف پر پوری نہیں اترتی جس پر انسانی اقدار کی بقا کا دارومدار ہے۔ جیا بچن کی ایسی تند اور تلخ مزاجی کا دفاع کرتے ہوئے ان کے بچوں ابھیشیک اور شویتا نے کہا تھا کہ چونکہ ان کی ماں کلسٹروفوبیا نامی مرض کا شکار ہیں لہٰذا ہجوم والی جگہوں پر وہ جلد ہی غصے میں آجاتی ہیں۔ اگر اس جواز کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی گزشتہ دنوں وائرل ہوئے ویڈیو کا تجزیہ کیا جائے تو وہاں ایسی کچھ زیادہ بھیڑ بھاڑ نہیں تھی کہ جیا بچن پر یہ فوبیا حاوی ہو جائے اور وہ سیلفی لینے کی کوشش کرنے والے شخص کو دھکا دے کر اسے ذلیل کرنا شروع کر دیں۔ دوسرا اہم سوال یہ کہ اس فوبیا کا ہدف وہ لوگ ہی کیوں بنتے ہیں جو دولت وشہرت اور رتبہ میں ان سے کمتر ہوتے ہیں ؟ کبھی کسی فلمی تقریب، ثقافتی پروگرام یا سیاسی اسٹیج پر ان کے ہم رتبہ افراد کیلئے اس فوبیا کے آثار و مظاہر نمایاں ہوتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔ یہ خود اختیاری رویہ ظاہر کرتا ہے کہ فلموں میں انسانیت کی وکالت کرنا اور سیاسی اسٹیج سے انسانی مساوات کی دہائی دینا اور ہے، اور خود اس راہ پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنا اور ہے۔
دراصل جیا بچن اور ان کے شوہر امیتابھ بچن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ ایک (بیوی) اس وقت اقتدار کی مخالفت پر کمر بستہ ہے تو دوسرا (شوہر) اپنی قد آوری اور دولت و شہرت کے تحفظ کی خاطر کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ طور پر اقتدار کی طرفداری کرتا نظر آتا ہے۔ مخالفت اور موافقت کے اس کھیل کے ذریعہ دونوں اپنی شان و شوکت اور دولت کی ہوس کو پورا کرنے میں منہمک ہیں۔ سماجی سطح پر اپنی توقیر و تعظیم اور ذاتی زندگی میں عیش و عشرت کو یقینی بنانے کی خاطر مصلحت کوشی اور خودغرضی سے کام لینے والوں کی فہرست میں ان کے نام بھی درج ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بیوی جس اقتدار کے آمرانہ رویہ پر نکتہ چینی کرتی ہے، شوہر اسی اقتدار کی قصیدہ خوانی کرتا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ ایک دہائی سے متواتر جاری ہے۔ مرکز میں مودی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر ’ایک نئی صبح‘ کے عنوان سے انڈیا گیٹ پر جو پرشکوہ پروگرام منعقد ہوا تھا اس میں اقتدار کی جی حضوری کرنے والے دیگر لوگوں کے ہمراہ امیتابھ بھی شریک ہوئے تھے اور انھوں نے حکومت کے ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘پروگرام کی ایسی تعریف کی تھی جیسے کہ سابقہ حکومتوں نے خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی کام ہی نہ کیا ہو۔ اب جبکہ مودی حکومت تیسری معیاد سے گزر رہی ہے اس ملک میں خواتین کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ تشویش ناک صورت اختیار کرگیا ہے جس کی تفصیل این سی آر بی کے ڈیٹا سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ تعلیم اور روزگار کے معاملوں میں بھی خواتین کی صورتحال ایسی اطمینان بخش نہیں ہے جس کی بنیاد پریہ کہا جا سکے کہ موجودہ حکومت نے اس ضمن میں موثر اقدامات کئے ہیں۔ اسی طرح مرکزی حکومت کے سوچھتا ابھیان کی جم کر تعریف کرنے والے امتیابھ بچن اس سے ناواقف تو نہ ہوں گے کہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں عالمی سطح پر انڈیا کی کوئی رینک ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی ایک عجیب و غریب سچائی ہے کہ حکومت اس شعبے میں اپنی نام نہاد کارکردگی کی تشہیر کیلئے خود ساختہ پیمانوں کی بنیاد پر مختلف شہروں کی درجہ بندی ہر سال کرتی ہے لیکن عالمی انڈکس میں کوئی نمایاں مقام اب تک نہ حاصل کر سکی۔
امیتابھ کی ابن الوقتی کے کئی اور قصے بھی ہیں جو ان کی شخصیت کو غیر معتبر بناتے ہیں۔ ۹۰ءکی دہائی میں جب ان کی کمپنی اے بی سی ایل مالی خسارے سے دوچار ہوئی اور وہ سنگین معاشی بحران میں مبتلا ہوگئے تھے تو ایسے نازک وقت میں امرسنگھ اور سبرت رائے اور کسی حد تک ملائم سنگھ نے انھیں سہارا دیا تھا۔ اس پریشانی سے نکلنے کے بعد امتیابھ نے امرسنگھ اور سبرت رائے کو جس طرح فراموش کیا وہ ان کی خود غرضی کو عیاں کرتا ہے۔ فلمی دنیا کے ابتدائی دور میں ان کی مختلف طرح سے مدد کرنے والے محمود بھی اپنے آخری ایام میں اس خودغرضی کا شکار ہوئے تھے۔ امتیابھ بچن کے مقابلے جیا بچن اداکاری اور سیاست میں ان سے اہم اور بدرجہا بہتر ہیں جس کا اعتراف فلمی، سماجی اور سیاسی شخصیات نے بارہا کیا ہے لیکن عوام کے ساتھ ان کا غیر انسانی اور بیہودہ برتاؤ ان کی اس اہمیت کو پل بھر میں ضائع کر دیتا ہے۔