Inquilab Logo

سپریم کورٹ نے الیکٹرانک میڈیا کی جانب داری پر ذرا انگشت نمائی کیا کردی کہ حکومت برامان گئی

Updated: September 20, 2020, 9:52 AM IST | Qutbuddin Shahid

سدرشن معاملے پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس جوزف کا یہ کہنا کہ’’ نیوز چینلوں  کے تمام شیئر ہولڈرس کی تفصیلات عام کرنی چاہئیں ۔کمپنیوں کا ریوینیو ماڈل بھی عام ہونا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا حکومت کسی پر زیادہ اور کسی پر کم اشتہارات دے رہی ہے؟‘‘ حکومت کو بُرا لگ گیا۔ اس نے اشاروں ہی اشاروں میں عدالت کو یہ کہتے ہوئے ’حد‘ میں رہنے کا انتباہ بھی دے دیا کہ معاملہ صرف سدرشن تک محدود ہے،اسلئے عدالت کومیڈیا سے متعلق اصول و ضوابط بنانے کیلئے ایمکس کیوری کی تشکیل کی بات نہیں کرنی چاہئے

LED - Pic : INN
ایل ای ڈی ۔ تصویر : آئی این این

بچپن میں پڑھی گئی اساطیری کہانیوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ’دیوؤں‘کی جان  طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ طوطے کا پرکترا جاتا تو ’دیو‘ کا ہاتھ ٹوٹ جاتا تھا، طوطے کی ٹانگ توڑی جاتی تو دیو لنگڑا ہوجاتا تھا اور جب اس کی گرد ن مروڑی جاتی تو  دیو اپنے انجام کو پہنچ جاتا تھا۔ اس انجام پر  ہر اُس شخص کو اطمینان ہوتا تھا جو’ دیو‘ کے مظالم سے واقف ہوتا تھا۔
 ضروری نہیں کہ میرے موضوع کا کوئی تعلق اس کہانی سے بھی ہو لیکن گزشتہ دنوںجب سپریم کورٹ نے الیکٹرانک میڈیا پر قدغن لگانے کی بات کہی اور مرکزی حکومت نے غیر ضروری طو ر پر اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی تواچانک میرے ذہن کے پردے پراُن کہانیوں کے کردار متحرک ہوگئے اور مجھے اُن ’دیوؤں‘ کاانجام نظر آنے لگا۔
  معاملہ تھاسپریم کورٹ میں بدنام زمانہ ’سدرشن نیوز‘چینل پر ایک متنازع پروگرام کی ہونے والی نمائش پر پابندی کا۔یہ پروگرام ابھی باقاعدہ نشر نہیں ہوا ہے لیکن اس کی جھلکیاں بتا رہی ہیں کہ اس میں کتنا زہر ہے؟ اس پروگرام میں یونین پبلک سروس کمیشن جیسے موقر اور غیر جانب دار ادارے کے ساتھ ساتھ ملک کا سب سے مشکل امتحان پاس کرنے والے بیورو کریٹس اور ہندوستانی مسلمانوں پر شک کااظہار کیا گیا  ہے.... اور صرف شک کے اظہار پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ان پر ’سازش‘ کا الزام بھی عائد کردیا گیا  ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت کرنے والی بنچ کی ایک جج جسٹس اندو ملہوترہ نے نہایت کرب کے ساتھ کہا کہ ’’میں نے اس پروگرام کی ایک قسط  دیکھی ہے۔اسے دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔‘‘ اس بنچ کے دوسرے جج جسٹس کے ایم جوزف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس پروگرام میں کئی آدھے سچ ہیں۔ سماج کا ہر طبقہ اقتدار میں حصے داری چاہتا ہے۔ اپنے پروگرام میں آپ نے مختلف امور کا آمیزہ بنا کر پیش کردیا ہے مگر ان سب کا نتیجہ یہی ہے کہ آپ پورے ایک سماج کو بدنام کررہے ہیں۔‘‘
 پروگرام کے انہی مشمولات کے پیش نظر عدالت عظمیٰ  نے   یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ’’ میڈیا کی آزادی کے نام پر پورے ایک سماج کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘میڈیاکی آزادی کی بات دراصل یوں آئی کہ مرکزی حکومت نے اس زہریلے پروگرام کو اسی ’آزادی‘ کے حوالے سے نشر کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل جب یہ معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا، مودی حکومت نے ’ذمہ داری‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نہایت غیر ذمہ دارانہ بات کہی تھی۔ اس نے کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ اسے ’نوکر شاہی جہاد‘ نامی پروگرام کی نشریات پر کوئی اعتراض نہیں  ہے کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب میڈیا کی آزادی کا گلا گھونٹنا ہوگا۔ سالیسٹر جنرل تشارمہتا نے بھی یہی بات سپریم کورٹ میں دہرائی۔ یہ کسی لطیفے سے کم نہیں کہ میڈیا کی آزادی کی بات وہ سرکار کررہی ہے جس پر کشمیرسے لے کردہلی تک اور یوپی سے لے کرگجرات تک ہر جگہ میڈیا کی آزادی کا گلا گھونٹنے کا الزام عائد ہوا ہے۔  اس نے ونود دُوا جیسے سینئر صحافی کو ممبئی سے دہلی ا ور ہماچل پردیش تک چکرلگوایا ہے۔ اسی کے دورمیں این ڈی ٹی وی پر ایک دن کی نشریات کی پابند ی عائد کی گئی۔بہت پرانی بات نہیں ہے جب گجرات کے ایک صحافی دھول پٹیل پر محض اسلئے’بغاوت کا الزام‘ عائد کردیا گیا کہ اس نے ریاستی حکومت میں تبدیلی کی قیاس آرائی پر مبنی اسٹوری کی تھی۔ 
 یہاں تک تو ٹھیک تھا۔  دہلی ہائی کورٹ میں دیئے گئے حلف نامے میں اس سے زیادہ غیر ذمہ داری کی بات وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے یہ آئی کہ ’’پروگرام کے نشر ہونے سے پہلے اس پر پابندی کا کوئی نظم نہیں ہے۔‘‘ یہ ظاہر ہوتے ہوئے بھی کہ اس پروگرام کے ذریعہ سماج کے ایک طبقےکو  بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جیسا کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے مشاہدے میںبیان کیا، حکومت کہہ رہی ہے کہ اس پر پابندی کا کوئی نظم نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی خود کش دستہ بارود سے بھری ٹرک لے کر حساس علاقے میں نکل جائے تو ہماری پولیس اُس پر تب تک ہاتھ نہیں ڈالے گی ، جب تک کہ وہ کوئی واردات انجام نہ دے دے۔ حکومت بخوبی جانتی ہے کہ سدرشن کے مذکورہ پروگرام کا ’مواد‘ کیا ہے لیکن وہ اسے روکنا نہیں چاہتی کیونکہ اس کا ’مواد‘ مودی سرکار کے ایجنڈے سے میل کھاتا ہے۔کسی کی نیت پر شک کرنا ہمارا کام نہیں لیکن حکومت جب یہ کہتی ہے کہ کسی پروگرام کونشرہونے سے پہلے روکنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، نشر ہونے کے بعد اگر وہ چینل خاطی پایا گیا تو اس پر قانونی کارروائی ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سدرشن کو خاطی کون قرار دے گا؟ وہ حکومت جسے اس پروگرام کی جھلکیوں میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی اور جو دہلی فساد کیلئے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے بجائے  پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو اور عمر خالد کو مجرم قرار دیتی ہے۔ یانیوز براڈکاسٹرس اسوسی ایشن (این بی اے) جس  نے عدالت میںاس بات کااعتراف کیا ہے کہ اس کی کوئی سنتا نہیں ہے؟ یا پھر نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھاریٹی (این ایس بی اے) جس کا طور طریقہ یہ ہے کہ کسی نشر ہوجانے والے پروگرام کے خلاف اگر کوئی شکایت ملتی ہے تو وہ ایک جانچ کمیٹی بٹھاتی ہے جو اس معاملے کی ’جانچ ‘ کرتی ہے اور پھر اس چینل پر جرمانہ عائد کرتی ہے جو زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپوں کی صورت میں ہو سکتا ہے۔  بالفرض مان لیجئےپروگرام نشر ہونے کے بعد اگر سدرشن کو خاطی قرار بھی دے دیا گیا تو کیا ہوگا؟ اس پر کچھ جرمانہ عائد کردیا جائے گا جیسے بابری مسجد کی شہادت کےجرم میںکلیان سنگھ کو ایک دن کی سزا ملی تھی۔ سدرشن اور اس بہانے اس کی پشت پناہی کرنے والوں کا مقصد تو حل ہو ہی جائے گا۔ اس کے بعد اسے کوئی بڑا انعام بھی دے دیا جائے گا جس طرح کلیان سنگھ  جیسے ’مجرم‘ کو گورنری سونپ دی گئی تھی۔
  حکومت کی بوکھلاہٹ اُس وقت قابل دید تھی جب سدرشن معاملے پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس  کے ایم جوزف  نے کہا کہ’’ نیوز چینلوں  کے تمام شیئر ہولڈرس کی تفصیلات عام کرنی چاہئیں ۔کمپنیوں کا ریوینیو ماڈل بھی عام ہونا چاہئے اور یہ   دیکھنا  چاہئے کہ کیا حکومت کسی پر زیادہ اور کسی پر کم اشتہارات دے رہی ہے؟‘‘ایسا لگ رہا تھا گویا طوطے کی گردن پر ہاتھ چلا گیا ہو۔ اسی بوکھلاہٹ میں حکومت نے اشاروں ہی اشاروں میں عدالت کو یہ کہتے ہوئے ’حد‘ میں رہنے کا انتباہ بھی دے دیا کہ معاملہ صرف سدرشن نیوز تک محدود ہے،اسلئے عدالت کومیڈیا کیلئے ہدایات جاری کرنے کیلئے ایمکس کیوری کی تشکیل کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ 
  حکومت نہیں چاہتی تھی کہ اس معاملے پر سماعت ہو اور اگر ہو بھی تو معاملہ صرف سدرشن تک ہی محدود رہے جبکہ عدالت نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے پورے میڈیا کی جواب  دہی طے کرنے کی بات کہی ہے۔عدالت نےسدرشن کے پس پشت جاری گورکھ دھندے کو محسوس کرتے ہوئے اپنے مشاہدے میں پوری میڈیا برادری اورنام لئے بغیر حکومت کو بھی مخاطب کیا کہ ’’یہ پیغام میڈیا کو جانا چاہئے کہ ملک اس طرح کے ایجنڈے سے زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘
 عدالت کے اس رُخ سے یقیناً ان تمام لوگوں کو اطمینان ہو ا ہے جو میڈیا   کے شعبے میں موجود کالی بھیڑوں کے خفیہ ایجنڈوں کو محسوس کرتے ہیں اور ان کی فنڈنگ کرنے والوں کے ’عزائم‘ سے واقف ہیں ...لیکن میں اپنی بات مشہور صحافی شیکھر گپتا کے اس تشویش نما سوال پر ختم کرنا چاہوں  گا کہ ’’سپریم کورٹ جب تب فرد کے حقوق پر فیصلے سنا کر یا میڈیا ٹرائل کے خلاف سخت تبصرے کرکے ہمیں سوغات دیتا رہتا ہے لیکن  ایک ادارے کے طور پر عدالت عظمیٰ کیاان خواہشوں کو پورا کرنے کی طاقت رکھتی ہے؟ اس پر اسے سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK