Inquilab Logo

سپریم کورٹ کی ترجیحات اور فراہمی انصاف کا تقاضا

Updated: February 09, 2020, 2:06 PM IST | Aakar Patel

ہمارا سپریم کورٹ اُس بچے کے معاملے پر ازخود سماعت چاہتا ہے جو شاہین باغ آنے کے بعد (غالباً ٹھنڈ کے سبب)، ماں کی آغوش سے موت کی آغوش میں پہنچ گیا۔ کورٹ ۱۰؍ فروری کو علاحدہ سے شاہین باغ کے مظاہرہ کے سبب ٹریفک کی دشواریوں کے معاملے کی سماعت بھی کررہا ہے۔ مگر کورٹ نے اُن ۲۵؍ مظاہرین کی ہلاکت کی سماعت کو ترجیح نہیں دی جو یوپی میں فوت ہوئے اور جن کی موت کو پولیس کے ذریعہ ہونے والے قتل کا نام دیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اب تک اُس معاملے کی شنوائی بھی شروع نہیں کی ہے جس میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی املاک ضبط کرنے کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ تصویر : آئی این این
سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

ہمارا سپریم کورٹ اُس بچے کے معاملے پر ازخود سماعت چاہتا ہے جو شاہین باغ آنے کے بعد (غالباً ٹھنڈ کے سبب)، ماں کی آغوش سے موت کی آغوش میں پہنچ گیا۔ کورٹ ۱۰؍ فروری کو علاحدہ سے شاہین باغ کے مظاہرہ کے سبب ٹریفک کی دشواریوں کے معاملے کی سماعت بھی کررہا ہے۔ مگر کورٹ نے اُن ۲۵؍ مظاہرین کی ہلاکت کی سماعت کو ترجیح نہیں دی جو یوپی میں فوت ہوئے اور جن کی موت کو پولیس کے ذریعہ ہونے والے قتل کا نام دیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اب تک اُس معاملے کی شنوائی بھی شروع نہیں کی ہے جس میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی املاک ضبط کرنے کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ کورٹ نے بیدر کے معاملے میں مداخلت بھی ضروری نہیں سمجھی جس میں چھوٹے بچوں سے ایک سے زائد مرتبہ پوچھ تاچھ کی گئی۔ یہ اس اسکول کا معاملہ ہے جہاں پیش کئے جانے والے ڈرامے کی بابت کہا جاتا ہے کہ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کی گئی تھی۔ کورٹ نے اُن کشمیری لیڈروں کی درخواستوں کو بھی مرکز توجہ نہیں بنایا جن پر نہ تو الزامات عائد کئے گئے نہ ہی ان کے خلاف فرد جرم داخل کی گئی لیکن جنہیں حراست میں یا نظر بند رکھا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اہل کشمیر کیلئے انٹرنیٹ خدمات کو بھی بحال نہیں کروایا ہے۔ جنوری میں اس نے کچھ راحت ضرور دلوائی اور کچھ بہت اچھی باتیں کہیں مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ سپریم کورٹ نے سی اے اے پر اسٹے بھی نہیں دیا جبکہ فاضل ججوں سے کہا گیا تھا کہ اس کی وجہ سے سماج میں بڑی بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اُن ایک ہزار لوگوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا جو آسام کے حراستی مراکز میں مقید ہیں، جنہیں کسی جرم کے بغیر جیل بھیجا گیا اور جن کے افراد خانہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مودی حکومت کے اس اعلان کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا کہ حراستی مراکز میں جو غیر مسلم ہیں، اُنہیں آزاد کردیا جائیگا، صرف مسلمان وہاں رہیں گے۔ 
 یہ سارے مسائل و معاملات سپریم کورٹ کی فوری مداخلت کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ویسے جو باتیں بالائی سطور میں بیان کی گئی ہیں، معاملات و مسائل وہیں تک محدود نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں بھی اب تک کوئی دلچسپی نہیں لی ہے کہ جو مسلمان آسام کے این آر سی میں اپنا نام درج کرانے سے محروم رہے اُنہیں شہریت ثابت کرنے کا موقع کب ملے گا؟کورٹ نے آسام کے این آر سی میں پائی جانے والی سنگین بے ضابطگیوں کی بھی سماعت نہیں کی ہے۔ ان بے ضابطگیوں میں اُن کارکنان کے معاہدۂ مدت کار میں دو سال کی توسیع بھی شامل ہے جنہوں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اُن لوگوں کے معاملات پر بھی توجہ نہیں دی ہے جو اپنی دستاویزات میں ناموں کی غلطی یا تواریخ کے فرق کی وجہ سے غیر ملکی ظاہر کئے گئے ہیں۔ 
 سپریم کورٹ نے وہ زمین تو واگزار نہیں کرائی جس پر بابری مسجد تھی مگر اسے اُن لوگوں کے حوالے کردیا جنہوں نے مسجد گرائی تھی۔ اس نے اُن لوگوں کے خلاف مقدمے کو بھی تیزی کے ساتھ جاری نہیں رکھوایا جن پر بابری مسجد کی شہادت کا الزام ہے۔ ایل کے اڈوانی کے خلاف جو کیس تھا وہ مدھم رفتار سے جاری ہے۔ ان کی عمر ۹۰؍  ہوچکی ہے اور خود مقدمہ کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں۔
 این آر سی اور این پی آر کو غیر قانونی طور پر ایک دوسرے سے مربوط کردیا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ نے اسے بھی قابل اعتناء نہیں سمجھا۔ اسے لسٹ بھی نہیں کروایا۔ ایسی کتنی چیزیں ہیں۔ مَیں چاہوں تو لکھتا ہی چلا جاؤں مگر کچھ اور باتیں کہنی ہیں اس لئے مَیں فی الحال یہیں رُکنا چاہوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت پر جانبداری کا احتمال ہونے لگا ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے عدالت ملک کے مسلمانوںکے ساتھ امتیاز برت رہی ہے۔ عدالت کن معاملات کی سماعت چاہتی ہے اور کن معاملات کی سماعت نہیں چاہتی، یہ صاف طور پر محسوس ہونے لگا ہے۔ عام حالات میں یہ طرز عمل کچھ زیادہ محسوس نہ ہوتا مگر موجودہ حالات میں اس کا احساس یقیناً  زیادہ ہورہا ہے جب ہزاروں لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہیں اور اپنی بقاء کی لڑائی میں مصروف ہیںاور جب ایک ایسی حکومت اقتدار میں ہے جو نظریاتی طور پر امتیاز برتتی ہے اور اس کا یہ انداز حکمرانی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ ان حالات میں اکثریتی احساسات کو ملحوظ رکھنے کا سپریم کورٹ کا طرز عمل پریشان کن ہے۔ 
 ہندوستان آئین اور قانون کی پاسداری پر یقین رکھنے والا ملک ہے، ایک ایسا ملک جو اپنی اقلیتوں کی فکر کرتا ہے اور اُن کے حقوق کو اہمیت دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں ملک کی یہ شبیہ مسخ ہورہی ہے۔ کل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یورپی پارلیمنٹ کے ممبران کی اکثریت ہندوستان کے کسی قانون کی مخالفت میں قراردار پیش کرے گی۔ اب وزیر خارجہ ایس  جے شنکر چند روز میں بروسیلز جائینگے تب انہیں سی اے اے کے تعلق سے اُٹھنے والے سوال کا سامنا تو کرنا پڑے گا! کل تک یہ بھی سوچا نہیں جاسکتا تھا کہ امریکی کانگریس کے ۵۹؍ اراکین ایک ایسی قراردار کی حمایت کریں گے جس کے ذریعہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی رہائی کا مطالبہ کیا جائیگا اور یہ مانگ کی جائیگی کہ اہل کشمیر کیلئے انٹرنیٹ خدمات بحال کی جائیں۔  اس کے باوجود معزز ججوں نے انہی معاملات کی سماعت کو ترجیح دی جو اُن کی دلچسپی کے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے معاملات کی سماعت ججوں کیلئے مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ۱۹۵۰ء میں صرف ۸؍ جج تھے جو ۲۰۰۸ء میں ۳۱؍ ہوئے۔ آج (۲۰۲۰ء میں) ان کی تعداد صرف ۳۳؍ ہے۔ سپریم کورٹ، چیف جسٹس آف انڈیا کی سہ رُکنی بنچ کے علاوہ ۲۔۲؍ ججوں کی ۱۳؍ تا ۱۴؍ بنچوں پر مشتمل ہے جو ۱۳۔۱۴؍ عدالتی کمروں  میں تسلسل کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ کسی بھی دوسری سپریم کورٹ میں ۲؍ ججوں کی ۱۳؍ عدالتیں نہیں ہیں جیسا کہ ہمارے سپریم کورٹ میں ہے۔ امریکہ کی سب سے بڑی عدالت جو ہندوستانی سپریم کورٹ سے مشابہ ہے میں ۱۲؍ ججوں کی صرف ایک بنچ ہے۔ 
 مگر، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سپریم کورٹ کی ان بنچوں سے انصاف کی فراہمی کا وہ عظیم الشان کام انجام پارہا ہے جس کے لئے عدالتیں سرگرم رہتی ہیں؟ اس سوال کا جواب عوام کی جانب سے آنا چاہئے جنہیں موجودہ حکمرانوں نے نوع بہ نوع پریشانیوں میں مبتلا کررکھا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ملک کے مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں حکومت اور سپریم کورٹ کی جانب سے انصاف مل رہا ہے؟ 
 مَیں اُن کی (مسلمانوں کی) جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کا جواب کیا ہے تو مَیں پورے وثوق سے کہوں گا کہ میرا جواب نفی میں ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK