Inquilab Logo

سپریم کورٹ نےجب احتجاج کے حق کو تسلیم کرلیا تو حکومت کیوں نہیں کرتی ؟

Updated: February 23, 2020, 2:14 PM IST | Arqam Noorulhasan

شاہین باغ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس میں عوام کے احتجاج کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے لیکن وہ مظاہرین کو ہی منانا چاہتی ہے جبکہ مظاہرین کا ماننا نہ ماننا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ان کے سامنے سی اے اے کی شکل میں جو مسئلہ ہے،اسے ختم کرنے کی جب تک حکومت کی جانب سے یقین دہانی نہیں کی جاتی تب تک کوئی عدالتی مندوب انہیں منا نہیں سکتا لیکن حکومت اس معاملے میں اپنی ذمہ داری سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے

 عدالتی مذاکرات صرف راستہ روکے جانے پر گفتگو کررہے ہیں جو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تصویر ـ پی ٹی آئی
عدالتی مذاکرات صرف راستہ روکے جانے پر گفتگو کررہے ہیں جو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تصویر ـ پی ٹی آئی

نئی دہلی کےشاہین باغ میںدھرنے پر بیٹھیں خواتین  سے گفتگو کرنے کیلئے سپریم کورٹ کےمقررکردہ مذاکرات کاروںنے اب تک مظاہرین سے جو گفتگو کی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہےکہ انہیں احتجاج سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ بھی اپنے فیصلے میں یہ واضح کرچکی ہےکہ احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہےلیکن  شہریوں کو پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے مظاہرین کو ایسی متبادل جگہ کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیا ہے جہاںکوئی عوامی راہ گزر متاثر نہ ہو۔سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مذاکرات کاروں کاشاہین باغ کی مظاہرین سےگفتگو کا بدھ کو پہلا دن تھا  جبکہ سنیچر کوچوتھےراؤنڈ کی گفتگو مکمل ہوئی۔ اس دوران ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے، سادھنا رام چندرن  اوروجاہت حبیب اللہ ، ان تینوں ثالثوں نے مظاہرین سےگفتگو کے دوران ان کے احتجاج کے حق کوتسلیم کیا ہے اور شاہین باغ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
  مذاکرات کاروں نےان۴؍ دنوں میںجب بھی مظاہرین سےگفتگوکی ہے ،ان کے احتجاج پرکبھی تنقید نہیں کی ہے، مظاہرین کو نشانہ بنانے کی ہمت نہیں کی ہے، ان کے سوالات پر سوال نہیں اٹھائے ہیں۔ ایڈوکیٹ سادھنا رام چندرن مظاہرین سے گفتگو کے دوران متعدد بار یہ کہہ چکی ہیں کہ شاہین باغ کے احتجاج کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔شاہین باغ قائم رہے گا۔مذاکرات کارمظاہرین سے صرف راستہ کھولنے کی بات کررہے ہیں۔ مظاہرین نے بھی ان سے صاف صاف کہہ دیا ہےکہ وہ تو راستےکے ایک  بہت چھوٹےحصے پر دھرنے پربیٹھی ہیں۔روڈ تو دہلی پولیس نےبلاک کررکھا ہےتاکہ  ان کے احتجاج کو آمدورفت میں مسئلے کا سبب بتایاجاسکے۔مظاہرین نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا ہےکہ وہ  اس وقت تک نہیں اٹھیںگی جب تک حکومت سی اے اے اور این آر سی کا فیصلہ واپس نہیں لے لیتی۔۲؍روز قبل مظاہرین نےیہ بھی کہہ دیا تھاکہ اگر حکومت سی اے اے اور این آر سی کے تعلق سے ان کی تشویش دورکردیتی ہے تووہ ۲؍منٹ میں دھرنا ختم کردیں گی ۔
 ابھی شاہین باغ میںاحتجاج جاری ہے اورجاری رہےگا۔خواتین پُرعزم ہیں۔ لگاتار سازشوںکے درمیان وہ وہاں ڈٹی ہوئی ہیں۔بدنام کئے جانے کی کوششوںکے درمیان  ان کی نامور ی کاگراف دن بہ دن بلند ہوتاجارہا ہے۔ان سے گفتگو کیلئےملک کی سب سے بڑی عدالت کو وہاں اپنے نمائندوں کو بھیجنا پڑا۔  اس سے قبل مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی ان سے گفتگو کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن خود شاہین باغ  جانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔مظاہرین  نےوزیرداخلہ کی رہائش گاہ تک مارچ کا فیصلہ کیالیکن انہیں پولیس نے روک لیا۔ ایک جانب وزیر داخلہ مظاہرین سے گفتگو کی خواہش کا اظہارکرتے ہیں لیکن ان کی جانب سےایساکوئی انتظام نہیں کیاجاتا کہ گفتگوباقاعدہ ہو بھی سکے ۔ اگر امیت شاہ مظاہرین سے واقعی گفتگو کرنا چاہتے تھے تو ان کے سامنے دوہی متبادل تھے۔پہلا یہ کہ وہ یا تو خود شاہین باغ پہنچتےیا جو مظاہرین ان سےملاقات کرنا چاہتے تھے، انہیں باوقار اندازمیں ملنےکاموقع واجازت دیتے۔جب مظاہرین  پولیس کے ذریعے روک لئے گئے تویہاں بھی ان سے گفتگو کے خواہشمندوزیر داخلہ کی اولین ذمہ داری تھی کہ وہ مداخلت کرتے۔ان کی طرف سےہوا بس اتنا کہ انہوں نے صرف خواہش کا اظہارکردیا۔ شاہین باغ کی مظاہرین ویسے بھی کافی دنوںسے وزیراعظم کو مدعو کررہی ہیں، وزیرداخلہ کو بھی گفتگو کی دعوت دےرہی ہیں۔عدالتی مذاکرات کاروںسے بھی انہوں نےگزشتہ دنوںیہ کہا تھاکہ اب تک حکومت کا کوئی نمائندہ ا ن سےملنے کیوں نہیں آیا؟مظاہرین کا یہ بہت ہی بنیادی سوال ہے۔دومہینے سےجاری احتجاج  ،جس کے مظاہرین کی شہرت نہ صرف ملک گیر بلکہ عالم گیر ہوچکی ہو،وہ بیٹھی بھی ہوں قومی راجدھانی میں،احتجاج کا ان کا انداز بھی پوری طرح جمہوری ہو، لیکن حکومت ہی اب تک ان سےگفتگو نہ کرے،یہ ایک جمہوری ملک کاایساپہلو معلوم ہوتاہےجس کی تاریکی پر روشنی ڈالی جانی چاہئے۔وہ تو بھلا ہوا کہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں پہنچا،جس نے معاملے کی نزاکت واہمیت کو سمجھتے ہوئےایک فیصلے میں مصالحت کار متعین کئےجو گزشتہ چار دنوں سے مظاہرین سے بات چیت کررہےہیں۔ 
   سپریم کورٹ کے فیصلے سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس میں عوام کے احتجاج کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے۔سپریم کورٹ نے بھی احتجاج پر نہیں بلکہ راستہ روکے جانے پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔حالانکہ اس سوال کا جواب مظاہرین نے مذاکرات کاروںکو دیا ہے لیکن بات یہیں پررُکی ہےکہ انہیں احتجاج ختم کرنا چاہئے یا نہیں۔اصل میں یہ وہ سوال ہےجس پر سپریم کورٹ نے نہ کوئی فیصلہ سنایا ہے ،نہ ہی حکم دیاہے۔عدالت نے مظاہرین  کے احتجاج کا حق تسلیم کرتے ہوئےانہیں متباد ل جگہ  کےانتخاب کامشورہ دیاہے۔ سپریم کورٹ نے عوام کے جمہوری حق کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے اور معاملہ حکومت کے پالے میںڈال دیا ہے۔عدالت عظمیٰ کے نمائندہ  نہ مظاہرین پر احتجاج ختم کرنے کا دبا ؤڈ  ال سکتے ہیں نہ انہیںوہاں سے ہٹانے کی کوئی ترکیب تجویز کرسکتے ہیں۔  یہ معاملہ حکومت کے ذمہ  ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کو پارلیمنٹ میں حکومت نے منظورکروایا ہے۔ مظاہرین حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ہیں اورچاہتے ہیںکہ حکومت یہ قانون واپس لے اوراس کی بنیاد پر این آر سی نافذ کرنے  کے اپنے فیصلے سے بھی دستبردار ہوجائے۔سپریم کورٹ صرف جگہ کے متبادل پر بات کررہا ہے اور مظاہرین صرف حکومت کےنمائندہ سے گفتگو کرنا چاہتےہیں۔ وہ ایک ایسےقانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جسےسیکڑوں مقررین نے آئین مخالف قراردیا ہے۔ملک کیلئے خطرہ تسلیم کیا ہے اوراسے عوام کوبانٹنے والابتایا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے معلوم ہوتاہےکہ اس نے اس قانون کی مخالفت کے ان تمام پہلوؤں پر غورکیاہےلیکن اس تعلق سے عدالت پہلے مظاہرین کومنانا چاہتی ہے۔ جبکہ مظاہرین کا ماننا نہ ماننا مسئلہ نہیں ہے۔ان کے سامنے سی  اے اے کی شکل  میںجو مسئلہ ہے،اسے ختم کرنے کی جب تک حکومت کی جانب سے یقین دہانی نہیںکی جاتی تب تک کوئی عدالتی  مندوب انہیں منا نہیں سکتا۔ پھر وہ ناراض تھوڑی ہیںکہ انہیں منایاجائے۔ انہوں نے ایک تومعاملہ اٹھایاہے جس پرغور کیاجانا چاہئے کہ وہ ملک کے حق میںہے یا نہیں۔ اگریہ معاملہ ملک کے حق میں نہیںہے ،جیسا کہ عوام کی اکثریت کی آواز ہے ، تواس معاملے پرحکومت پر دباؤڈالنا عدالت کی ذمہ داری تھی ۔
 اس کے برعکس حکومت کا رویہ دیکھیں تووہ صریح دھمکی آمیز نظر آتا ہے۔وزیر اعظم اورامیت شاہ دونوںیہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں لیاجائےگا ، اس سے وہ ایک انچ پیچھے ہٹیںگے۔اس  کے پیش نظر سپریم کورٹ نے مظاہرین کومتبادل جگہ کے انتخاب کا  جومشورہ دیا ہے،اس میںمسئلے کاحل نہیںہے۔جب تک حکومت کا کوئی نمائندہ شاہین باغ نہیں پہنچے گا ، کوئی حل سامنے نہیں آئےگا۔شاہین باغ میںاپنے نمائندے بھیجنے سے پہلےسپریم کورٹ اس بات پر اگر حکومت کی سرزنش کرتی  کہ ۲؍ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرجانےکے باوجودحکومت نے اپنے کسی نمائندہ کوشاہین باغ  کیوں نہیں بھیجا تو اس احتجاج کو نیا رخ مل سکتا تھا۔ حکومت کی طرف سے کوئی جواب آتا۔فی الحال حکومت مطمئن ہےکہ عدالت کے نمائندے مظاہرین سے گفتگو کررہےہیں لیکن  اپنی ذمہ داری اس نے اب تک ادا نہیں کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK