Inquilab Logo

سپریم کورٹ: اب کسے رہنما کرے کوئی؟

Updated: June 30, 2022, 11:17 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

مسلمانوں کے تئیں حکومت، پولیس اور گودی میڈیا کے متعصبانہ رویے کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ سی اے اے اوراین آر سی کے خلاف پُرامن مظاہرہ کرنے والے جامعہ کے طلبہ پر کیمپس میں گھس کر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں، توڑ پھوڑ کی۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 ایک  ایسے وقت جب آئینی وجمہوری حقوق واقدارپر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہوں، اکثریت کی بنیاد پر پارلیمنٹ کو ربراسٹیمپ کی طرح استعمال کیاجارہا ہو، عدم روا داری اور مذہبی تشدد کا بول بالا ہو، سرکاری وآئینی ادارے مودی کی شان میں قصیدے پڑھنے اور جی حضوری میں لگے ہوں، حکومت اور اس کے خلاف بولنے ، لکھنے اور دھرنا دینے والے دانشوروں ، صحافیوں ، طلباء ، سماجی رضاکاروں اور کسانوں کو ملک دشمن بتاکر غداری قانون اور یواے پی اے کے تحت طویل عرصے تک جیل میں ٹھونسا جارہا ہو، سیاسی مخالفین کے پیچھے انکم ٹیکس ، سی بی آئی اور ای ڈی کو لگایاجارہا ہو تو لوگوں میں خوف و دہشت کا غلبہ فطری ہوگا۔ ان حالات میں مظلومین کا واحد سہارا عدلیہ ہو تا ہے لیکن ، اگر جج حضرات بھی حکومت کےنمک خوار اور وفادار نکلیں تو …؟
  قانون اورانصاف کے کچھ مسلّمہ اصول ہیں جن کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ (۱) قانون کا نفاذ بلا تفریق ِمذہب ومراتب سبھوں کے لئے یکساں ہونا چاہئے (۲) بھلے ہی سَوگنہگار چھوٹ جائیں لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہئے۔ (۳) ملزم اس وقت تک بے گناہ سمجھا جاتا ہے جب تک جرم ثابت نہ ہو اور (۴) انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ نظر بھی آنا چاہئے۔ مودی دَور میں ان اصولوں کی جس طرح ان دیکھی ہورہی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں ملک کا جو حال ہوا اور عالمی سطح پر جس طرح اس کی بدنامی ہوئی اس کےلئے حکومت ، پولیس اورسر کاری ایجنسیوں سمیت عدلیہ بھی ذمہ دار ہے اس عرصے میں نہ صرف درج بالا طبقات کو نشانہ بنایا گیا بلکہ مسلمانوں پر حکومت، پولیس ، گودی میڈیا اور مودی اندھ بھکتوں کی خاص نظرِ عنایت رہی ہے ۔ کوئی دن نہیں جاتا جب مسلمانوں کو بدنام یا ذلیل کرنے اور پریشان وہراساں کرنے کے واقعات پیش نہ آتے ہوں۔ اس معاملے میں یوپی سرفہرست ہے۔ یوگی نے مسلمانوں کو ذلیل کرنے  کے جو نِت نئے حربے آزمائے اس میں پوسٹر میں مفرورملزمین کی تصاویر شائع کرنا، جرمانہ عائد کرنا اور غیر قانونی تعمیرات کی آڑمیں  اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کے مکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے انہیں زمیں بوس کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ یوپی کی دیکھا دیکھی دوسری ریاستوں نے بھی ان حربوں کو اپنایا ۔ حیرت اس پر ہے کہ ان سب کے باوجود عدلیہ خاموش ہے۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ گودی اور سوشل میڈیا کا رہا ہے۔ نیوز چینلز،پرائم ٹائم پر ہونے والی بحثوں اور نیوز بُلیٹن کے ذریعے برادران وطن کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے  کا کام کرتے ہیں تو سوشل میڈیا جلتی پر تیل جھڑکنے کا۔ بی جے پی چیف نڈا نے آنحضور ؐ کی شان اقدس  میں گستاحانہ کلمات استعمال کرنے والی نپور شرما اور نوین جندل کے خلاف کارروائی کرکے اپنا پلّہ جھاڑ لیا لیکن اس سے پارٹی کی جوابدہی ختم نہیں ہو تی کیونکہ پا رٹی طے کرتی ہے کہ کس ترجمان کو کس چینل کی بحث میں حصہ لینا ہے۔ اسی طرح نیوز چینل بھی کسی متنازع بیان کو لیڈر کی ذاتی رائے بتاکر اس سے دوری نہیں اختیارکرسکتا ۔ ایسا کرنے پر  اس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اس نے لیڈر کو اس وقت ٹوک کر معاملہ کو ختم کیوں نہیں کیا۔ سچ یہ ہے کہ نیوز چینلز ایسے ترجمانوں کو ترجیح دیتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف  زہر اگلنے میں مہارت رکھتا ہو۔ 
  مسلمانوں کے تئیں حکومت، پولیس اور گودی میڈیا کے متعصبانہ رویے کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ سی اے اے اوراین آر سی کے خلاف پُرامن مظاہرہ کرنے والے جامعہ کے طلبہ پر کیمپس میں گھس کر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں، توڑ پھوڑ کی اور پھر دہلی فساد کی سازش رچنے کے جھوٹے الزام میں یواے پی اے کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا۔ اسی طرح ملک میں کووڈ کے پھیلاؤ کے لئے نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں بیرون ملک سے آئے اراکین کو ذمہ دار ٹھہراکر گرفتارکیا۔ اس پر گودی میڈیا اور سوشل میڈیا نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے وہ طوفان بدتمیزی برپاکیا جس کے جھانسے میں اچھے اچھے آگئے لیکن جب عدالتوں نے پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے ان اراکین کو کلین چٹ دی تو یوں لگا جیسے گودی میڈیا کو سانپ سونگھ گیاہو۔  
  ان حالات میں جب مسلمانوں کے لئے ہندوستان کی سرزمین  تنگ کی جارہی ہے، گزشتہ ۶؍ اپریل کو جسٹس این وی رامنا کی چیف  جسٹس آف انڈیا  کی حیثیت سے  حلف  برداری تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ۔ انہوںنے پہلا کام  غداری قانون پر حکومت کو گھیرنے کا کیا کہ کیوں نہ  نوآبادیاتی  نظام کے اس  قانون کو ختم کر  دیاجائے اسی طرح اکثریت پرستی اور اکثریت نوازی کے خلاف  ان کے اور ان کے جانشین  جسٹس ڈی وائی چندراچوڈ کے ا کثریت پرستی اور اکثریت نوازی کے خلاف  دیئے گئے بیانات سے یہ امید جاگی کے رامنا اپنے چار پیشرو جسٹس کی طرح نہیں ہوں گے جنہوںنے خوف یا ریٹائرمنٹ کے بعد اچھی پوسٹنگ کی لالچ میں حکومت اور اکثریتی طبقے کوخوش کرنے والے فیصلے دیئے۔  افسوس ’اے بساآرزو کہ خاک شدہ‘ کی طرح مایوسی ہاتھ آئی ۔پچھلے دنوں نپور شرما اورنوین جندل کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے والے جن مظاہرین کے مکانات کو یوپی حکومت نے بلڈوزر سے ڈھایا اسے چیلنج کرنے والی جمعیۃ العلماء  (ارشدمدنی ) کی پٹیشن اور گجرا ت فسادات میں دیگراںسمیت اپنے شوہر سابق ایم پی احسان جعفری کو کھونے والی بزرگ  خاتون  ذکیہ جعفری کا ایس آئی ٹی کی طرف سے مودی اور دیگر ۶۳؍ افراد کو دی جانے والی کلین چٹ کے خلاف عریضہ پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوئے نہ انصاف ہوتا نظر آیا۔ بلڈوزر کیس میں امید تھی کہ عدالت جہانگیر پوری کی طرح انہدامی کارروائی پر فوری روک  لگانے کا حکم جاری کرے گی  ایسا کرنے کے بجائے عدالت کا یہ دریافت کرنا کہ کارروائی قانون کے مطابق ہوئی یا نہیں اور پھر یہ ہدایت کہ انہدامی کارروائی قانون کے مطابق ہونی چاہئے، ایسا ہی ہے جیسے چور سے کہے چوری کر اور شاہ سے کہے تیرا گھر لٹا۔ ذکیہ جعفری کیس میں دیا گیا فیصلہ اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب نکلا۔ عدالت نے پٹیشن خارج کردی، مودی اور دیگر ملزمین کو ملنے والی چٹ کو بحال رکھا لیکن ان لوگوں کے خلاف کیس درج کرنے کا حکم دیا جو انسانیت اورانصاف دلانے کی خاطر مظلومین ومتاثرین کے ساتھ کھڑے تھے۔ ٹیسٹا سیتلواد اور سابق گجرات ڈی جی پی سری کمار کی گرفتاری کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔  ایسے ہی ایک اور ملزم ایک دوسرے فرض شناس افسر سنجیو بھٹ ہیں جو مودی کے انتقام کا شکارہوکر عمر قید کی سزا بھگت  رہے ہیں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK