Inquilab Logo

ٹیکس میں کمی سے معیشت مستحکم نہیں ہوگی

Updated: February 10, 2020, 3:42 PM IST | Bharat Jhunjhunwala

مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ سے معیشت کو مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔اس میں کئی باتیں ایسی ہیں جن پر اگر عمل کیا گیا تو معیشت مستحکم ہونے کے بجائے مزید کمزور ہوجائے گی اور عام شہریوں کی جیب پر بوجھ بڑھ جائے گا۔

ٹیکس میں کمی سے معیشت مستحکم نہیں ہوگی ۔ تصویر : آئی این این
ٹیکس میں کمی سے معیشت مستحکم نہیں ہوگی ۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ہفتے ہماری وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے ۲۱۔۲۰۲۰ء کا بجٹ پیش کیا جس میں انفرادی ٹیکس دہندہ کو راحت دی گئی ہے۔ خیال رہے کہ ٹیکس دہندگان کی اس راحت سے حکومت کو ۴۰؍ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ اسی طرح الٹریشن ٹیکس اور کمپنیوں کی جانب سے ادا کئے جانے والے ٹیکس میں رعایت دینے کی وجہ سے حکومت کو مزید ۲۵؍ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ 
 اسی دوران وزیر مالیات نے اس خسارے کو ۶۵؍ ہزار کروڑ روپے کا قرض لے کر بھرپائی کرنے کی تجویز پیش کی ہے جس کے نتیجے میں آئندہ مالی سال میں مالی خسارہ ۳ء۴؍ فیصد سے بڑھ کر ۳ء۸؍ فیصد ہوجائے گا۔
 وزیر مالیات کا خیال ہے کہ ٹیکس دہندگان کو ٹیکس میں رعایت دینے سے حکومت کے پاس زیادہ پیسہ آئے گا جسے وہ کھپت یا سرمایہ کاری میں استعمال کریں گی۔ حکومت کے اس اقدام سے کھپت میں اضافہ کے امکانات ہیں۔ لیکن اس اضافے کے مثبت اثرات بہت کم ہیں کیونکہ ٹیکس دہندگان معاشرے کے امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں اضافی رقم کا ایک حصہ سونے یا غیر ملکی سامان کی خریداری میں خرچ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر،انفرادی انکم ٹیکس میں ۱۰۰؍ روپے کی کمی کی گئی ہے۔ اب، اس میں سے ۵۰؍ روپے کھپت میں اضافہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ۲۵؍ روپے سونا یا غیر ملکی سامان خریدنے میں صرف ہوگا۔ باقی بچے ۲۵؍ روپے میں سے ۱۵؍ روپے کی ایسی مصنوعات خریدی جاسکتی ہیں جنہیں بڑی کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ اس طرح چھوٹی صنعتوں کی جانب سے بنائی گئی اشیاء کی مانگ صرف ۱۰؍ روپے کی ہے جبکہ عام آدمی پر ۱۰۰؍ روپے کا دباؤ بڑھ جائے گا۔ اس پورے عمل میں اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ صارفین چھوٹے اور متوسط درجے کے کاروباری افراد سے کچھ خریدیں گے۔ 
 حکومت کے اس اقدام سے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک کاروباری شخص کے ہاتھوں میں اگر زیادہ پیسہ ہوگا تو وہ اسی وقت سرمایہ کاری کرے گا جب معیشت میں عام خواتین کی جانب سے مانگ ہوگی۔لیکن مرکزی بجٹ میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے عام خواتین کی مانگ میں اضافہ ہو۔ مثال کے طور پر بزنس کرنے والی ایک خاتون ایک نیا ریستوراں شروع کرنے کیلئے اسی وقت سرمایہ کاری کرے گی جب عام شہریوں میں ریستوراں اور ہوٹل جانے کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔ اگر شہریوں میں ریستوراں اور ہوٹلوں میں جا کر کھانا کھانے کی مانگ میں اضافہ ہوگا، اور اس کے پاس رقم نہیں ہوگی تو وہ خاتون اپنے رشتہ داروں یا ملک میں موجود مالی اداروں اور بینکوں سے قرض لے کر ایک نئے ریستوراں میں سرمایہ کرے گی پھر چاہے حکومت اسے ٹیکس میں رعایت دے یا نہ دے۔ 
 اگر بازار میں مانگ نہیں رہے گی تو اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ وہ سرمایہ کاری کرے گی۔ نتیجتاً، ٹیکس میں رعایت دینے سے مقامی کھپت میں اضافہ نہیں ہوگاکیونکہ جن افراد کے پاس رقم بچے گی وہ اسے سونا یا غیر ملکی سامان خریدنے میں صرف کریں گے۔ اسی طرح سرمایہ کاری میں بھی اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ مجموعی طور پر ایک عام خاتون کی جیب پر بوجھ پڑے گا۔ اس سے نہ صرف حکومت کو بلکہ ملک کے عام شہریوں کو بھی نقصان ہوگا۔ دونوں ہی کی آمدنی مزید کم ہوجائے گی۔
 اس بجٹ سے معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ حکومت نے پہلے ہی قرض لے رکھا ہے۔ رواںمالی سال میں اس کی آمدنی میں ۱۴۵؍ ہزار کروڑ روپے کی کمی آئی ہے ۔ بالفاظ دیگر اسے ۱۴۵؍ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے جس کی ایک وجہ گزشتہ سال ستمبر میں کارپوریٹ انکم ٹیکس میں کمی کیا جانا ہے۔
 امسال کے بجٹ میں انفرادی ٹیکس اور کمپنیوں کو مینیمم الٹرنیٹ ٹیکس میں رعایت دینے کی وجہ سے حکومت کو مزید ۶۵؍ ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ اگر تمام نقصانات کو جمع کیا جائے تو یہ ۲۱۰؍ ہزار کروڑ روپے ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نقصان کی بھرپائی وہ قرض لے کر کرے گی۔ اس دوران وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے قیاس لگایا کہ اس سے مالیاتی خسارہ موجودہ مالی سال (جو مارچ ۲۰۲۰ء میں ختم ہوگا) کے ۳ء۵؍ فیصد سے بڑھ کر اگلے مالی سال میں (جو مارچ ۲۰۲۱ء میں ختم ہوگا) ۳ء۸؍ فیصد ہو جائے گا۔ لیکن حکومت کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مستقبل میں وہ جتنا قرض لے گی شرح سود میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
 یہ واضح ہے کہ سود کی رقم کو براہ راست ٹیکسوں کی وصولیابی سے ادا نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔اس لئے یہ ضروری رقم بالواسطہ ٹیکسز کے ذریعے جمع کی جائے گی جیسے جی ایس ٹی اور امپورٹ ٹیکسز کی مدد سے۔ ان ٹیکسز سے عام خاتون پر بوجھ پڑے گا جس سے اس کی قوت خرید کم ہوگی، بازار میں مانگ کم ہوگی اور معیشت سست روی کا شکار ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ بجٹ سے معیشت مستحکم نہیں ہوگی۔
 حکومت قرض کی رقم کی بھرپائی نجکاری کے ذریعے بھی کرسکتی ہے۔ لیکن یہ بھی ماضی میں عام خاتون سے وصول کئے جانے والے ٹیکس کے ذریعہ کی جانے والی سرمایہ کاری کا صرف ایک رخ ہے۔ ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے بجٹ میں متوسط اور نچلے طبقے کو نہیں بلکہ امیروں کو راحت دی ہے اور غریبوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ بجٹ سے ماضی میں غریبوں ہی کو نقصان ہوا ہے، اب بھی یہی حال ہے اور مستقبل میں بھی انہیں ہی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس سے بازار میں مانگ بھی کم ہوگی اور سرمایہ کاری میں بھی کمی آئے گی۔ 
 وزیر مالیات کی بنیادی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ بازار میںسرمایہ کاری بڑھائے بغیر مانگ میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ وزیر مالیات کو معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اور معاشی اصلاحات نافذ کرنی ہوں گی۔ موجود بجٹ میں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے البتہ ٹیکس نظام کو مزید پیچیدہ کردیا گیا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK