Inquilab Logo

اُستادِ ہمہ وقت: شمس الرحمٰن فاروقی

Updated: January 03, 2021, 1:22 PM IST | Pro Atiqullah

’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ ار کئی دیگر معرکۃ آلارا کتابوں کے مصنف، ممتاز نقاد، شاعر اور مدیر ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی کی رحلت کے غم سے اُردو دُنیا اب تک سنبھل نہیں سکی ہے۔ تعزیتی پیغامات اور نشستوں کا سلسلہ تو جاری ہے ہی، اُن کی شخصیت اور فن پر مضامین بھی لکھے جارہے ہیں۔ یہ مضمون بطور خاص انقلاب کیلئے لکھا گیا ہے

Shams Ur Rehman Farooqui - Pic : INN
شمس الرحمن فاروقی ۔ تصویر : آئی این این

شمس الرحمٰن فاروقی ابھی ابھی دہلی میں وارد ہوئے تھے۔ پتہ چلا دوسرے عارضے تو اپنی جگہ ہیں، منحوس خبر یہ ہے کہ کووڈ کی زد میں آگئے ہیں اور بالآخر ۲۵؍ دسمبر کو انہیں اپنے ساتھ راہِ عدم کی طرف لے کر چلنے پر مجبور کردیا اور وہ روشنیوں سے چور اس دھند میں غرق ہوگئے جو خود عرصۂ دراز تک ’روشنیوں کا سرچشمہ‘ تھے۔ حال، آن کی آن میں ماضی بن گیا لیکن فاروقی سے وابستہ تاریخ کے ہر ورق میں وہ ایک نقش جاوداں کی مانند منور ہیں۔ کوئی اندھیرا اس نور کی تب و تاب کو کجلا نہیں سکتا۔
 ایک خودساختہ مشن کے تحت تنقید کے ذریعے ذہن سازی کو انہوں نے اپنا مقصود بنایا اور اردو ادب کے قاری کو ادب فہمی کے ہزار طریقے بتاتے رہے۔ انہوں نے ہر سطح پر ایک استاد کا کردار ادا کیا۔ جو تنبیہ کرتا ہے، ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور وقتاً فوقتاً چمکارتا بھی ہے۔ فاروقی آخری لمحے تک اپنے مشن پر قائم رہے۔ ہمیشہ اوور لوڈیڈ رہے۔ جب عارضۂ قلب نے آدبوچا تب بھی اپنے مشن سے تساہل نہیں برتا۔ ان کی زندگی میں ماندگی کا وقفہ کبھی نہیں آیا۔ انہوں نے اپنے سرتاپا وجود کو ادب کیلئے نہ صرف وقف کردیا تھا بلکہ یہ ثابت کردکھایا کہ ایک زندگی میں کئی زندگیوں کے برابر کتنا سیکھا اور سکھایا جاسکتا ہے۔ فاروقی کسی ایک دورکے معلم نہیں تھے بلکہ میں انہیں ’استاد ہمہ وقت‘ کہا کرتا تھا اور یہی لقب ان کے شایانِ شان بھی ہے۔ 
فاروقی مرحوم سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۶ء میں ہوئی تھی۔ میں نے اورنگ آباد کی ملازمت سے مستعفی ہوکر سب سے پہلے الہ آباد کا رخ کیا تھا۔ امین آباد چوک کی ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ صبح فاروقی صاحب کو فون کیا، وہ تاڑ گئے کہ میں الہ آباد ہی کے کسی علاقہ سے بات کررہا ہوں۔ پہلے وجہ دریافت کی، میں  نے صاف لفظوں میں انہیں الہ آباد آنے کی غرض و غایت بتائی۔ مجھے انہوں نے پتہ اور وقت بتایا۔ میں موعودہ وقت پر ان کے بنگلے پر پہنچ گیا۔ بے حد تپاک سے ملے۔ جمیلہ صاحبہ سے ملایا۔ تواضع کی۔ میں نے فاروقی صاحب کو بتایاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں عنقریب انٹرویو ہونے والا ہے اور آپ کی مدد درکار ہے۔ انہوں نے پہلے تو شعبوں کی سیاست کو کوسا، یہ بھی کہا کہ میں نارنگ سے ضرور کہوں گا۔ اس طرح تسلی دی۔ ادھر ادھر کی کچھ باتیں کیں۔ کچھ سمجھ میں آئیں اور کچھ نہیں کیونکہ بہت تیز اور بڑبڑا کر بولنے کا ان کا انداز تھا جیسے ان کی مونچھوں سے چھن کر الفاظ نکل رہے ہوں۔ سر کے بال گھنے اور بڑھے ہوئے تھے۔ چہرہ تھوڑا سا گول  تھا۔ چہرے میں پختگی اور بلوغت کے بجائے بچوں کی سی معصومیت جھانک رہی تھی۔ وہ سگار کا کش لیتے ہوئے شاعر اور نقاد کم کسی ناول کا جاسوسی کردار زیادہ نظر آرہے تھے۔ یوں بھی ابن صفی کی وجہ سے الہ آباد جاسوسی ادب کا مرکز بن گیا تھا اور فاروقی صاحب انگریزی جاسوسی ناولو ںکے باقاعدہ قاری بھی تھے۔   فاروقی کے اخلاص اور صاف گوئی نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ میرا انتخاب تو نہیں ہوا لیکن فاروقی صاحب کی حوصلہ افزائی  کا یہ اثر ہوا کہ میںدہلی میں ڈٹا رہا اور کسی نہ کسی طورچھ ماہ کے بعد ہی مجھے یو جی سی کا پروجیکٹ مل گیا۔ 
غالب انسٹی ٹیوٹ نے ساٹھ سال سے زیادہ ادبی خدمات کے اعتراف میں فاروقی مرحوم (قلم یہ لکھتے ہوئے تھرتھرا رہا ہے) کے اعزازمیں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ جن چار حضرات کو ان کی موجودگی میں اظہارِ خیال کے لئے یاد کیا گیا تھا ان میں ایک یہ ہیچ مدان بھی تھا۔  فاروقی صاحب مزاجاً اپنی تعریف پر کم ہی خوش ہوتے تھے۔ وہ کہتے رہے، ارے یار بس، بہت ہوگیا۔ حالانکہ میری نظر میں ’’بہت تو کیا بہت کم‘‘ ہی تعریف ہوئی۔ وہ شرماتے رہے، پہلو بدلتے رہے۔ کچھ اکتائے اکتائے سے لگے۔ اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہم لوگوں کو کافی دیر تک ان کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق بھی ہوا۔ قدوائی صاحب، رضا حیدر اور دو چار حضرات بھی موجود تھے۔ فاروقی صاحب کو کسی خاتون نے کسی مسودے کی یاد دلائی تو انہوں نے بتایا کہ بینائی بہت کمزور ہوگئی ہے۔ بلوری شیشے سے کچھ پڑھ لیتا ہوں یا کسی دوسرے سے مدد لینی پڑتی ہے۔ میں نے انہیں دوسروں کی طرح کبھی اپنے کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ عارضۂ قلب کے باوجود ہروقت لکھنے اور منصوبہ بنانے میں لگے رہتے تھے۔ آخر گوشت پوست کا جسم کتنا برداشت کرتا، آنکھیں کب تک وفا کا دم بھرتیں۔ کمزور ہوتی چلی گئیں لیکن قلم تھکنے کا نام نہیں لے رہا تھا، نہ یادداشت دھوکا دینے کے لئے تیار تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں تعریف کا ایک دوسرا انداز رکھا۔میں کچھ دیر کے لئے ان کا ناصح مشفق بن گیا تھا، وہ سن رہے تھے اور لطف لے رہے تھے۔ سامعین بھی فاروقی صاحب کو دیکھ دیکھ کر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ میں نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی تعریف میں دو چار جملے ادا کرنے کے بعد فاروقی صاحب کی طرف توجہ کی اور کہا کہ فاروقی نے اتنا کچھ لکھا ہے اور لکھتے چلے جارہے ہیں پھر بھی ان کے اندر ابھی اتنا محفوظ ہے کہ اس کا کوئی اختتام نظر نہیںا ٓتا۔ ارے بھائی کب تک اپنے جسم و جان کو تکلیف دیتے رہیں گے۔ فاروقی کو ہوس کا عارضہ ہوگیا ہے۔ وہ دوسروں کے لئے کچھ چھوڑنا ہی نہیں چاہتے۔ بس Space ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ اس کی ’بھرائی‘ وہ خود کریں۔ فاروقی صاحب خدارا اپنے آپ پر رحم فرمائیں۔ آپ سے یہ کس نے کہا تھا کہ داستان کے فن پر کتاب لکھنی ہے تو ۴۶؍ہزار صفحات بھی پڑھیں، ہمارے ان ماہرین داستان کو معاف کردیجئے جو ادھر ادھر کی ورق گردانی کرنے کے بعد مضامین پر مضامین کا دھونس جماتے رہتے ہیں۔ آپ سے یہ کس نے کہا کہ میر ؔکو ازسرنو قائم کرنے کے لئے پانچ اتنی موٹی موٹی جلدوں میں میر جیسے سلیس و سادہ گو شاعر کی تفہیم و تعبیر میںعلم کے دریا بہائیں۔ ان جلدوں کے دیباچوں کو شائع کرنا ہی کافی تھا جن میں آپ نے میر کو ایک نئے میر کے طور پر قائم کرنے کی جان توڑ کوشش کی ہے اور تو اور افسانوں کے بعد ناول لکھنے کا ڈول ڈالا تو اسے دستاویز بنانے کی کوشش کی۔ مہینوں برسوں، تاریخ، جغرافیہ، تہذیب وغیرہ وغیرہ پر لکھی ہوئی انیسویں صدی کی کتابوں کو کھنگالتے رہے۔ارے بھائی کچھ تو دم لیتے اتناہوم ورک کرنا اور پھر ۹۰۰؍ صفحات تک اسے پھیلا دینا، اتنا ہی نہیں موصوف کو کسی دوسرے کے ترجمے کب پسند آتے خود ہی انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ گویا فاروقی کی ہوس پوری ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں ان کی موجودگی میں مزے لے لے کر یہ باتیں کیں۔ فاروقی صاحب اور سامعین بھی بے حد محظوظ ہوئے۔
 میں نے غلط نہیںکہا تھا۔ دراصل فاروقی کوئی گوشہ کوئی کسر چھوڑنے کے حق میں نہیںتھے۔ ان کے ادبی سفر میں ماندگی کے وقفے کا کوئی گزر نہیں تھا۔ ناول کے مقابلے میں افسانے کو قطعہ کے برابر کھڑا کردیا۔ پھر خود افسانے لکھے اور خوب داد لی۔ لیکن انہیں تو ثابت کرنا تھا سو ناول بھی لکھ ڈالے۔ کسی نے بتایا کہ تیسرا بھی ان کے ذہنِ خلّاق میں گُڑگُڑ کررہا ہے۔ 
فاروقی مرحوم نے حلقہ سازی نہیں کی۔ ’شب خون‘ نکالا تو خودبخود حلقہ بنتا چلا گیا۔ ترقی پسند تحریک میں تھکن کے آثار پیدا ہوچلے تھے، ادبی دنیا (لاہور)، سوغات (بنگلور) اور ساقی کی جھلکیوں اور پھر ان کے بعد اوراق لاہور نے ایک محاذ تو کھول رکھا تھا، لیکن فاروقی کا کلاسیکی ادب کا مطالعہ وسیع تھا، عروض و قواعد کے علم سے بہرہ ور تھے۔ آئی  اے  رچرڈز، ایلیٹ، لیوس اور بادلیئر اور میلارمے جیسے آواں گارد کے مطالعے نے ان کے سامنے ایک نیا اور حیرت خیز جہان معنی روشن کردیا تھا۔ ’شب خون‘ کیا نکلا بہتوںکے لئے آفت کا پرکالہ ثابت ہوا۔ فاروقی نے تنقید کا ایک نیا دفتر کھول دیا تھا۔ ترقی پسند تنقید اور کلیم الدین احمد نے تنقید کو تشریح کے عمل کی گردش سے نکال کر محاکمے اور قدرشناسی کی طرف اس کا رخ پہلے ہی موڑ دیا تھا۔ کلیم الدین احمد بھی لیوس کے شاگرد تھے۔ معروضیت اور تجزیے پر زیادہ زور دینے اور محض اقرار کے بجائے انکار کی روش کو متعارف کرانے کے باوصف ان کا کینوس زیادہ وسیع نہ تھا۔ عسکری اور فاروقی نے بھی اپنے قلم کو ’انکار‘کا درس دیا تھا۔ فاروقی کے پاس نئے دلائل کا انبارتھا۔ ’کلاسیکی ادب کی ازسر نو تفہیم کی، کئی شعرا کو نئے استدلال کے ساتھ قائم کیا اور بعض کے بھرم توڑے۔ تقابل کا درس اور روایت کی فہم کا درس انہوں نے ایلیٹ سے لیا تھا۔ فاروقی نے شعراء کی درجہ بندی اور مختلف اصناف کی اہمیت اور معنی خیزی اور محل کو بھی بحث کا موضوع بنایا۔ تفہیمات میں جدید سے جدید تر یا ساختیات و پس ساختیات کے آلاتِ نقد و دلائل کا بھی ضروری مقامات پر استعمال کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ فاروقی کی تنقید میں تفہیم کا پہلو  زیادہ حاوی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK