Inquilab Logo

درس گاہوں میں دستور ِ ہند کی تدریس

Updated: November 28, 2021, 7:35 AM IST | Mumbai

ہمارے ملک میں مرکزی حکومت چاہے کسی پارٹی کی ہو، دستور کی دُہائی دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہتی۔ سیاسی لیڈران بھی ’سنویدھان‘ کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں

The government, no matter which party it belongs to, never lags behind in calling for a constitution.
حکومت چاہے کسی پارٹی کی ہو، دستور کی دُہائی دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہتی۔

 ہمارے ملک میں مرکزی حکومت چاہے کسی پارٹی کی ہو، دستور کی دُہائی دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہتی۔ سیاسی لیڈران بھی ’سنویدھان‘ کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں اس کے باوجود یہ سفارش کوئی نہیں کرتا کہ اسکولوں میں ایک مضمون کی حیثیت سے دستور ہند کی تدریس کا لازمی نظم کیا جائے۔ ملک کے ہر شہری کا دستور کے مضمرات سے واقف ہونا ضروری ہے کیونکہ ملک کا نظام دستور ہی کے تحت چلتا ہے۔ اس کی مناسب اور صحیح تشریح ہی ملک کے بہترین مفاد میں ہوگی۔ عوام کا بھلا بھی اسی سے ہوگا مگر اسکول اور کالج کے نصاب میں جس طرح دستور کو شامل ہونا چاہئے، ویسا آج تک نہیں کیا گیا۔ طلبہ کا یہ جاننا ضروری ہے کہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کون سے ہیں، ان حقوق پر جب قانون ساز کونسل میں مباحثہ ہوا تھا تب کون کون سی باتیں زیر بحث آئی تھیں اور ان مباحث کو کس طرح اتفاق رائے سے حتمی شکل دی گئی۔ اسکولوں میں شہریت کا ایک مضمون ہر دور کے طلبہ پڑھتے آئے ہیں مگر اس مضمون میں دستور ہند کی دفعات اور الگ الگ شقوں کی معلومات نہیں دی جاتیں۔ اکثر طلبہ شہریت کے مضمون ہی کو اُکتانے والا سمجھتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ نصاب کے مرتبین نے اسے دلچسپ بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ 
 دستور ہند کے بارے میں بہت سی معلومات خاصی دلچسپ ہیں، مثال کے طور پر آئین میں الفاظ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ ۴۶؍ ہزار ۳۸۵؍ ہے۔ اسے دُنیا کے کامیاب اور بہترین دستوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دُنیا کا سب سے ضخیم یا طویل دستور ہے۔ دیگر ملکوں کے مقابلے میں اس کی ضخامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دُنیا کی قدیم ترین جمہوریت (امریکہ) کے دستور سے ہندوستان کا دستور ۷؍ گنا زیادہ طویل ہے کیونکہ اس میں زیادہ تفصیل ہے، زیادہ  لچک ہے، ضرورت پڑنے پر اس میں ترامیم کی بھی گنجائش ہے۔
 ترامیم کے باب میں بھی ہندوستان سے امریکہ کا کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا۔ امریکہ میں اب تک کی آخری دستوری ترمیم ۱۹۹۲ء میں کی گئی جو ۲۷؍ ویں ترمیم تھی جبکہ ہندوستانی دستور میں اب تک کی آخری ترمیم ۲۰۱۹ء میں کی گئی جو اب تک کی ۱۰۳؍ ویں ترمیم تھی۔ جہاں تک درس گاہوں میں ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے دستور ہند کی تدریس کا سوال ہے، ہم نہیں سمجھ پاتے کہ اس کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی جبکہ اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ بہتر شہری پیدا ہوں گے تو ملک کے ہمہ جہتی اُمور میں اُن کی شرکت ممکن ہوسکے گی اور مسائل کا بہتر حل دستور ہند کی روشنی میں نکالا جاسکے گا۔ تب دستوری ماہرین کی تعداد بھی بڑھے گی جو ہر دور میں کم رہی ہے۔ 
 موجودہ حکومت نے ۲۶؍ نومبر کو یوم آئین یا یوم دستور منانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے او رجس کے تحت گزشتہ دنوں یوم آئین منایا گیا، وہ ایک اچھا قدم ہے جس سے کم از کم دستور کے تابع ہونے کا احساس تو بیدار ہوسکتا ہے مگر اس کی وجہ سے اتنی دلچسپی عوام میں پیدا نہیں ہوسکتی کہ وہ آئین کو پڑھنا چاہیں، سمجھنا چاہیں اور اس پر غور کرنا چاہیں۔ اس سے آئین کے تئیں کسی طرح کی رغبت پیدا نہیں ہوسکتی۔ بڑی عمر کے لوگوں کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا۔ اسی لئے اسکولوں او رکالجوں میں اس کی تدریس کے نظم سے ’’دستور فہمی‘‘ کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔جب تک دستور سے لاعلمی جاری رہے گی تب تک اس کی روح کو سمجھا نہیں جائیگا اور جب تک یہ صورتحال رہے گی، ملکی اُمور میں دستور کی بالادستی مستحکم نہیں ہوگی ۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK