Inquilab Logo

اسلئے ہمارےیہاں ادھیڑ عمری ہی میں لوگ اچھے خاصے بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں

Updated: May 31, 2020, 4:15 AM IST | Prof Syed Iqbal

اس پر ہماری ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ کروڑ ہا روپے ان پروجیکٹ پر خرچ کئے جارہے ہیں جن کی ایک غریب ملک کو ضرورت ہی نہیں۔ ہمیں نہ بلٹ ٹرین چاہئے، نہ شاندار مجسمے ، نہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت نہ وزیراعظم کیلئے نئی رہائش گاہ ، نہ خلائی سفر کیلئے اربوں کا بجٹ ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک کے لاکھوں بچوں کیلئے اسکولیں قائم ہوں، اسپتالوں کا نظام درست ہو، کسانوں کو ان کی فصل کے اچھے دام ملیں، مزدروں کو آسودہ زندگی ملے اور ایک عام آدمی کو دو روٹی کیلئے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے

Old People - Pic : INN
بوڑھے لوگ ۔ تصویر : آئی این این

چاہے مملکت برطانیہ میں سورج غروب نہ ہوتا رہا ہو مگر برطانوی عہد فرسودہ روایات اورجاہلانہ رسومات کا دور تھا۔ برطانوی تاجروں نے ساری دنیا سے بے شمار دولت لوٹ کر اپنے ملک میں سمیٹ لی تھیں اور غلام ریاستوں کی معیشت تباہ کرکے اپنی صنعتوں کو فروغ دیاتھا، اسلئے برطانیہ ایک مادہ پرست اورنمائش پسند معاشرہ بن چکا تھا۔شاہزادوں اور نودولتئے امراء کی دعوتیں لوگوںکے مراتب طے کرتی تھیں۔ شہروں میںمردوں کو جوان رہنے کا خبط ہوگیا تھا اور عورتیں خود کو حسین بنائے رکھنے کے جنون میں مبتلا تھیں۔ اس دورمیں ایک چالیس سالہ ادھیڑ عمر کی خاتون کے ہاں اولاد ہونے کی خبرآئی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ کیا اس عمر میں وہ ماں بنے گی؟ لوگ کیا کہیں گے؟ کیا اس کے صبح وشام اب ایک بچے کو بڑا کرنے میں بسر ہوں گے؟  اس سے خاتون نے بھی سوچ لیا کہ وہ اس اولاد کو دنیا میں آنے ہی نہیں دے گی۔ چونکہ ۱۹۱۲ء کے برطانیہ میں اسقاط حمل آپریشن ’ایجاد‘ نہیں ہوا تھا،اسلئے لوگ نیم حکیموں کی دواؤں سے بچے ضائع کردیا کرتے تھے،ایسے میں اس خاتون نے بھی Castrol Oil کی پوری بوتل پی لی اور مطمئن ہوگئی کہ اب کچھ نہیں ہوگا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ اس کے ہاں ایک عدد گڑیا ایسی بیٹی تولد ہوئی۔ اس بچی کو Marileeکا نام دیا گیا۔ بچی صحت مندنکلی۔ دن بھر یہاں وہاں گھومتی پھرتی اور گھر والوں کیلئے کھلونا بن گئی۔ بالآخر والدین نے بھی اسے دل سے قبول کرلیا اور وہ ایک متمول گھرانے میں شان سے پلنے لگی۔
  جس لڑکی کو اس کی ماں نے پیدا ہونے سے روکنے کی کوشش کی تھی، آج وہی ایک سوسات سال کی ہوچکی ہیں۔ پرانے دنوں کی طرح آج بھی وہ گھومتی پھرتی ہیں۔ انہیں پڑھنے لکھنے سے زیادہ آرٹ اور مصوری میں دلچسپی تھی، اس لئے ابتدائی تعلیم مکمل کرکے آرٹ اکیڈمی میں داخلہ لے لیا اور مصوری میں مہار ت حاصل کی۔ ان کی تصاویر کی اولین نمائش شکا گو میں ۱۹۳۸ء میں ہوئی اور اس کے بعد سے آرٹ کی دنیا میں ان کا نام گونجنے لگا۔ آگے چل کر مختلف یونیورسٹیوں نےانہیں اپنے اسٹاف میں شامل کیا، آرٹ تھیراپسٹ کی حیثیت سے انہیں مختلف اداروں کی رکنیت دی گئی اور انہوںنے بھی ہزاروں شاگردوں کو میں اپنی صلاحیتیں اور ہنر مندی فراخ دلی سے تقسیم کی۔ محترمہ دنیا کی دوعظیم وبائیں دیکھی ہیں۔ پہلا ۱۹۱۸ء کا اسپینی فلوجب وہ چھ سال کی تھیں اور اب ۲۰۲۰ء کا کورونا وائرس جب انہوںنے ۱۰۷؍ سال مکمل کرلئے ہیں اور دونوں وباؤں سے بچ کر آج بھی زندہ ہیں۔
  محترمہ بیک وقت مصور، ادیب ، فوٹو گرافر اور تھیراپسٹ ہیں اور سارے کام اتنے ہی اشتیاق سے کرتی ہیں جیسے یہ ان کی پہلی تخلیق ہو۔ اسی جنون نے انہیں اپنی طویل عمرتک چاق وچوبند رکھا ہے۔ وہ آج بھی سنجیدگی سے اخبار پڑھتی ہیں اور دنیا بھر کے معاملات سے باخبر رہتی ہیں۔ اکثر کہتی ہیں کہ دو کا عدد کا میری زندگی میں اہم رول ادا کرتا ہے۔  دوشوہروں کو جھیلا ہے، دوبچے پیدا کئے ہیں اور دوآسمانی قہر دیکھتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ اس طویل عمری کی کوئی خاص  وجہ ؟’’ جی ہاں! میں اپنی صحت کے معاملے میں بڑی خودغرض ہوں۔ وہی کھاتی ہوں جو کھانا چاہئے۔ آرام کے اوقات کا خیال رکھتی ہوں اور پابندی سے یوگا اور Tai-Chai   کرتی ہوں۔ میں نے سستی اور کاہلی کو کبھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ جب بچے چھوٹے تھے اور سرپر گھریلو ذمہ داریاں تھیں، اس وقت بھی کام کرتی تھی ۔ آج مالی  فراغت ہے اور گھریلو ذمہ داریاں بھی نہیں ہیں، تب بھی میں اسی طرح کام کرتی ہوں۔ اگر ایک بار تھک کر بیٹھ گئی تو تخلیقی سوتے خشک ہوجائیں گے اوراعضاء بھی جواب دے دیں گے۔ بہتر ہے مصروف  رہوں اور وقت کو اپنے سامنے سے گزرتا دیکھتی رہوں۔‘‘
  ہمارے  ہاں کی داستانیں اس سے بے حد مختلف ہیں۔  ماضی میں لوگ ساٹھ پینسٹھ سال تک جی جاتے تو لوگ رشک کرتے لیکن میڈیکل ٹیکنالوجی کی ترقی نے آج عمر کا اوسط بڑھا دیا ہے۔ آزادی کے وقت ایک عام ہندوستانی کی اوسط عمر چالیس سال ہوا کرتی تھی اورآج یہ بڑھ کر ۶۹؍ سال ہوچکی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں غذا کی قلت ختم ہوگئی ہے۔ ایک کثیر آبادی اتنی مالی حیثیت رکھتی ہے کہ اپنی  غذامیں صحت مند اجزاء شامل کرسکے۔ گلی گلی میں کلینک ہیں اور اسپتالوں کی بھی کمی نہیں ۔ چیچک ، کالی کھانسی اور تپ دق پر بھی قابو پالیا گیا ہے۔ بچوں کی ڈیلیوری اب گھروں کے بجائے اسپتالوں میں ہونے لگی ہے،  پینے کو صاف پانی میسر ہے اور بڑی حد تک صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھا جانے لگا ہے۔ اس کے باوجود ہم آج بھی اپنی شہریوں کو وہ سہولتیں نہیں دے پائے، جو اُن کا حق ہے جبکہ ترق یافتہ ممالک اپنے شریوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔  مفت  علاج کی سہولتیں فراہم کرتے ہیںاور معمر افرا کو پنشن دیتے ہیں۔ ہالینڈ میں حکومت کی جانب سے دوہفتوں کی تعطیل کیلئے فوڈ کوپن دیئے جاتے ہیں۔ مفت عینک اور فیزیوتھراپی کے فری سیشن بھی حکومت کی طرف سے عطیہ ہوتے ہیں۔
  آج ساری دنیا  میں تقریباً  پانچ لاکھ افراد سوسال مکمل کرچکے ہیں یا عنقریب مکمل کرلیں گے ۔ یہی رفتار رہی تو ۲۰۵۰ء تک تقریباً۳۰؍ لاکھ افراد اپنی عمروں کی ایک صدی پارکرلیں گے۔ یورپ میں۷۵؍ اور۸۰؍ سال کے لوگوں کو جاگنگ کرتے ہوئے، سائیکل چلاتے ہوئے یا سوئمنگ کرتے ہوئے دیکھیں تو ہمیں تعجب ہوتا ہے مگر وہ اس قدر خوش پاش اور صحت مند ہوتے  ہیں کہ لگتا ہے ارضی جنت میں رہتے ہوں۔ ان میں اورہم میںیہی ایک بنیادی فرق ہے۔ ہم نے اپنے ارضی جنت کو جہنم بنالیا ہے اور وہ اپنی جنت کو مزید بہتر بنانے میں لگے ہیں۔ 
 اس کے برخلاف سیاسی انتشار کی چکی میں پستے پستے ہمارا عام آدمی اتنا بے سکون ہوچکا ہے کہ متوازن غذا ، ورزش اور آرام کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ حکومت اپنے  ایجنڈے پر عمل کرنے میں مصروف ہے۔ عام آدمی سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ معاشرے کی فرقہ پرستی ، کرپشن اور بدانتظامی ہمیں تیزی سے بڑھاپے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ عام آدمی سکون سے رہنا چاہے تب بھی نہیں رہ سکتا۔ اس کے بچے تعذیہ کا شکار ہیں، غیرمعیاری اسکول ان کا مقدر ہے ، کالج اور یونیورسٹیاں بند پڑی ہیں، بیروزگاری  بڑھتی جارہی ہے اور ایک غیر یقینی مستقبل ان کی راہ دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں وہ طویل عمری کے بارے میں کیا سوچے؟ ویسے بھی طویل عمر تک جینے کیلئے ایک صاف ستھرا ماحول ، سیاسی استحکام اورمالی فراغت درکار ہے۔ معیاری اسپتالوں کا فقدان  ہو، خانگی سکون میسر نہ ہوتو صحت یوں بھی متاثر ہوتی ہے۔ اسلئے ہمارے ہاں ادھیڑ عمر کے  لوگ بھی اچھے خاصے بوڑھے نظر آتے ہیں۔ اس پر ہماری ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ کروڑ ہا روپے ان پروجیکٹ  پر خرچ کئے جارہے ہیں جن کی ایک غریب ملک کو ضرورت ہی نہیں۔ ہمیں نہ بلٹ ٹرین چاہئے، نہ شاندار مجسمے ، نہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت نہ وزیراعظم کیلئے نئی رہائش گاہ ، نہ خلائی سفر کیلئے اربوں روپے کے اخراجات ، نہ پارلیمانی ارکان کی تگڑی تنخواہیں۔
  ہم تو چاہتے ہیں کہ ملک کے لاکھوں بچوں کیلئے  اسکولیں قائم ہوں، اسپتالوں کا نظام درست ہو، کسانوں کو ان کی فصل کے اچھے دام ملیں، مزدروں کو آسودہ زندگی ملے اور ایک عام آدمی کو دو روٹی کیلئے کسی کا محتاج  نہ ہونا پڑے لیکن عام ہندوستانی ہر لمحہ پریشان ہے۔ اسے ڈرہے کل کوئی شاطر  بینکوں میں اس کی جمع شدہ پونجی اڑالے جائے گا، کل کوئی نیا ٹیکس نافذکرکے حکومت اسے بے دست وپا کردے گی، کل کوئی اعلان  ہوگا اورسارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حکومت نے اس پر ایسی رسیاں کس دی ہیں کہ وہ اس حکومت کو بدل بھی نہیں سکتا۔ ہم اسے بدلیں تو بھی کیسے؟ مقننہ اس کی ہم نوا ،عاملہ اس کی غلام اور عدلیہ کوما میں۔ دوسری طرف  ترقی یافتہ ممالک میں شہریوں کی اوسط عمریں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ امریکہ میں ۷۲؍ ہزار سے زیادہ افراد سوسال مکمل کرچکے ، کینیڈا اور یورپ کے دیگر ممالک کے شہری۸۰؍ سال سے زیادہ کے ہوچکے  اور ہم تالیاں بجا بجاکر اور تھالیاں پیٹ پیٹ کر خوش ہورہے ہیں کہ ہم نے جنت خریدلی۔ کیا آپ نے کبھی  سوچا ہے کوئی امریکن یا یورپی شہری ہمارے ہاں آکر کیوں نہیں بسنا چاہتا؟ کیا محترمہ میریلی ہمارے ہاں ہوتیں تو ۱۰۷؍ سال تک جی پاتیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK