Inquilab Logo

نوجوان نسل کی بے حسی سماجی بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے

Updated: January 23, 2023, 3:24 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اس نئی نسل میں در آئی فکری آلودگی نے اسے اپنے مستقبل کے تئیں اس حد تک بے حس بنا دیا ہے کہ اس نے سڑک کے کنارے پکوڑا تلنے والی سیاسی تھیوری کو بھی بغیر چوں وچرا قبول کر لیا ہے... اور نہ صرف یہ کہ اس تھیوری کو قبول کر لیا ہے بلکہ اس کی وکالت میں اپنی ذہانت اور توانائیبھی صرف کرتی نظر آرہی ہے

The unemployment rate in the country is increasing rapidly but a large youth population does not care about it.
ملک میں بیروزگاری کی شرح کافی تیزی سےبڑھ رہی ہے لیکن نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی کو اس کی پروا نہیں ہے

کسیبھی ملک کی ترقی میں اس ملک کی نوجوان نسل کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس نسل سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ وقت اور حالات کے رواں دھارے سے گزرتے ہوئے ان سماجی اور معاشی حقائق کا معروضی تجزیہ کرے گی جن حقائق کی بنیاد پر ملک اور معاشرہ کی ترقی اور خوشحالی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ جب کوئی ملک ان دو سطحوں پر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تبھی اس ملک کی تہذیب و ثقافت کو یہ امتیاز حاصل ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کیلئے مثال بن سکے۔ ان امور میں اطمینان بخش کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ نوجوان نسل اپنے بہتر مستقل کیلئے سنجیدہ نہ ہو۔ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کا جذبہ اس نسل کو فہم و دانش کی سطح پر ہمہ وقت بہتر کارکردگی کی تحریک عطا کرتا ہے اور یہی تحریک زندگی کے مختلف شعبوں میں نہ صرف اس کی ناموری کی راہ ہموار کرتی ہے بلکہ اس ناموری سے ملک اور معاشرہ کا نام بھی روشن ہوتا ہے۔ 
 اگر نوجوان نسل اپنی فہم و دانش کا استعمال سماجی اور معاشی ترقی سے وابستہ امور کے بجائے ان غیر ضروری معاملات میں کرنے کی عادی ہو جائے جن کا سماج اور معیشت کی ترقی سے دور کا واسطہ نہ ہو تو ایسی صورت میں سماج اور ملک کی ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک چھلاوا ہے۔ اگر اس عہد کے ملکی سماج کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات بہ آسانی سمجھ میں آجائے گی کہ جس نسل پر ملک کے بہتر مستقبل کا دار و مدار ہے وہ اپنی فہم و فراست اور توانائی کا مثبت استعمال کرنے کے بجائے ان معاملات میں ملوث ہو گئی ہے جو پورے سماجی ڈھانچے کو کئی سطح پر متاثر کرتے ہیں ۔اپنے اور ملک و معاشرہ کی ترقی و خوشحالی سے اس نسل کی یہ عدم توجہی ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ اس نسل کی وہ بے حسی ہے جس نے اس نسل کو تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی معاملات سے بیگانہ بنا کر مذہبی اور علاقائی تعصب کے حصار میں مقید کر دیا ہے۔
 اس ملک کی نوجوان نسل کے حالات کا جائزہ لیتے وقت ان کی سمت و رفتار کے متعلق کوئی حتمی اندازہ یا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نسل کے حالات و معاملات بہ یک وقت دومتضاد تصویریں پیش کرتے ہیں۔ ایک تصویر وہ جس میںبہ ظاہر سب کچھ ٹھیک نظر آتا ہے اور دوسری تصویر وہ ہے جو اس ظاہری صورت کی نفی کرتی ہے اوراس تصویر کے رنگ اس قدر دھندلے ہیں کہ جن میں اس نسل کے بہتر اور روشن مستقبل کا کوئی نقش تلاش کرنا کار لاحاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس نسل کو اپنی تعلیم اور بہتر روزگار کے حصول پر اپنی فہم و فراست اور توانائی کا استعمال کرنا چاہئے اس نسل کا سارا زور اب بیشتر ان معاملات پر ہے جو مجموعی طور پر اس ملک کی اتحاد ویکجہتی کی روایت کیلئے مضر ہیں۔اس ضمن میں مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ نام نہادرہنماؤں نے اپنے مفادکیلئے اس نسل کو انہی معاملات میں الجھائے رکھنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ توقع کرنا کہ یہ نسل اپنی زندگی کے ان حقیقی معاملات و مسائل سے باخبر ہوگی جو معیار زندگی کو بہتر بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ، محض ایک خیال خام ہے۔
 یہاں مثال کے طورپر ان دو اہم شعبوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے جو نوجوانوں کی مستقبل سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ تعلیم اور روزگار کے ان اہم شعبوں کی موجودہ صورتحال اس قدر پیچیدہ اور غیر اطمینان بخش ہو گئی ہے جو نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی ضمانت تو کیا دے گی، الٹے ان کے مستقبل کی راہ اس حد تک دشوار گزار بنا رہی ہے کہ جس پر چل کر منزل مراد تک پہنچنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوتا جارہا ہے۔ادھر گزشتہ کچھ برسوں کے دوران سیاست اور میڈیا کے بعض عیار عناصر کے ذریعہ اس نسل کی ذہن سازی اس طور سے کی گئی ہے کہ عقلیت پسندی اور معروضی نقطہ نظر کے بجائے تعصب آمیز جذباتیت اس پر حاوی ہوگئی ہے۔ اس تعصب آمیز جذباتیت کا غلبہ اس نسل کو ایسی راہ پر لے جا رہا ہے جہاں ہر قدم پرمذہب، نسل ، قوم ، علاقائیت اور زبان سے وابستہ امتیازات اور تحفظات اس نسل کے افکار کو ایک مخصوص اور محدود دائرے میں مقید کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ نسل اب بیشتر اس وسیع النظری اور کشادہ قلبی سے تہی دامن ہوتی جارہی ہے جو معاشرہ اور ملک کی مجموعی ترقی کیلئے لازمی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
 اس وقت ملک کا تعلیمی منظرنامہ جن تبدیلیوں سے دوچار ہے وہ تبدیلیاںاس نسل کی بڑی تعداد کو تعلیم کے حصول سے محروم کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں سیاسی عناصرکی بڑھتی مداخلت نے اس نظام میں طلبہ کی ترقی اور بہبود کی مرکزیت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اب ایک خاص سیاسی رویے کی تشہیر اور سماج کی نام نہاد ترقی میں اس رویے کی فضیلت کو اس نظام میں بڑی حد تک مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ نظام تعلیم میں دانستہ طور پر پیدا کی گئی یہ تبدیلی بہ ظاہر بہت زیادہ نقصان دہ نہ نظر آتی ہو لیکن اس کے سبب تعلیمی عمل میں جو پیچیدگی در آئی ہے اس سے طلبہ کی تعلیمی لیاقت ایک خاص فکر کی حامل ہوتی جارہی ہے۔ ایک تکثیری سماج میں نوجوان نسل کے اذہان کا اس طور سے ایک خاص نہج پر گامز ن ہونا سماجی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ اس رخنہ اندازی کے مظاہر گزشتہ کچھ برسوں کے دوران رونما ہونے والے وہ معاملات رہے ہیں جو تاریخ و تہذیب کے غیر حقیقی بیانیہ کی تشہیر میں اس نسل کو ایک آلہ  ٔ کار کے طور پر استعمال کرنے سے عبارت ہیں۔
 تعلیمی اداروں میں اس محدود فکر کی تشہیر کا عمل نہ صرف طلبہ کے اذہان کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس سے ان کی ذات میں ایسی کجی پیدا ہو جاتی ہے جو حقائق حال کا معروضی تجزیہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔یہ صورتحال ان تعلیمی اداروں میں بیشتر دیکھی جا سکتی ہے جن کے قیام کا مقصد نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم دینا ہے ۔ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جو ان کی آئندہ زندگی کے افکار و اعمال کیلئے بنیاد فراہم کرتا ہے اور اگر اس بنیاد کی تعمیر میں تعصب ، نفرت اور اقتدار پرستی کو غالب عنصر کی حیثیت حاصل ہو جائے تو یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ یہ نسل کس سماجی رویے کی حامل ہوگی ۔اگر سماج کو حقیقی ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنا ہے تو اس طرز کی محدود و مخدوش فکرترقی اور خوشحالی کے حصول کی راہ کو مشکل ترین بناتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل میں یہ رویہ بہت تیزی سے سرایت کرتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نسل اب اپنی زندگی کے ہر معاملے اور مسئلے کا تجزیہ مذہب اور مخصو ص سیاسی عینک سے کرنے لگی ہے ۔ ایسی صورت میں وہ تمام باتیں اس کے نزدیک ناقابل تردید حقیقت کی حیثیت رکھتی ہیں جو اس مخصوص مذہب اور سیاسی فکر کی تائید کرتی ہوں ۔
 عہد حاضر کی نوجوان نسل میں در آئی اس فکری آلودگی نے اسے اپنے مستقبل کے تئیں اس حد تک بے حس بنا دیا ہے کہ اس نے سڑک کے کنارے پکوڑا تلنے والی تھیوری کو بھی بغیر چوں وچرا قبول کر لیا ہے ۔ اور نہ صرف یہ کہ اس لچر تھیوری کو قبول کر لیا ہے بلکہ اس کی وکالت میں اپنی ذہانت اور توانائی بھی بڑے زور وشور سے استعمال کرتی نظر آتی ہے۔ اس بے حسی نے ان عناصر کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کردیا ہے جو ایسے غیر منطقی اور جذباتی قسم کے معاملات میں نوجوان نسل کو الجھا کر اپنے مفاد کی راہ ہموار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔تعلیم اور روزگار کے معاملے میں جو پریشان کن حقائق آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں ان حقائق کے تئیں اقتدار کی جوابدہی پر کوئی بات کرنے کے بجائے یہ نسل مذہب اور سیاست پر لایعنی اور غیر منطقی مباحث میں زیادہ دلچسپی لینے لگی ہے اور یہ دلچسپی اس سماجی بحران کی طرف واضح اشارہ ہے جو ملک کی مجموعی ترقی اور خوشحالی کے مقصد کو متاثر کرتا ہے۔
 ملک کی نوجوان نسل کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت فضا میں سیاست اور مذہب پرستی کا جو غبار پھیل رہا ہے اس میں تادیر الجھنے رہنے سے وہ زندگی کی ان نعمتوں سے محروم رہ جائیں گے جونعمتیں زندگی کو خوشحال بنانے میں نمایاں رول ادا کرتی ہیں۔  مذہبی تعصب اور نام نہاد سیاسی فضیلت کی آمیزش سے تیار کردہ یہ غبار اگر چہ دائمی نہ ہو لیکن اس میں الجھنے کے بعد زندگی ان مسائل کی آماجگاہ بن جاتی ہے جو پوری نسل کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ جذباتی اور غیر حقیقی باتوں پر اپنی ذہانت اور توانائی صرف کرنے کے بجائے اپنے بہتر مستقبل کی فکر کو ترجیح دینے والی نسل ہی دراصل ملک اور معاشرہ کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نوجوان نسل کی بے حسی نے اس کے اندر سے اس شعور کو عنقا کر دیا ہے اور ایسی صورت میں خوشحالی اورترقی کی بات کرنا صرف ایک جملے کی حیثیت رکھتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK