Inquilab Logo

ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نوکرشاہی

Updated: January 24, 2021, 8:04 PM IST | Shivam Vij

ہندوستان میں نوکر شاہی کی بہترین مثال دہلی میں کورونا کی تباہی کے دوران دیکھنے کو ملی تھی۔ وہاں پر یہ ٹرانسپورٹ کے نظام کو آسان بنانے کے بجائے پیچیدہ کرنے کا کام کررہے تھے۔ دہلی سے متصل ایک ریاست اگر اپنی سرحدیں کھول رہی تھی تو دوسری ریاست اپنی سرحدیں سیل کررہی تھی۔ان کا آپس میں کوئی تال میل نظر نہیں آرہا تھا

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

حال ہی میں سامنے آئی اپنی کتاب میں بارک اوبامہ کا راہل گاندھی پر تبصرہ سرخیوں میں رہا .... لیکن ایک کلنک اور بھی ہے جو ہندوستان میں موضوع بحث ہونا چاہئے۔ ہماری نوکر شاہی کے بارے میں اوبامہ لکھتے ہیں کہ وہ ملک کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ نہایت سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اپنے حقیقی معاشی ترقی کے باوجود، ہندوستان ایک غیر منظم اور غریب جگہ ہے۔کافی حد تک مذہب اور ذات پات کے خانوں میں تقسیم ہے۔ بدعنوان مقامی افسران اوراقتدار کے دلالوں نے اسے یرغمال بنا رکھا ہےاور تنگ نظر نوکرشاہوں نے اسے اپاہج کررکھا ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کا راستہ مسدود ہوکر رہ گیا ہے۔‘‘
 وطن عزیز میں حکمرانی کے اس قدر پیمائی سے وہ دیگر لوگ بھی متفق ہیں  جنہیں ہمارے نظام میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک غیر ملکی سفارت کار نے حال ہی میں مجھے بتایا کہ ان کیلئے دہلی میں اپنی کار فروخت کرنا کتنا کام تھا۔ایک دوسرے غیر ملکی سفارت کار نے بتایا کہ کووڈ کی وجہ سے ایئرپورٹ پر کاغذی کارروائی پریشان کن تھی۔انہوں نے بتایا کہ ’’مجھے فارم بھرنے پڑے، صرف یہ بتانے کیلئے کہ میرا آر ٹی۔ پی سی آر ٹیٹ ہوا تھا جو کہ منفی تھا۔‘‘
 کوئی بھی ، نریندر مودی جیسا مضبوط لیڈر بھی، ہندوستانی بیورو کریسی کے طور طریقوں کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ان کے ’پرفیکٹ ایس او پیز‘ میں غیر ضروری قدم کم کرنا اور لوگوں کی زندگی کو آسان بنانا ہے ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نوکر شاہی کا وجودہی لوگوں کی زندگی کومشکل بنانے کیلئے ہے کیونکہ پہئے کا ہر جزو صرف اپنی  ہی حد تک ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔وسیع تر مفاد تک کسی کی نظر نہیں جاتی اور کوئی بھی اس کی جواب دہی کے بارے میں نہیں سوچتا۔
 اشیاء اور خدمات سےمتعلق ٹیکس یعنی جی ایس ٹی کے لانے کا مقصد  ہی بالواسطہ ٹیکسوں کو آسان اور سہل بنانا تھا۔ بہت سے ممالک میں اس نے یہی کیا ہے لیکن یہاں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم سوچ سکتے ہیں کہ جی ایس ٹی کے نتائج ہندوستان میں اسی طرح کیوں نہیں ملنے چاہئیں؟ اب داخل ہوتی ہے ہندوستان کی نوکر شاہی۔ جی ایس ٹی کے بارے میں خاص کر اس کے ابتدائی دنوں میں شکایت یہ تھی کہ یہ کچھ زیادہ ہی پیچیدہ تھا۔ صرف ہندوستانی نوکر شاہ ہی  ا ن طریقوں کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں جو لوگوں کی آسانی کیلئے آیا تھا۔
 کورونا کی وبا کے دوران ہندوستانی نوکر شاہی کا بہت خراب چہرہ سامنے آیا۔ اب کووڈ سے بچنے کیلئے ویکی نیشن کا کام بھی شروع ہوگیا ہے لیکن وزارت داخلہ کے حکم کے مطابق ملک بھر میں ابھی تک سوئمنگ پولس کو کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ کنبھ میں لاکھوں افراد کے ساتھ آپ گنگا میں غوطہ لگا سکتے ہیں لیکن کسی ’پول‘ میں نہیں تیر سکتے۔کسی نے وزارت داخلہ کو نہیں بتایا کہ کووڈ پانی سے پھیلنے والی بیماری نہیں ہے۔ جم کھلے ہیں۔بند جگہیں جہاں کھلے ہوئے پول کے مقابلے کووڈ پھیلنے کے خدشات زیادہ ہیں۔ پول پر پابندی کیلئے بھیڑ کا بہانا  بتایا جارہا ہے۔اگر ایسا ہے تو کیا شمالی ہند میں سردیوں میں ’پولس‘ کو کھولنے کی آزادی دی جاسکتی ہے؟اگر مسئلہ بھیڑ کا ہے تو کیا ہمارے نوکر شاہوں نے حال ہی میں کسی بازار میں جانے کے بارے میں سوچا ہے؟ سوئمنگ پولس پر پابندی نےپیشہ ور تیراکوں کے کریئر کو نقصان پہنچایا ہے۔ جب وزارت داخلہ نے صرف ایتھلیٹ سے وابستہ کھلاڑیوں کیلئے  ’پولس‘ کے استعمال کی اجازت دے دی،اس کے بعد بھی تمام ریاستوں نے اسے نہیں کھولا۔ قلم چلانے والے نوکر اس طرح کے فیصلے اپنے کیبن میں بیٹھ کر کرتے ہیںجن سے لاکھوں افراد کی زندگی، صحت اورروزگار متاثر ہوتے ہیں۔
 ’دی اکنامسٹ‘ میں ایک مضمون آیاتھا۔اس میں لکھا تھا کہ ’’ہندوستانی نوکر شاہ لال فیتہ شاہی کی مدد سے ایک خطرناک بیماری سے بر سرپیکار تھا۔ دہلی این سی آرمیں نقل و حمل کی حرکت اس کی ایک اچھی مثال تھی، جس میں ایک ریاست اپنی سرحدیں کھول رہی تھی تو دوسری ریاست اپنی سرحدیں سیل کررہی تھی۔ان کا آپس میں کوئی تال میل نظر نہیں آرہا تھا۔اس کے بعد یہ رات کے کرفیو رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مجبوراً ملنے جلنے کے کام  دن کے بھیڑ بھاڑ کے وقت میں کرنے پڑتے تھے، جس کے نتیجے میں وائرس کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔ بہت سے شہروں میں ٹریفک پولیس ایسے لوگوں کا بھی ماسک نہ پہننے پر چالان کاٹ رہی تھی جو تنہا بند گاڑی میں سفر کررہے تھے۔ بالآخر عدالتوں کومداخلت کرکے شہریوں کے جیب ڈھیلی کرنے کی اس بے تکی پریشانی سے نجات دلانی پڑی۔ایک ایپ بھی تھا،آروگیہ سیتو ، باہر کے ان تمام ایپس کی طرح جو اسے استعمال کرنے والوں کو الرٹ کرتا تھا لیکن اس کا بہت زیادہ شور کیاگیا۔ کہا گیا تھا کہ اس کااستعمال کرنے والا اگر  کسی ایسے شخص کے رابطے میں آگیاجو بعد میں کورونا سے متاثر پایا گیا تو یہ ایپ اسے آگاہ کردے گا لیکن کسی کو بھی یہ الرٹ نہیں ملا۔ آروگیہ سیتو اتنا بے کار تھا کہ کچھ ہفتوں کے بعدایئرپورٹ سیکوریٹی نے بھی اس کیلئے پوچھنا بند کردیا۔ دوسری طرف سرکار دعویٰ کرتی ہے کہ اس ایپ سے اسے کووڈ کے کلسٹرس کا پتہ لگانے میں مددملی۔ایسے میںہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اس پر یقین کرلیں۔ ایئرلائنس کو ابھی بھی لوگوں سے ایک فارم بھروانا پڑتا ہے۔اس سے زیادہ احمقانہ بھرا فارم اور کچھ ہوہی نہیں سکتا۔ اگر کوئی مسافر بخار ہونے کے بعد ایک پیرا سیٹا مال لے کرپرواز کررہا ہے توکیا آپ امید کریںگے کہ وہ سرکاری ’حلف نامے‘ میں اس بات کااقرار کرے گا کہ اسے بخار ہے؟فارم بھرنے کےاس پاگل پن کا کوئی جواز نہیں ہے۔
 جب لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تو پولیس گھروں کے اندر رہنے کیلئے لوگوں کو پیٹ رہی تھی جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو ایک مکمل بند میںاپنی روزی روٹی کیلئے در در بھٹک رہے تھے۔ ہم حکمراں جماعت کے لیڈروں کو الزام دے سکتے ہیں لیکن نوکر شاہوں سے کوئی سوال نہیں کئے جاتے۔ نوکر شاہی لوگوں کی خدمت کیلئے ہوتی ہے ، نہ کہ صرف اصول و ضوابط مرتب کرنے کیلئے۔چند ہفتے قبل گوہاٹی جاتے ہوئے ، مجھے نہیں معلوم تھا کہ آسام میں داخل ہونے  والے سبھی مسافروں کا آر ٹی ۔ پی سی آرٹیسٹ کیا جانا ضروری تھا۔ میری غلطی تھی، مجھے چیک کرنا چاہئے تھا۔ میری طرح دوسرے مسافر حیران و ششدر تھے۔ ہم سے فارم بھروائے گئے۔بھیڑ بھری قطار میں کھڑا کروایا گیا اور ایک بے آرام بس میں بھر کرایک اسٹیڈیم میں لے جایا گیا،جہاں ہمارے ٹیسٹ کئے گئے.... اور کسی ایک فرد نے بھی اس عمل یا اس کے متبادلات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ ہمیں ایسا لگا جیسے ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جارہا تھا۔ آپ  جانوروں سے بات چیت نہیں کرتے، انہیں بس ادھر اُدھر ہانکتے رہتے ہیں۔ کسی نے بھی ہمارے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ نہیں کیا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ ہم پیسہ دے کر فوری طور پر رپورٹ لے سکتے ہیں اور اس طرح ’ضروری‘ کوارینٹائن سے بچ سکتے تھے۔ میرے ہاتھ پر تاریخ کی مہر لگ گئی۔ جب میں نے اس عمل کی مخالفت کی تو مجھے بتایا گیا کہ آپ پیسے دے کرکوارینٹائن سے بچ سکتے تھے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK