Inquilab Logo

جمہوریت میں شفافیت کی اہمیت اور ہمارا طرز عمل

Updated: March 27, 2022, 10:01 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

شفافیت جمہوریت کی طاقت ہے۔ عوام کو مسائل اور مشکلات کا علم ہوگا تو وہ اُن سے نمٹنے کیلئے متحدہ طور پر تیار رہ سکتے ہیں۔ اُن میں قربت اور اتحاد پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ اُنہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسائل اور مشکلات اُن کیلئے مشترکہ چیلنج ہے

The Chinese Foreign Minister had recently visited India. He met with our foreign minister and national security adviser, but we do not know much about that meeting.
گزشتہ دنوں چینی وزیر خارجہ ہندوستان آئے تھے۔ انہوں نے ہمارے وزیر خارجہ اور قومی سلامتی مشیر سے ملاقات کی مگر ہم اس ملاقات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔

شفافیت جمہوریت کی طاقت ہے۔ عوام کو مسائل اور مشکلات کا علم ہوگا تو وہ اُن سے نمٹنے کیلئے متحدہ طور پر تیار رہ سکتے ہیں۔ اُن میں قربت اور اتحاد پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ اُنہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسائل اور مشکلات اُن کیلئے مشترکہ چیلنج ہے۔ یہ جذبہ پیدا کرنا ممکن تو ہے مگر اُن ملکوں میں اتنا آسان نہیں رہ جاتا جہاں جمہوریت پوری طاقت سے جاری نہیں رہتی کیونکہ آمریت پسند اقتدار کا طرز عمل بہت سی باتوں کو صیغہ ٔ راز میں رکھنے کا ہوتا ہے۔اس کا ایک نمونہ اُس جنگ میں دیکھا جاسکتا ہے جو اِس وقت یورپ میں لڑی جارہی ہے۔ یوکرین اپنی موجودہ جمہوریت تک کیسے پہنچا اس سلسلے میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ روس کی جارحیت کے جو اسباب ہیں اُن میں سے ایک سبب قیام جمہوریت کا یہ اختلاف رائے بھی ہے، مگر اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آج دونوں ممالک شفافیت کے معاملے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یوکرین کے عوام جانتے ہیں کہ اُن کے سامنے مشکلات اور خطرہ ہے اس لئے وہ متحد ہوگئے ہیں تاکہ اس خطرہ کا مل جل کر مقابلہ کریں ۔ مگر روس کے عوام نہیں جانتے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ کیا ہے اور کیوں ہے۔ روسی حکومت نے عوام کی فیس بُک تک رسائی کو روک دیا ہے کیونکہ پوتن نہیں جانتے کہ عوام کو حالات کا علم ہو۔انہوں نے ایک قانون وضع کیا ہے جس کے تحت ملٹری کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافتی اداروں کو پندرہ سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔اس قانون کی وجہ سے بہت سے روسی شہریوں میں بے چینی پیدا ہوگی جو طویل مدت میں ملک کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
 کہا جاتا ہے کہ سورج کی روشنی جراثیم کو ختم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ شفافیت کو سورج کی روشنی کا استعارہ قرار دیں تو کہا جاسکتا ہے کہ شفافیت ہی حکومت، اداروں اور تنظیموں کو بہت سے نقائص سے پاک رکھ سکتی ہے۔ 
 ۲۵؍ مارچ کو چین کے وزیر خارجہ ہندوستان آئے۔ اس سلسلے میں حکومت کا کہنا تھا کہ یہ ’’غیر اعلانیہ‘‘ دورہ تھا جبکہ ذرائع ابلاغ کو اس کی خبر تھی (پھر یہ غیر اعلانیہ کیسے ہوا؟)۔ چو نکہ وہ اپنے ہندوستانی ہم منصب یعنی ہمارے وزیر خارجہ اور قومی سلامتی مشیر سے بھی ملے اس لئے موضوع ِملاقات بھی ظاہر تھا جو لداخ کی صورت حال ہے۔ چینی وزیر خارجہ وینگ یی (Wang Yi) وزیر اعظم مودی سے بھی ملنا چاہتے تھے مگر اُنہیں بتایا گیا کہ وہ یوگی ادتیہ ناتھ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے اُترپردیش گئے ہوئے ہیں۔ اس سے ہمیں اشارہ ملتا ہے کہ ہندوستان لداخ کی صورت حال سے ناخوش ہے۔ مگر ’’صورت حال‘‘ کیا ہے؟ یہ سوال بہت اہم اس لئے ہے کہ خود وزیر اعظم نے دیش واسیوں کو بتایا ہے کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں اور کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وزیر دفاع بھی کہہ چکے ہیں کہ ہندوستانی سپاہی عرصہ ٔ دراز سے اپنی سرحدوں پر جہاں جہاں گشت کرتے رہے ہیں وہاں وہاں اُن کا گشت آج بھی جاری ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے جو موضوع بحث بنے۔ 
 اگر واقعی ایسا ہے تو چین سے مذاکرات کی ضرورت ہی کیوں پیش آرہی ہے؟ یہ بتانے کو حکومت تیار نہیں ہے۔ جسے ہم گودی میڈیا کہتے ہیں وہ یہ سمجھا رہا ہے کہ ’’لڑائی‘‘ کے محاذ سے چین فوج ہٹانا چاہتا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال باہمی مفاد میں نہیں ہے۔ ’’لڑائی کے محاذ سے فوج کی واپسی‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ اگر وہ (چینی فوج) اپنی حدود میں ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ۱۱؍ مارچ کو  ہندوستانی اور چینی فوجی جرنلوں کے مذاکرات کی پندرہویں نشست ہوئی۔ اگر کوئی دراندازی نہیں ہوئی ہے اور سب کچھ واقعی ٹھیک ٹھاک ہے تو مذاکرات پر مذاکرات کیوں ہورہے ہیں؟ اس سلسلے میں بھی حکومت نے ہمیں کچھ نہیں بتایا ہے۔
 مذاکرات کے حالیہ دور کے دوسرے دن ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے لکھا کہ سرحد پر دونوں جانب فوجیوں کی چھوٹی سی جمعیت تعینات ہےمگر چینی فوجی جمعیت قبضے کی اصل لکیر (لائن آف ایکچوئل کنٹرول) کے اِس طرف (ہندوستانی جانب) تعینات ہے۔ مرکزی حکومت نے انڈین ایکسپریس کی اس رپورٹ پر نہ تو تبصرہ کیا نہ ہی اس کی صداقت پر سوال اُٹھایا۔ سبکدوش فوجی جرنلوں کا، جو مضامین لکھتے ہیں، کہنا ہے کہ چین نے دراندازی کی، ہماری سرحد میں گھس آیا اور اب پیچھے جانے یعنی ہماری زمین سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ بعض ریٹائرڈ فوجیوں کا خیال ہے کہ سرحد پر حالات بگڑ سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ چین کی شرارت ہوگی۔ حالیہ دنوں میں چین کے ہماچل پردیش میں گھس آنے کی بھی خبریں موصول ہوئیں (کیونکہ چین کہتا ہے کہ تبت کے چھٹے دلائی لاما وہاں پیدا ہوئے تھے)۔ 
 روس کی طرح چین بھی آمریت پسند ملک ہے جو شفافیت کا قائل نہیں ہے۔ اس کے برخلاف ہندوستان جمہوری ملک ہے جو اپنی جمہوریت کی طاقت کا بہتر استعمال کرسکتا ہے مگر ہماری حکومت اس معاملے اور کئی دیگر معاملات میں بھی شفافیت سے کام نہیں لے رہی ہے۔اس کی جو وجہ ہے اُس پر مَیں روشنی نہیں ڈالنا چاہتا۔ 
 ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان میں آمریت نہیں ہے بلکہ یہ مکمل جمہوری ملک ہے اس کے باوجود حالات کچھ ایسے ہیں کہ ہم بہت سے معاملات میں خود کو گمراہ کررہے ہیں۔ ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود ہی چین کو موقع دیتے جارہے ہیں۔ 
 بیجنگ میں بیٹھے ہوئے خارجہ پالیسی کے ماہرین نے اس موضوع پر ہمارے کنفیوژن کو محسوس کیا ہوگا۔ وہ اس سے فائدہ اُٹھانے کیلئے بھی کوشاں ہوں گے۔ اس لئے یہ سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ چین کیا چاہتا ہے، دو سال سے اس نے لداخ کو کیوں موضوع بحث بنا رکھا ہے اور اب اس نے ارونا چل میں کیوں گھس پیٹھ کی۔ ان حالات کا چین کے ذریعہ تعمیر کی جانے والی اُس سڑک سے کیا تعلق ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بنائی جارہی ہے اور جو چین کو بلوچستان سے جوڑتی ہے؟ 
 سری لنکا کی ایک بندرگاہ چین کی عملداری میں ہے اور بنگلہ دیش کے اخبارات چین کی راہداری اور مذکورہ سڑک کے بارے میں بہت کچھ مثبت لکھ رہے ہیں۔ نیپال بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ جنوبی ایشیاء میں ہندوستان اور بھوٹان ہی نے اس منصوبے سے خود کو دور رکھا ہے۔اس کا ہمارے مستقبل پر کیا اثر پڑے گایہ سمجھنے کیلئے ہمیں کاموں اور منصوبوں میں شفافیت برتنی ہوگی تاکہ مشکل اُمور میں حکومت کو اپوزیشن اور عوام دونوں کا سپورٹ ملے۔ کیا ایسا ہوگا؟اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا لیکن اس کا جواب اثبات میں ملنا چاہئے کہ یہ ہمارے ملک کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ n  

democracy Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK