Inquilab Logo

روزگار کے مسئلہ پر توجہ ضروری ہے

Updated: September 19, 2021, 8:30 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے چند ماہ بعد نریندر مودی نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ منریگا صرف اس لئے جاری رہے گی کہ یہ منموہن سنگھ کی حکومت کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرے گی

India`s economy has begun to weaken and unemployment has risen.Picture:Midday
ہندوستان کی معیشت کمزور ہونا شروع ہوگئی ہے اور بے روزگاری بڑھ گئی ہے تصویر مڈڈے

وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے چند ماہ بعد نریندر مودی نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ منریگا صرف اس لئے جاری رہے گی کہ یہ منموہن سنگھ کی حکومت کی ناقص کارکردگی کو ظاہر کرے گی۔ مودی نے اپوزیشن بینچ کا مضحکہ اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میری سیاسی جبلت مجھے بتاتی ہے کہ منریگا کو بند نہیں کیا جانا چاہئےکیونکہ یہ اس حکومت کی ناکامیوں کی زندہ یادگار ہے۔ اتنے سال اقتدار میں رہنے کے بعد، اس اسکیم کے تحت ایک غریب آدمی کو ایک مہینے میں محض چند دن گڑھے کھودنے کا روزگار ملا تھا۔‘‘ مودی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت روزگار کے بہتر مواقع پیدا کرے گی اور یہ اسکیم خود بخود بند ہوجائے گی۔ اسے کم فنڈ مہیا کرکے اور اس کی رسائی کم لوگوں تک کرکے اسکیم کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے گا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد، نتن گڈکری نے اشارہ دیا تھا کہ منریگا ہندوستان کے ایک تہائی سے بھی کم اضلاع تک محدود رہے گی۔ علاوہ ازیں، منریگا کی حوصلہ شکنی کیلئے مودی حکومت نے کہا تھا کہ وہ اس اسکیم کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کی ادائیگی میں تاخیر کرے گی، اور انہیں ان کی مزدوری ۱۵؍ دن میں ادا کی جائے گی۔ یہ تاخیر ۲۰۲۱ء میں ۴۲؍ فیصد سے بڑھ کر ۲۰۱۴ء میں ۷۰؍ فیصد ہوگئی تھی۔ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے چھ ماہ بعد(دسمبر ۲۰۱۴ء تک) پانچ ریاستوں کو چھوڑ کر دیگر تمام کو منریگا میں۲۰۱۳ء کے مقابلے میں ۲۰۱۴ء میں مرکز کی جانب سے نمایاں طور پر کم فنڈز ملے تھے۔
 چونکہ اب ہندوستان کی معیشت کمزور ہونا شروع ہوگئی ہے اور بے روزگاری بڑھ گئی ہے ، مودی حکومت نے اُس اسکیم میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا شروع کردیا ہے جسے وزیر اعظم نے ایک نمایاں ناکامی قرار دیا تھا۔ ۱۵۔۲۰۱۴ء میں منریگا کو ۳۲؍ ہزار کروڑ روپے، ۱۶۔۲۰۱۵ء میں ۳۷؍ ہزار کروڑ، ۱۷۔۲۰۱۶ء میں ۴۸؍  ہزار کروڑ، ۱۸۔۲۰۱۷ء میں ۵۵؍ ہزار کروڑ، ۱۹۔۲۰۱۸ء میں ۶۱؍ ہزار کروڑ، ۲۰۔۲۰۱۹ء میں ۷۱؍ ہزار کروڑ اور ۲۱۔۲۰۲۰ء میں ۱۱۱؍ ہزار کروڑ دیئے گئے۔ منموہن سنگھ کے دور کے مقابلے میں یہ رقم تقریباً ۳؍ گنا بڑھ چکی ہے۔ تاہم ، یہ اب بھی آبادی کے ایک بڑے طبقے کی روزگار کی مانگ کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ رواں مالی سال میں اس اسکیم کو ۷۳؍ ہزار کروڑ روپے اس مفروضے پر دیئے گئے ہیں کہ مانگ کم ہے لیکن ۸۰؍ فیصد رقم اس سال کے پہلے پانچ ماہ ہی میں خرچ ہو چکی ہے، اور منریگا کے تحت بیشتر لوگوں کی روزگار کی مانگ اب بھی پوری نہیں ہورہی ہے۔منریگا ہر رجسٹرڈ خاندان کو یومیہ۲۰۰؍ روپےپر، سال میں ۱۰۰؍ دن کے روزگار کی ضمانت دیتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خاندان کو سال بھر میں ۲۰؍ ہزار روپے ملیں گے۔مجموعی طور پر ۱۳؍ کروڑ ہندوستانی خاندان اس اسکیم کے تحت رجسٹرڈ ہیں ، جو ملک کی نصف آبادی پر محیط ہیں یعنی ۲۵؍ کروڑ خاندان۔ ۲۰۱۶ء میں ۲۴؍ لاکھ جاب کارڈز کم ہوگئے تھے لیکن نوٹ بندی کے اگلے سال اس میں ۱۸؍ لاکھ کارڈز کا اضافہ ہوا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب معاشی دباؤ ہوتا ہے تو غریب ہندوستانی منریگا سے وابستہ ہوجاتے ہیں لیکن جب حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں تو وہ غیر منریگا ملازمتوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
 اشوکا یونیورسٹی سے منظور شدہ دی سینٹر فار اکنامک ڈیٹا اینڈ اینالسس (سی ای ڈی اے) کے ایک مطالعے نے نوٹ کیا ہے کہ گزشتہ سال منریگا کی مانگ میں ۱ء۵؍ کروڑ کا اضافہ ہوا، یعنی نوٹ بندی کےمشکل سال کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ مانگ۔ بدقسمتی سے ہماری بڑی ریاستوں میں حکومت اس بات کو یقینی بنانے میں ناکام ہو رہی ہے کہ جو لوگ کام چاہتے ہیں، وہ اُسے حاصل کریں۔ یوپی میں رجسٹرڈ گھروں میں اوسط ملازمت ۱۸؍ دن (۳۶۰۰؍ روپے) اور بہار میں ۱۱؍ دن (۲؍ ہزار روپے) تھی۔ اتنی رقم پر کوئی بھی خاندان سال بھر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ سال رجسٹرڈ گھروں میں سے ۹۵؍ فیصد کو پورے ۱۰۰؍ دن کا کام بھی نہیں ملا تھا۔ آج بھی ہم اسی صورتحال کا شکار ہیں۔ سی ای ڈی اے کے سروے میں جو دوسری چیز سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ایسے نوجوان جنہیں دوسری جگہوں پر مستقل روزگار نہیں مل رہا ہے، وہ اب منریگا کی ملازمتیں تلاش کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ۱۸؍ سے ۳۰؍ سال کی عمر کے لوگوں میں سے ۲۰؍ فیصد منریگا کی نوکریاں تلاش کررہے تھے، جو آج بڑھ کر تقریباً دگنا یعنی ۳۷؍ فیصد ہوگئی ہے۔
 سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۵؍ سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہندوستانیوں کی تعداد جو کام کر رہی ہے یا کام کی تلاش میں ہے وہ افرادی قوت کا ۴۰؍ فیصد ہے۔ یہ تعداد امریکہ میں۶۰؍ فیصد سے زائد، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں تقریباً ۷۰؍ فیصداور چین میں ۷۰؍ فیصد سے زائد ہے۔ اس فہرست میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستانی سست ہیں؟ نہیں ، ملازمتیں نہیں ہیں۔ سینٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکنامی کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۶ء میں ہندوستان میں صحیح عمر میں کام کرنے والی ۴۲؍ فیصد آبادی بر سر روزگار تھی۔ ۲۰۱۷ء میں یہ شرح کم ہوکر ۴۱؍ فیصد، ۲۰۱۸ء میں ۴۰؍ فیصد، ۲۰۱۹ء میں ۳۹؍ فیصد اور اب ۳۶؍ فیصد رہ گئی ہے۔ آج کام کرنے والے ہندوستانیوں کی کل تعداد پانچ سال پہلے سے کم ہے حالانکہ آبادی میں ۷؍ کروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
 مسئلہ ایک نہیں ہے جو حل ہوجائے گا بلکہ یہ مسائل کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس مسئلہ کے منفی اثرات جو پڑے ہیں یا پڑ رہے ہیں ان کی درست طریقے سے جانچ نہیں کی جارہی ہے کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست کی توجہ دوسری چیزوں پر مرکوز ہے۔ ہندوستان ہمیشہ سے ایک غریب ملک رہا ہے جہاں اکثریت خاموشی سے تکلیف برداشت کرتی رہی ہے جبکہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کا کام جاری رہتا ہے۔ آج کے حالات ہزاروں سال پہلے کے حالات سے مختلف نظر نہیں آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اکثریت خاموشی سے مصائب کا سامنا کرتی رہے گی جبکہ آج نظر آنے والی عدم مساوات مزید نمایاں ہوگئی ہے؟  اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو یہ بہت ضروری ہے کہ بحیثیت قوم ہم اس مسئلے پر بحث کریں اور حالات کے مزید خراب ہونے کا انتظار نہ کریں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK