Inquilab Logo

ملک کے مجموعی حالات، اِمکانات اور خدشات

Updated: December 05, 2021, 7:37 AM IST | Mumbai

ماہِ دسمبر میں مبصرین یا مضمون نگار عموماً جنوری تا دسمبر کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں مگر زیر نظر مضمون میں ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۱ء تک کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے امکانات اور خدشات سے بحث کی گئی ہے

Farmers protest.
کسان آندولن

مہینہ دو سال قبل کے اُس دَور کے آغاز کی یاد دلاتا ہے جب حکومت ڈگمگا ئی تھی۔ یہاں ڈگمگائی اس لئے کہا گیا ہے کہ دسمبر ۲۰۱۹ء سے دسمبر ۲۰۲۱ء تک کے دورانیہ سے پہلے مودی حکومت اس خیال کی حامل تھی کہ اس کی کارکردگی بہترین ہے اور وہ بلندیوں کا سفر کررہی ہے۔ اس دوران حکومت نے تین معاملات پر مہر ثبت کردی جس کیلئے وہ برسوں سے کوشاں تھی۔ یکم اگست ۲۰۱۹ء کو تین طلاقوں کو جرم قرار دینے کا قانون بنا۔ سپریم کورٹ پہلے ہی تین طلاقوں کے خلاف رائے دے چکا تھا اس لئے حکومت کے درمیان میں آنے اور اس کے خلاف قانون بنانے کی ضرورت اور وجہ نہیں تھی۔ اس کے باوجود ایسا کیا گیا اور یہ قانون بنا۔
 اس کے چار دن بعد یعنی ۵؍ اگست کو کشمیر کی وہ خود مختاری بھی چھن گئی جو کسی نہ کسی درجے میں اسے حاصل تھی۔ کشمیر میں دفعہ ۳۷۰؍ کو بے اثر کردیا گیا۔ جس سے پہلے بالاکوٹ پر ایئر اسٹرائک کے ذریعہ ایسا لگا تھا کہ ہمارے ملک نے قومی سلامتی سے متعلق  خدشات سے بحسن و خوبی نمٹ لیا ہے۔ 
 ۹؍ نومبر کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد مقدمہ کو فیصل کیا جو برسہا برس سے معرض التواء میں تھا۔ ۱۱؍ دسمبر کو، پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ اَمیت شاہ کی اس یقین دہانی کے بعد کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کا نفاذ ہوگا، حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) منظور کرایا۔ اس کے بھی چار روز بعد ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو وہ احتجاج شروع ہوا جسے شاہین باغ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ یہ احتجاج ملک گیر سطح پر جاری تھا۔
  اس کے بعد حکو مت اپنا مخصوص ایجنڈا نافذ کرنے کے قابل نہیں رہ گئی اس لئے یہ اعادہ ضروری ہے کہ شاہین باغ کے دو ماہ پہلےجو حالات تھے اُن میں اور بعد کے دوبرسوں کے حالات میں کیا فرق ہے۔ حکومت کی جانب سے اپنے فیصلوں کی ’’واپسی‘‘ کا سلسلہ این آر سی سے شروع ہوا جسے نافذ نہیں کیا گیا۔ ملک کی متعدد ریاستی اسمبلیوں نے این آر سی کے خلاف قراردادیں منظور کیں۔ ایسا کرنے والی ریاستوں میں اب تک کی آخری ریاست بہار ہے جہاں کے بی جے پی لیڈروں نے اسی این آر سی کے خلاف اتفاق رائے سے قرارداد منظور کی جس کیلئے امیت شاہ نے اعلان کیا تھا کہ اسے جلد ہی پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔
 اس کے بعد والے مہینے میں شاہین باغ کے نام سے ملک بھر میں جاری احتجاج کو ختم ہونا پڑا مگر اس میں شامل خواتین کو پہلے ہی کامیابی مل چکی تھی کیونکہ جن قوانین کے خلاف وہ احتجاج کررہی تھیں انہیں بالائے طاق رکھا جاچکا تھا۔ دہلی فساد اور انوراگ کیشیپ اور کپل مشرا جیسے لوگوں کی اشتعال انگیزی سے ظاہر ہورہا تھا کہ انہیں،  فیصلے موخر کرنے یا  واپس لینے کے مرکزی حکومت کے اقدام سے کتنی ٹھیس پہنچی ہے۔ اس دوران ہمارے ملک کی فی کس جی ڈی پی بنگلہ دیش سے بھی پیچھے چلی گئی، مالیاتی خسارہ بڑھتا چلا گیا اور حکومت، جو کچھ اور نہیں کرپائی، پیٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھانے لگی۔ ۲۰۲۰ء میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا جس کا اثر ۲۱۔۲۰۲۰ء کے پورے مالیاتی سال پر محیط رہا۔ ملک اب بھی اس کے اثرات سے باہر نہیں آسکا ہے۔ اس کے معاشی عواقب سے محفوظ نہیں رہا جاسکتا تھا چنانچہ ۲۳؍ کروڑ ہندوستانی غربت میں دھنس گئے جبکہ بے روزگاری جو ۲۰۱۸ء ہی میں ۱۹۴۷ء کے بعد کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ چکی تھی، قائم رہی۔ 
 جون ۲۰۲۰ء میں جبکہ وبائی حالات جاری تھے، زرعی آرڈیننس منظور کئے گئے جو ستمبر میں پارلیمنٹ کے ذریعہ بھی منظور کرلئے گئے۔ اس سے ناراض کسانوں نے نومبر کے اواخر میں دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دینا شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے متنازع زرعی قوانین ایک سال بعد منسوخ کردیئے مگر دیگر مطالبات بالخصوص کسانوں کا دیرینہ مطالبہ ہنوز حکومت کی توجہ چاہتا ہے۔ وہ ہے ایم ایس پی کی ضمانت۔ زرعی قوانین کی منسوخی کا ایک اہم سبب یوپی کے اسمبلی انتخابات ہیں۔ حکومت کو ڈر تھا کہ کسانوں کی ناراضگی کے سبب مغربی یوپی میں اسے ناکوں چنے چبانے پڑیں گے۔ 
 جنوری میں مودی کے دوست ڈونالڈ ٹرمپ صدارتی الیکشن ہار گئے اور جو بائیڈن نے امریکی صدارت سنبھالی۔ واضح رہنا چاہئے کہ مودی کے ایک اور دوست جاپان کے شنزو آبے بھی اقتدار سے بے دخل ہوچکے ہیں۔ بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے چند روز بعد ہی مرکزی حکومت نے کشمیر میںانٹرنیٹ کی پابندی ہٹا دی جو ۱۷؍ ماہ سے جاری تھی۔ اس کا بائیڈن کے صدر بننے سے کوئی تعلق ضرور تھا۔  
 مئی ۲۰۲۰ء میں ملک نے جانا کہ چینی فوجیں لداخ میں جارحانہ انداز میں گھس رہی ہیں۔ پچھلے سال ۱۵؍ جون کو چین اور ہندوستانی فوجوں کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں ۲۰؍ ہندوستانی فوجی شہید ہوگئے۔ سرحدوں پر کشیدگی جاری ہی تھی کہ اِدھر پاکستان کی جانب امن کا ہاتھ بڑھا یا گیا اور وہ فوجی جو ہند پاک سرحد پر تعینات تھے اُنہیں وہاں سے ہٹا کر چین کی سرحد پر مامور کردیا گیا۔ اِدھر اندرون ملک یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ ریاست میں جمہوریت نہیں پائی جارہی ہے۔ عوام کی منتخبہ ریاستی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی ہے۔ روزمرہ کی خبروں اور دستیاب ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ تشدد کے واقعات رُکے نہیں ہیں۔ عوام میں غم و غصہ پہلے سے زیادہ ہے۔ وہ فوج جسے پاکستان سے ملحق سرحد کی ذمہ داری دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ کشمیر میں دراندازی روکے، اسے اب چین پر بھی نگاہ رکھنی پڑ رہی ہے۔
  وزیر اعظم مودی اور اُن کی حکومت کا مذکورہ بالا تمام حالات سے باہر نکل آنا آسان نہیں ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس سال معیشت ۸؍ فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تب بھی جی ڈی پی وہیں پہنچے گی جہاں وبائی حالات سے پہلے تھی! اس دوران، یو پی میں ممکن ہے بی جے پی جیت جائے مگر جن چوطرفہ مسائل کا سامنا حکومت کو ہے،  وہ کیسے حل ہوں گے؟ n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK