Inquilab Logo

زہرآلود شراب کا دُکھ

Updated: January 15, 2021, 11:20 AM IST | Editorial

گزشتہ چند دنوں میں بھرت پور (راجستھان) میں ۴؍ افراد فوت ہوئے اور ۶؍ اسپتال داخل کئے گئے۔ مورینہ (ایم پی) میں ۲۰؍ افراد فوت ہوئے اور ۱۷؍ اسپتال داخل کئے گئے۔ اس سے قبل ہاپوڑ، یوپی ( نومبر۲۰ء) میں ۱۱؍ افراد موت کی آغوش میں پہنچے۔

Alcohol - Pic : INN
شراب ۔ تصویر : آئی این این

 گزشتہ چند دنوں میں بھرت پور (راجستھان) میں ۴؍ افراد فوت ہوئے اور ۶؍ اسپتال داخل کئے گئے۔ مورینہ (ایم پی) میں ۲۰؍ افراد فوت ہوئے اور ۱۷؍ اسپتال داخل کئے گئے۔ اس سے قبل ہاپوڑ، یوپی ( نومبر۲۰ء) میں ۱۱؍ افراد موت کی آغوش میں پہنچے۔ اس سے بھی پہلے جولائی اگست میں پنجاب سے ۱۱۲؍ افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ملی تھی۔ ان خبروں کے ساتھ ہی مہاراشٹر (ملاڈ، ممبئی)، آسام، یوپی اور اُتراکھنڈ کے واقعات کو بھی یاد کرلیجئے۔ آپ سوچیں گے کہ یہ کون سی اموات ہیں؟ تو جان لیجئے کہ یہ ساری اموات کووڈ۔۱۹؍ کی وجہ سے نہیں ہوئیں۔ برڈ فلو کی وجہ سے بھی نہیں ہوئیں جس نے گزشتہ کچھ دنوں میں سر اُبھارا ہے یا پہلے بھی سر اُٹھا چکا ہے۔ یہ اموات زہریلی شراب کی وجہ سے ہوئیں جو ہمارے ملک کا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ چونکہ نیا نہیں ہے اس لئے حل ہوجانا چاہئے تھا مگر ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ زہریلی شراب سے جب بھی لوگ مرتے ہیں، چند روز شوراُٹھتا ہے اور تحقیقات کا اعلان کردیا جاتا ہے مگر غیر قانونی، زہریلی شراب کا نقل و حمل رکتا ہے نہ ہی سماج کو شدید نقصان پہنچانے والا یہ زہریلا کاروبار ہمیشہ کیلئے بند ہوتا ہے۔
  یہ سمجھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا کہ غیر قانونی شراب کی بھٹیاں پولیس کی نگاہ میں نہیں ہیں۔ اس مغالطہ میں رہنا بھی ریت میں گردن دھنسانے جیسا ہوگا کہ اس گورکھ دھندہ میں سرگرم مافیا انتظامیہ کی نگاہوں سے چھپا رہتا ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ریاست سے دوسری ریاست میں پھیلا ہوا یہ کاروبار اتنا بڑا ہے کہ اس کے حجم کو محسوس تو کیا جاسکتا ہے مگر اس کا مالیت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ اس میں کم پڑھے لکھے مگر امیر بننے کا خواب دیکھنے والے عناصر سے لے کر پولیس تک اور اعلیٰ افسران سے سیاستدانوں تک بہت سے لوگ ملوث ہوتے ہیں اس لئے سب ایک دوسرے کیلئے کام کرتے ہیں اور کوئی کسی کا نقصان نہیں کرتا بلکہ اپنے فائدے کیلئے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے مگر جن صارفین کیلئے بھٹیوں میں شراب پکائی جاتی ہے اُن کے گھر تباہ ہوجاتے ہیں اور وہ خود بھی کسی دن شدید طبی مسائل کے ساتھ اسپتال داخل کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو اس دارِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں اور کچھ موت سے لڑ کر بیوی بچوں سے لڑنے کیلئے گھر واپس آجاتے ہیں وہ بھی زیادہ عرصے کیلئے نہیں۔ 
 بدعنوانی کی گردن مروڑ کر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تو زہریلی شراب کی لعنت کے خاتمے میں ایک ہفتہ بھی نہ لگے مگر کبھی ’’اسپیشل چیکنگ‘‘ کی وجہ سے یہ کاروبار چند ایک روز رُکا بھی تو بڑی آسانی سے دوبارہ شروع ہوجاتا ہے اور مٹھیاں گرم ہوتی رہتی ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اس کاروبار کے بین ریاستی ہونے کے باوجود اس کے خلاف پورے ملک میں نافذ کیا جانے والا کوئی قانون نہیں بن سکا ہے۔ یہ ذمہ داری آج بھی ریاستوں کی ہے۔ ہمارے ملک میں قانون پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ بننے لگے ہیں جن میں وہ بھی شامل ہیں جن کی قطعاً ضرورت نہیں ہے مگر افسوس کہ ایک ایسی لعنت کے خلاف قومی سطح کا کوئی قانون نہیں ہے جس کے نفاذ سے اس شیطانی کاروبار پر قدغن لگ سکے۔ اُصولی طور پر اہل اقتدار سے پوچھا جانا چاہئے لیکن کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ آپ عوام کی زندگیوں اور صحت کی حفاظت کیلئے ہیں یا کھلواڑ کیلئے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ زہریلی شراب کے ہر سانحہ کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے مگر یہ کاروبار رُکنے کا نام نہیں لیتا؟ کیا گرفتاری کے بعد یہ لوگ بآسانی بچا لئے جاتے ہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK