Inquilab Logo

اسکندریہ کے پادری نےکہہ دیا تھا کہ عرب کےایک اُمی ّنبی ہیں ان کا نام احمدؐ ہوگ

Updated: December 02, 2022, 10:58 AM IST | mulana nadimulwajidi | Mumbai

سیرت نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں سلاطین عالم کے نام لکھے گئے آپؐ کے خطوط کا تذکرہ جاری ہے۔ زیر نظر قسط میں شاہِ مصر مقَوقِس کی مغیرہ بن شعبہ سے گفتگو اورمقوقس کے نام مکتوب گرامی کی دریافت کی تفصیل درج ہے

During the reign of Herakles, the present Turkish city of Constantinople, i.e. Istanbul, became the capital of this great empire; Photo: INN
ہرقل کے عہد میں موجودہ ترکی کا شہر قسطنطنیہ یعنی استنبول اس عظیم سلطنت کا دار الحکومت بن گیا تھا؛تصویر:آئی این این

مغیرہ بن شعبہ کی  مقوقس سے 
ملاقات(گزشتہ سے پیوستہ) 
مغیرہ: ان کا دین ساری دنیا میں پھیل جائے اور سب لوگ ان پر ایمان لے آئیں، ہم تب بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے؟
مغیرہ کی یہ بات سن کر مقوقس نے استہزائیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم اسے کھیل سمجھ رہے ہو، اس کے بعد اس نے مغیرہ سے پوچھا:
مقوقس: اچھا یہ بتلاؤ کہ قوم میں ان کا نسب کیسا ہے؟
مغیرہ: وہ قوم میں اچھے نسب والے ہیں۔
مقوقس: انبیاء ایسے ہی ہوتے ہیں، یعنی وہ اعلا نسب کے ہوتے ہیں۔ 
مقوقس: کیا وہ اپنے قول وفعل میںسچے سمجھے جاتے ہیں؟
مغیرہ: ہاں! وہ بڑے سچے انسان ہیں، ان کے اس وصف کی بنا پر انہیں ’’الصادق الامین‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ 
مقوقس: تم لوگوں کو اپنے معاملات پر غور کرنا چاہئے، کیا کوئی شخص اللہ پر جھوٹ بول سکتا ہے جب کہ وہ اپنے جیسے انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا، اچھا یہ بتلاؤ کہ ان کے متبعین میں زیادہ کس عمر کے لوگ ہیں؟
مغیرہ: نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔
مقوقس: ان سے پہلے جتنے بھی انبیاء گزرے ہیں، ان کی اتباع کرنے والے بھی زیادہ تر نوجوان ہی تھے، جب وہ ہجرت کرکے یثرب تشریف لے گئے وہاں کے یہودیوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا، وہ تو اہل تورات ہیں، انہیں معلوم ہے کہ نبی آخر الزماں  ؐ آنے والے ہیں۔
مغیرہ: یثرب کے یہودیوں نے ان کی شدید مخالفت کی۔ 
مقوقس: یہودی بڑی حاسد قوم ہے، انہوں نے حسد کی بنا پر ہی انہیںنبی نہیں مانا، حالانکہ ان کے متعلق جتنا ہم جانتے ہیں اتنا ہی ان کو بھی معلوم ہے۔
مغیرہ کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے بعد ہم لوگ دربار شاہی سے باہر آگئے۔ آج ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو باتیں مقوقس کی زبان سے سنیں ان سے ہمارے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل ہوگئے، ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ عجم کے بادشاہ تو ان کی تائید اور تصدیق کر رہے ہیں، اور اتنی دور ہونے کے باوجود ان کا خوف محسوس کررہے ہیں، اور ہم قرابت داری کے باوجود، اور ایک قوم ہونے کے باوجود، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں ہونے کے باوجود ان سے دور ہیں اور ان کے دین میں داخل نہیں ہو رہے ہیں، حالاں کہ وہ خود ہمارے گھروں میں اور ہمارے دروازوں پر اسلام کی دعوت لے کر آئے، لیکن ہم نے ان کی دعوت ٹھکرادی، یہ سوچ کر ہمیں بڑا احساسِ ندامت ہوا۔
اس واقعہ کے بعد میں جتنے دن بھی اسکندریہ میں رہا ، ان کے کلیساؤں میں جاتا رہا اور ان کے پادریوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتا رہا، مجھے حیرت ہوئی کہ وہ سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھی طرح واقف تھے۔ اسکندریہ کا ایک قبطی پادری تھا، بڑا پہنچا ہوا، عمر رسیدہ اور نہایت عابد وزاہد، میں نے اس سے پوچھا کیا کوئی نبی اور بھی آنے والے ہیں، یا انبیاء کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ اس نے بتلایا کہ آخری نبی آنے والے ہیں، ان کے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان میں کوئی تیسرا نبی نہیں ہے، حضرت عیسیٰ نے ہمیں ان کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے، وہ عرب کے ایک اُمی نبی ہیں، ان کا نام احمد ہوگا، نہ بہت طویل القامت اور نہ پستہ قد، ان کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ہیں، نہ ان کا رنگ سفید ہوگا اور نہ گندمی، وہ اپنے بالوں کو چھوڑے رکھیں گے، موٹا لباس پہنیں گے، جو کھانا پائیں گے وہ کھا لیں گے، ان کے کندھے پر تلوار لٹکی ہوئی ہوگی، جو ان سے جنگ کرے گا وہ اس کی کچھ پروا نہ کریں گے، جنگ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہ نفس نفیس حصہ لیں گے، ان کے ساتھی بھی ایسے ہوں گے جو ان پر جان چھڑکیں گے اور ان سے اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبت کریں گے، وہ ایک حرم سے دوسرے حرم کی طرف ہجرت کریں گے، جہاں کی زمین انتہائی سنگلاخ ہوگی، اور وہاں کھجوروں کے باغات بھی ہوں گے، دین ابراہیم ان کا دین ہوگا۔
مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے اس پادری سے کہا کہ آپ ان کے کچھ اور اوصاف بیان کریں، پادری نے کہا کہ وہ نصف کمر پر اپنا تہبند باندھیں گے، وہ ہاتھ پاؤں اور منہ دھوئیں گے، ان کو وہ خصوصیات حاصل ہوں گی جو دوسرے انبیاء کرام کو حاصل نہ تھیں، ہر نبی کی بعثت اپنی قوم میں ہوئی ہے، لیکن وہ تمام اقوام عالم کی طرف مبعوث ہوں گے، تمام روئے زمین ان کے لئے ذریعۂ طہارت اور جائے نماز قرار دے دی گئی ہے، جب بھی نماز کا وقت ہوگا وہ اسی جگہ پاکی حاصل کرلیں گے اور اسی مقام پر نماز ادا کرلیں گے، اس سے پہلے انبیاء کے لئے یہ حکم تھا کہ وہ صرف گرجا گھروں اور کلیساؤں میں جاکر عبادت کریں۔ 
مغیرہ کہتے ہیں کہ میں یہ باتیں دل کے کانوں سے سنتا رہا، اورانہیں دل میں نقش کرتا رہا، یہاں تک کہ میں وطن واپس آگیا، وطن پہنچ کر سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگیا۔ (الخصائص الکبری للسیوطی: ۲/۱۳۹، ۱۴۱)
مقوقس کے نام مکتوب گرامی 
کی دریافت
خوش قسمتی سے مقوقس کے نام لکھا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مکتوب گرامی بھی زمانے کے دست ِ برد سے محفوظ رہ گیا اور انیسویں صدی کے وسط میں دریافت ہوگیا، اس سلسلے میں مشہور محقق اور مصنف ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم لکھتے ہیں کہ موسیو بارتل نامی ایک مستشرق اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کچھ عرصے سے مصر کی قدیم ترین زبان کا مطالعہ کرنے میں لگے ہوئے تھے، قبطی زبان ان کا خاص موضوع ہے، اس زبان کے بہت سے مخطوطات مصر کے گوشہ نشین اور خلوت پسند راہبوں کے قبضے میں ہیں، تلاش کے دوران وہ اخمیم کے قریب ایک گرجا گھر میں پہنچے۔ وہاں انہیں ایک عربی مخطوطہ دستیاب ہوا، جو دیکھنے میں بہت معمولی نظر آتا تھا، مخطوطہ مجلد تھا، جِلد سے ظاہر ہوتا تھا کہ اندر جو کچھ بھی ہوگا اس کا حجم زیادہ ہوگا، یہ جلد کناروں سے خراب ہوگئی تھی، اور اس کے اندر سے کچھ قبطی حروف جھانک رہے تھے، سیاح نے کوشش کی کہ اس جلد کے بعد والے پہلے ورق کو الگ کرے جس کے اندر کی طرف متعدد لکھے ہوئے اوراق تھے، چنانچہ احتیاط کے ساتھ اس نے وہ ورق الگ کیا، اس کے نتیجے میں اندر سے دس ورق برآمد ہوئے، جن پر قبطی زبان کے قدیم خط میں انجیل لکھی ہوئی تھی، ان اوراق کو ایک موٹے کاغذ میں لپیٹا گیا تھا اور ان سب کو جوڑ دیا گیا تھا، وسطی حصہ جو باہر سے دونوں پہلوؤں کو ملاتا تھا، سیاہ چمڑے کے ایک ٹکڑے سے بنا ہوا تھا، موسیو بارتل نے دونوں پہلوؤں سے ان قبطی اوراق کو یکے بعد دیگرے ایک دوسرے سے جدا کیا جو کتاب کے داخلی حصے پر مشتمل تھے، اسی دوران اس کی نظر ایک ٹکڑے پر پڑی جو ان اوراق کے اندر بیچ میں دونوں پہلوؤں پر چمٹا ہوا تھا، یہ ٹکڑا کھال یا جھلّی کا تھا جسے کیڑوں نے دو جگہ سے چاٹ بھی لیا تھا، موسیو بارتل کو جھلّی کے اس ٹکڑے پر کچھ عربی حروف لکھے ہوئے نظر آئے، اس نے یہ عربی حروف پڑھنے کی کوشش کی، بڑی عرق ریزی کے بعد وہ لفظ محمد پڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس کامیابی کے بعد سیاح کو یہ یقین ہوگیا کہ اس وقت جو دستاویز اس کے سامنے ہے وہ نہایت اہمیت کی حامل ہے، اس لئے اس نے اس جھلّی کو پوری طرح ان اوراق سے الگ کرنے کی کوشش کی، جھلّی کو بھگونا اور نم کرنا بھی پڑا، اس سے چند الفاظ جو پہلے ہی مٹ رہے تھے، بالکل غائب ہوگئے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس تحریر کا بڑا حصہ محفوظ رہ گیا، بعد میں یہ تحقیق ہوگئی کہ یہ وہ خط ہے جو سیکڑوں سال پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ مصر مقوقس کو تحریر کیا تھا۔ موسیوبارتل نے اس مبارک تحریر کو ترکی خلافت کے سربراہ سلطان عبدالحمید خاں اول کے ہاتھوں تین سو اشرفیوں میں فروخت کردیا۔ ان کا عہد حکومت اٹھارہ سو انتالیس عیسوی سے اٹھارہ سو تریسٹھ عیسوی تک برقرار رہا، پہلے یہ مبارک خط دوسرے تبرکات نبوی کے ساتھ مصر کے شاہی خزانے میں داخل ہوگیا، بعد میں استنبول کے توپ کاپی شاہی محل کے عجائب خانے میں منتقل کردیا گیا، ۱۹۶۶ء؁ سے یہ عجائب خانہ عوام کے لئے کُھلا ہوا ہے، کوئی بھی شخص اس خط کی زیارت کرسکتا ہے۔ (رسول اکرم کی سیاسی زندگی :۱۵۲، ۱۵۳)
( الحمد للہ  راقم نے یہ عجائب گھر  دیکھا اور اس میں موجود تبرکات نبویؐ کی زیارت کی ہے)۔ 
دیوبند کے عظیم محقق جناب سید محبوب رضوی لکھتے ہیں کہ آٹھویں صدی ہجری کے جلیل القدر عالم شیخ ابو عبد اللہ محمد بن علی بن احمد المقدسی نے مصباح المغنی کے نام سے مکتوبات نبوی جمع کئے تھے۔ انہوں نے دور اول کے ایک مشہور محقق کے حوالے سے لکھا ہے کہ مقوقس کے نام جو نامۂ مبارک ہے وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دست مبارک سے لکھا ہوا ہے، اس طرح خوش قسمتی سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دست مبارک سے لکھی ہوئی تحریر ہم تک پہنچ گئی ہے، اور ہم نے اس کی زیارت کا شرف حاصل کرلیا ہے۔
 (مکتوبات نبوی ص: ۱۴۱) 
 قیصر روم کے نام خط
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا میں دو بڑی سلطنتیں تھیں، ایک رومیوں کی، جو مذہباً عیسائی تھے، اور دوسری ایرانیوں کی جو مجوسی کہلاتے تھے، رومی کیوں کہ اہل کتاب تھے اس لئے مسلمان طبعی طور پر انہیں اپنے قریب سمجھتے تھے، ایرانی مشرک تھے، اس لئے مشرکینِ مکہ کا رجحان ان کی طرف تھا، دونوں سلطنتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا، بلکہ روئے زمین کے بہت بڑے خطے پر انہی دوقوموں کا اقتدار قائم تھا، باقی چھوٹے موٹے ملک تھے جو انہی دو میں سے کسی ایک کے زیر تسلط تھے، آج کل روم کا اطلاق صرف اس خطے پر ہوتا ہے جس کو رومۃ الکبری کہا جاتا ہے جہاں اس وقت اٹلی کا دار السلطنت ہے۔ پہلے زمانے میں روم کا اطلاق رومیہ ، قسطنطنیہ، ایشیائے کوچک، یونان وغیرہ سب پر ہوتا تھا، ان سب کا دار السلطنت پہلے رومیہ تھا۔ ہرقل کے عہد میں موجودہ ترکی کا شہر قسطنطنیہ یعنی استنبول اس عظیم سلطنت کا دار الحکومت بن گیا تھا۔
سن چھ سو تین عیسوی میں ایران نے رومیوں پر حملہ کردیا، رومیوں کو شکست ہوئی، اور یروشلم سمیت مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضے میں آگیا، رومیوں کی سلطنت قسطنطنیہ میں سمٹ کر رہ گئی، مقوقس اس سلطنت کا سربراہ تھا، ہرقل (ہرکولیس) نے سن چھ سو دس عیسوی میں مقوقس کا تختہ پلٹ دیا، اور تباہ شدہ رومی سلطنت کا حکمراں بن بیٹھا، ہرقل نے تخت نشینی کے چھ سال بعد سن چھ سو سولہ عیسوی میں یکایک یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایرانیوں سے ٹکر لے کر ان کے قبضے سے اپنے مفتوحہ علاقے واگزار کرائے گا۔ اس سے پہلے قرآن یہ پیش گوئی کرچکا تھا کہ رومی غالب ہوکر رہیں گے، مشرکین نے اس پیش گوئی کا مذاق اڑایا تھا، جب کہ مسلمانوں کو پختہ یقین تھا کہ ایک بار پھر باز نطینی سلطنت اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرلے گی۔ اس یقین کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تومکے کے ایک کافر سے اونٹوں کی شرط بھی لگالی تھی، رومیوں اور ایرانیوں کی یہ جنگ سات آٹھ سال تک جاری رہی، سن چھ سو چوبیس عیسوی میں ہرقل ایرانیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا، قدم قدم پر وہ فتح سے ہم کنار ہوتا رہا، اور جو علاقے بازنطینی سلطنت سے چھین لئے گئے تھے وہ اسے واپس مل گئے، اس طرح قرآن کریم کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔
(جاری)

alexandria Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK