Inquilab Logo

مسئلہ بڑا ہے مگر اسے نظر انداز کرنے کی وجہ کیا ہے؟

Updated: October 11, 2020, 11:27 AM IST | Aakar Patel

ہماری معیشت سنگین مسائل سے دو چار ہے مگر بر سر اقتدار حکومت اس تعلق سے کوئی بات نہیں کرتی۔ اہم بات یہ ہے کہ کورونا وائرس سے قبل ہی ہماری معیشت جمود کا شکار تھی۔

Market - Pic : INN
مسئلہ بڑا ہے مگر اسے نظر انداز کرنے کی وجہ کیا ہے؟

جب تک مَیں یہ تسلیم نہیں کروں گا کہ میں کسی مسئلہ کا شکار ہوں یا کسی معاملہ میں الجھا ہوا ہوں، تب تک میں اسے حل نہیں کرسکتا۔ اگر مسئلہ معمولی ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد نہیں ہوںگے تو اس کا اثر مجھ پر ایک حد تک پڑے گا۔ اس مسئلہ سے میں کسی حد تک چڑچڑاہٹ کا شکار ہوسکتا ہوں، اور اسے نظر انداز بھی کرسکتا ہوں۔
 دوسری جانب، اگر مسئلہ بڑا ہے، اور اس سے نہ صرف میں بلکہ میرے اطراف کے لوگ بھی متاثر ہوں گے تو اسے نظر انداز کرنے کی میرے پاس کوئی معقول وجہ ہونی چاہئے، یعنی اس مسئلے سے نمٹنے سے زیادہ اسے نظر انداز کرنے کی وجہ زیادہ اہم ہونی چاہئے۔ 
 گزشتہ ۵؍ سال میں ہندوستان میں کاروں کی فروخت میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ۱۶۔۲۰۱۵ء میں ہندوستانیوں نے ۲۷؍ لاکھ کاریں خریدی تھیں جبکہ ۲۰۔۲۰۱۹ء میں بھی ہندوستانیوں نے ۲۷؍ لاکھ کاریں خریدیں۔ اس سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کا متوسط طبقہ بڑھ رہا ہے نہ خرچ کررہا ہے۔ 
 حکومت کا کہنا ہے کہ کاروں کی فروخت میں استحکام کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ملک کے نوجوان کار خریدنے کے بجائے اوبر اور اولا کے استعمال کو ترجیح دے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال امریکہ نے ۲؍ کروڑ کاریں فروخت کی تھیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اوبر اور اولا نے دیگر ممالک کو متاثر نہیں کیا ہے۔ 
 ہندوستان میں دو پہیہ گاڑیوں کی فروخت میں ۴؍ برسوں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ۱۷۔۲۰۱۶ء میں اس کی فروخت ۱ء۷؍ کروڑ تھی اور ۲۰۔۲۰۱۹ء میں بھی یہ ۱ء۷؍ کروڑ ہی تھی۔ یہ موٹر سائیکلیں لوور مڈل کلاس طبقے کیلئے بنائی گئی تھیں اور ۴؍ برسوں میں ان کی کھپت میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ دو پہیہ گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ نہ ہونے کا، حکومت کا نظریہ کیا ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے کیونکہ حکومت نے یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ اس شعبے میں ترقی نہیں ہوئی ہے۔ 
 کمرشیل گاڑیوں کے شعبے میں بھی گزشتہ ۴؍ سال میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ ۱۷۔۲۰۱۶ء میں کل ۷؍ لاکھ گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں جبکہ ۲۰۔۲۰۱۹ء میں بھی اِن کی ۷؍ لاکھ  گاڑیاں  ہی فروخت ہوئی ہیں۔ یہ ٹرک کے طرز کی ایسی گاڑیاں ہیں جو سامان مینوفیکچرر تک پہنچاتی ہیں یا بازار تک۔ اس شعبے میں ۴؍سال تک صفر نمو کا حقیقی معنی کیا ہے؟ اسے کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ 
 گزشتہ ۴؍ سال میں ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں بھی کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ہندوستانیوں نے اس شعبے میں ۲؍ لاکھ کروڑ روپے کی جائیداد خریدی تھی جبکہ ۲۰۱۹ء میں بھی انہوں نے نے ۲؍ لاکھ کروڑ روپے ہی کی جائیداد خریدی۔ 
 ہندوستان کی برآمدات میں۶؍ سال سے کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ملک سے اتنی ہی مالیت کی مصنوعات برآمد ہورہی ہیں جو وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دور حکومت میں ہورہی تھیں۔ یو پی اے کی حکومت ختم ہونے کے وقت ہندوستان ۳۰۰؍ بلین ڈالرس کی برآمد کررہا تھا۔ ۲۰۔۲۰۱۹ء میں بھی اس میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ اس دوران بھی ہندوستان نے ۳۰۰؍ بلین ڈالرس ہی کی برآمد کی ہے۔ 
 ہمارے ملک میں کاروبار کے معاملات ایسے کیوں ہیں؟ ہم اس سوال کا جواب نہیں جانتے کیونکہ حکومت اس کے بارے میں بات ہی نہیں کرتی۔ جب ہندوستان میں درآمدات، برآمدات سے کم ہوگئی تھیں تو حکومت نے اس لمحے کو ایک کامیابی کے طور پر منایا تھا۔
 گزشتہ ۶؍ برسوں میں ملک میں روزگار کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ در حقیقت اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۲۰۱۸ء میں ملک میں روزگار کی شرح ۶؍ فیصد تھی جو اَب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے اور ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہندوستانی اپنا روزگار کیوں کھو رہے ہیں؟ اس کا جواب بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ حکومت نے اس معاملے پر یہ کہتے ہوئے کوئی جواب نہیں دیا کہ پکوڑے فروخت کرنے والے اور اوبر ڈرائیو کرنے والے، روایتی ملازمین کی جگہ لے رہے ہیں۔
 اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ کورونا وائرس (کووڈ۔۱۹) نے ہندوستان کی معیشت کو شدید طور پر متاثر کیا ہے، اور یہ آگے بھی کرتا رہے گا۔ امسال جنوری میں ہماری جی ڈی پی کے جو اعدادوشمار تھے، اس تک دوبارہ پہنچنے کیلئے ہمیں مزید ۳؍ سال لگیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک مودی حکومت کی دوسری میعاد ختم ہوگی، ہم معاشی طور پر وہیں رہیں گے جہاں اس سال جنوری میں تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس سال جنوری میں جس جگہ تھے، وہ کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔ خیال رہے کہ مذکورہ بالا تمام اعداد وشمار کوروناوائرس کی وباء پھیلنے سے قبل کے ہیں۔ ہماری معیشت لاک ڈاؤن کے نفاذ سے قبل ہی جمود کا شکار تھی، اس میں موجودہ بحران نے کوئی بڑا کردار نہیں ادا کیا ہے۔ جب ہم اپنی معیشت کو کووڈ۔۱۹؍ کے مسئلے سے نجات دلائیں گے تو ہماری معیشت اسی جگہ واپس پہنچ جائے گی جہاں وہ اس وبا سے پہلے تھی، یعنی ہم پرانے مسائل کی جانب دوبارہ لوٹ جائیں گے۔
 کووڈ۔۱۹؍ سے قبل ۱۰؍ سہ ماہیوں تک ہندوستان کی جی ڈی پی کی شرح ہر سہ ماہی گرتی رہی تھی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس سوال کا جواب بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے یا پھر کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہم جب تک مسئلے کو تسلیم نہیں کریں گے، تب تک اسے حل نہیں کرسکیں گے۔ آپ کوئی مسئلہ اسی وقت حل کرسکتے ہیں اور اس کے تعلق سے اصلاحی اقدامات کا نفاذ اسی وقت کرسکتے ہیں جب آپ اسے تسلیم کریں اور اس پر تبادلۂ خیال کریں۔ 
 اگر آپ مسئلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے آگے بڑھ رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے تو بڑا مسئلہ ایسے حل نہیں ہوگا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سنگین ہوتا جائے گا۔ حکومت نے یہ کہتے ہوئے کہ دنیا کی معیشت میں ہندوستان کا ایک اہم مقام ہے اور اس کی معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے، اپنے دور اقتدار کی شروعات کی تھی مگر اب معیشت کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ یہ مسئلہ بہت بڑا ہے ، اور اس سے نہ صرف وزیر اعظم بلکہ کروڑوں افراد متاثر ہورہے ہیں۔ اس لئے اسے نظرانداز کرنے کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK