Inquilab Logo

قرآن مجید کا توبہ کا تصوررَب ِرحیم کی رحمت اوردین ِحق کی صداقت کا آئینہ دار ہے

Updated: July 10, 2020, 11:09 AM IST | Muhiuddin Ghazi

گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون ’’ قرآن مجید میں توبہ کو اصلاح کی راہ کے اہم ترین سنگ میل کے طور پر پیش کیا گیا ہے‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ

Quran Kareem - Pic : INN
قرآن کریم ۔ تصویر : آئی این این

اصل بات یہ ہے کہ اللہ پاک کا کوئی کام بے مقصد نہیں ہوتا ہے، اس نے یہ کائنات بنائی، اور اس میں زندگی اور موت کا نظام بنایا، اور اس نظام کا مقصد طے کیا انسانوں کے عمل کا امتحان۔ اس امتحان کے تحت توبہ کا نظام رکھا، تاکہ انسانوں کو امتحان کے دوران اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا پورا پورا موقع حاصل رہے۔ یہ امتحان موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے، اور اسی کے ساتھ اس امتحان کا ذیلی نظامِ توبہ بھی ختم ہوجاتا ہے، پھر نہ عمل کے لئے وقت رہتا ہے اور نہ توبہ کے لئے۔ جب توبہ کا مقصد اصلاح ہے، تو مرتے وقت توبہ کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا، ایسی بے مقصد توبہ کو اس نظام کائنات میں کیسے جگہ مل سکتی ہے، جس نے اس کائنات کو بے مقصد نہیں بنایا؟
 اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ توبہ کے سلسلے میں قرآن مجید میں ایک طرف تو اتنی کشادگی ہے کہ توبہ کرنے والوں کے سارے گناہ معاف کرنے کا بار بار اعلان عام ہوتا ہے، دوسری طرف ایسی سختی بھی ہے کہ موت کے سر پر آجانے کے بعد پھر توبہ کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کردیئے جاتے ہیں:
 ’’ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق انہی لوگوں کے لئے ہے جو جذبات سے مغلوب ہوکرکوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظر عنایت سے پھر متوجہ ہو جاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ مگر توبہ اُن لوگوں کے لئے نہیں ہے جو برے کام کئے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی، اور اسی طرح توبہ اُن کے لئے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں ا یسے لوگوں کے لئے تو ہم نے درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے۔‘‘ ( النساء::۱۷۔۱۸)
 قرآن مجید کی تعلیم یہ ہے کہ مرتے دم توبہ کرنے کے بجائے مرتے دم تک توبہ کرتے رہنا ہے۔
lدارالامتحان کی رونق توبہ سے ہے
 اگر اللہ پاک نے توبہ کی اس عظیم نعمت سے نوازا نہ ہوتا تو دنیا کا یہ امتحان نہایت مشکل ہوجاتا، اور لوگوں کو کامیابی کی امید دور دور تک نظر نہ آتی، پھر یہاں مایوسی کا اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا۔ توبہ نہ ہوتی تو جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ غفلت اور سرکشی میں گزار چکے ہیں، ان کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا کہ خوف اور مایوسی سے اپنے آپ کو ہلاک کرلیں، یا اپنی باقی زندگی بھی اسی ڈھب پر گزارتے رہیں اور اپنی ابدی ہلاکت کا پورا سامان کرلیں۔ دنیا دار الامتحان بھی ہے، اور دار التوبۃ بھی ہے۔ توبہ کی آمیزش سے امتحان کی کیفیت بہت بدل جاتی ہے۔ مایوسی کے اندھیروں کی جگہ امید کی روشنی پھیل جاتی ہے، اور کامیابی کے امکانات بہت روشن نظر آنے لگتے ہیں۔
lامید کا راستہ توبہ ہی سے ہوکر گزرتا ہے
 ایک مومن خوف اور امید کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، جب وہ اپنے گناہوں کو دیکھتا ہے اور گناہوں کے انجام کو سوچتا ہے تو خوف سے کانپ اٹھتا ہے، خوف کی یہ کیفیت اگر ہمیشہ رہے تو آدمی اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے۔ لیکن خوف کے اس عالم میں اسے امید کا سہارا توبہ سے ملتا ہے۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ غفور اور رحیم ہے، اس کے حضور توبہ کے ذریعہ تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں، تو اسے قرار آجاتا ہے، وہ توبہ کے عظیم الشان دروازے کو کھلا دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اور امید سے سرشار ہوکر توبہ کے دروازے میں داخل ہوجاتا ہے۔ گناہوں کا خوف اور توبہ کی امید مل کر ایک انسان کی زندگی کو بے حد حسین اور پاکیزہ بنادیتے ہیں۔ خوف اور امید کے اس شخصیت ساز حسین امتزاج کو توبہ سے الگ کرکے دیکھنا بہت بڑی اور خطرناک غلطی ہے۔ توبہ کے راستے پر چلے بغیر اللہ کی رحمت سے امید لگانا بہت بڑی بھول ہے۔ قرآن مجید میں توبہ نہیں کرنے والوں کے لئے امید کی کوئی کرن نہیں دکھائی گئی ہے۔ قرآن مجید میں امید کا بہت سامان ہے، مگر وہ سب توبہ کرنے والوں کے لئے ہے۔ اور یہی قرآن مجید کے اصلاحی مشن سے ہم آہنگ بات ہے۔ جو شخص توبہ نہیں کرتا ہے، وہ اپنی اصلاح نہیں کرتا ہے، اور اپنے گناہوں پر ہٹ دھرمی دکھاتا ہے، ایسے شخص کو توبہ کے بغیر کامیاب ہوجانے کی امید دلانا اس کی ہٹ دھرمی کو بڑھاوا دینا ہوگا۔ ویسے بھی جسے خوف ہی نہیں ہو، اسے امید کی بھی کیا ضرورت ہے۔
 عوام میں یہ رویہ عام ہے کہ جب کسی کو اس کے گناہوں کے انجام سے ڈرایا جاتا ہے، تو وہ بڑے اطمینان سے کہتا ہے کہ اللہ رحیم ہے۔ یہ رویہ خطرناک حد تک غلط ہے، اور بہت بڑی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔ اللہ بے شک غفور اور رحیم ہے مگر ان کے لئے جو توبہ کرلیں۔ اللہ پاک نے صاف اعلان کردیا ہے:
 ’’جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو: تم پر سلامتی ہو تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ بڑی مغفرت کرنے والاہے بڑی رحمت والا ہے۔‘‘ ( الانعام:۵۴)
 توبہ نہ کرنا، مگر اپنے لئے توبہ کرنے والوں کے انجام کی امید رکھنا جھوٹی امیدوں میں شمار ہوتا ہے اور یہ اپنے آپ کو بہت بڑا دھوکا دینا ہے۔
lتوبہ کی راہ سے رکاوٹیں ہٹائیں
 قرآن نے توبہ کو بہت آسان بناکر پیش کیا ہے، بڑے سے بڑا گناہ گار انسان خود توبہ کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے، اور کسی کی مدد کے بغیر خود ہی اسے انجام دے سکتا ہے۔ قرآن کا مقصد یہ ہے کہ توبہ کا انتظام ہر انسان کو میسر رہے، اور ہر ایک کے سامنے اس کا دروازہ کھلا رہے۔قرآن گناہ گار کو در بدر بھٹکنے کے بجائے فوری طور پر توبہ کا راستہ دکھاتا ہے، کیوں کہ یہی وہ طریقہ ہے جو اسے بدل سکتا ہے اور اسے گناہوں کے راستے سے نیکی کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔
 قرآن کے طریقے پر اصلاح کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ گناہ گار کے ساتھ وہی آسان رویہ اختیار کریں جو قرآن میں صاف صاف نظر آتا ہے۔ توبہ کے عمل کو مشکل نہ بنائیں، اور نہ ہی توبہ کے راستے کو دور کریں۔ کسی کا گناہ ہمیں اس قدر غصے اور ناراضگی میں مبتلا نہ کردے کہ ہم اسے توبہ کی طرف راغب کرنے کی اپنی ذمہ داری کو بھول جائیں، یا اسے توبہ کے لئے ناقابل سمجھنے لگیں۔ گناہ سے شدید نفرت کا صحیح تقاضا یہ ہے کہ گناہ سے توبہ کے لئے رغبت اور آسانی پیدا کردی جائے۔
lتوبہ کرنے والے کی عزت کی جائے
 قرآن ہمیں یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کرنے کے بعد توبہ کرلے تو اسے عزت کا مقام ملنا چاہئے۔ ہاں یہ توبہ اس کی زندگی سے اچھی طرح ظاہر ہو یہ ضروری ہے۔ کسی گناہ گار شخص کی توبہ کا علم اس سے نہیں ہوتا ہے کہ اس نے دوبارہ وہ گناہ نہیں کیا، بلکہ اس سے ہوتا ہے کہ اس کی زندگی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئی:
 ’’اور تم میں سے جو اس (زنا کے )فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘( النساء:۱۶)
 گناہ گار شخص کو ایک طرف یہ امید دلائی جائے کہ اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اللہ اسے معاف کردے گا، اور جنت میں اسے اعلیٰ مقام حاصل ہوگا۔ دوسری طرف اسے یہ امید بھی حاصل رہے کہ اگر وہ توبہ کرلیتا ہے، اور ایک نئی پاکیزہ زندگی گزارنے لگتا ہے تو اسے دنیا میں بھی باعزت مقام حاصل ہوجائے گا، اور گاہے گاہے اس کی پرانی فائلوں کو کھول کھول کر اسے رسوا نہیں کیا جائے گا۔
 گناہ کے بعد توبہ کرکے صالحیت کا راستہ اختیار کرنے والوں کو گھر، خاندان اور سماج میں، ادارے اور تنظیم میں عزت کا مقام دیا جائے یہ ضروری تو ہے، مگر اس کے لئے کشادہ ظرفی درکار ہوتی ہے، اور بندوں کا ظرف کشادہ ہوسکتا ہے  اگر وہ قرآن مجید میں یہ دیکھ لیں کہ کیسے کیسے گناہ گاروں کو اللہ کس قدر اپنے قریب کرلیتا ہے جب وہ توبہ کرلیتے ہیں اور نیک بن جاتے ہیں۔
lقرآن میں گناہوں کے بعد توبہ کا دل نواز ذکر
 قرآن مجید کا ایک خاص انداز یہ ہے کہ وہ کسی سنگین جرم کا تذکرہ کرتا ہے، اس کی سنگینی کو بہت شدت کے ساتھ بتاتا ہے، دنیا اور آخرت میں اس کی شدید سزاؤں کا ذکر کرتا ہے، اس بیان کے دوران اللہ کا شدید غضب اس طرح ظاہر ہورہا ہوتا ہے کہ گویا اس کے غضب کی تاب نہ لاکر ابھی زمین اور آسمان پھٹ پڑیں گے لیکن اس کے فوراً بعد ہی اللہ تعالیٰ توبہ کا ذکر کرتا ہے، اور توبہ کرنے والوں کو اپنی مغفرت اور رحمت کا یقین دلاتا ہے۔ یہ اسلوب رحمت سے اس طرح لبریز ہوتا ہے، کہ پورے وجود میں امید کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔
lتوبہ کا تصور قرآن مجید کا اعجاز
 قرآن مجید کا جس پہلو سے مطالعہ کیا جائے، یہ یقین دل میں راسخ ہوتا ہے کہ قرآن اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہے۔ قرآن مجید میں توبہ کا دروازہ اس قدر کشادہ ہے کہ ایک انسانی ذہن اتنے کشادہ دروازے کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید کا توبہ کا تصور مکمل طور پر قرآن مجید کے اصلاحی مشن سے ہم آہنگ ہے، اور اس سے صرف اصلاح کا کام لیا جاسکتا ہے۔ فرد اور سماج پر اس کا کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں پڑتا ہے۔ اس تصور کے ثمرات انسانوں کے لئے ہمیشہ مفید رہیں گے۔ یہ تصور کسی جھوٹی امید اور بے بنیاد خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنے دیتا۔ یہ تصور دنیا سے فرار کے بجائے دنیا میں صالح بن کر رہنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ یہ تصور دنیا کو جرائم اور مظالم سے پاک کرنے کا زبردست امکان رکھتا ہے۔ یہ تصور دنیا کے حسن وجمال میں اضافہ کرنے اور اسے خیر اوربھلائی کا گہوارہ بنانے والا ہے۔ یہ تصور خوف اور امید کے درمیان بہت مناسب اور ثمر آفریں توازن رکھتا ہے۔ یہ تصور رب اور بندوں کے بیچ کسی کو حائل نہیں ہونے دیتا ہے۔ یہ تصور ہر سفارش سے بے نیاز صرف دل کے اخلاص پر قائم ہے۔ اس تصور میں دل کو تسلی ملتی ہے۔ یہ تصور اتنا ٹھوس اور دو ٹوک ہے کہ اسے کسی مذہبی اجارہ داری یا دنیوی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ قرآن مجید کا توبہ کا تصور رب رحیم کی رحمت اور دین حق کی صداقت کا آئینہ دار ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK