Inquilab Logo

دین کی حقیقت ،اُس کی بنیاد اور اُس کی قبولیت کی شرط اخلاص  ہے

Updated: November 26, 2021, 5:39 PM IST | Mahir Mualqi

جو چیزیں اخلاص پر نفس کی تربیت کرنے اور ریاکاری کے اسباب کو دور کرنے میں مددگار ہوتی ہیں اُن میں سے یہ ہے کہ مومن اپنے نفس کے لئے کوئی پوشیدہ نیک عمل مقرر کرے جس پر اللہ عزوجل کے پاس اجر کی امید رکھے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اے مسلمانو ! میں آپ کو اور خود کو تقویٰ کی وصیت کرتاہوں۔سو آپ طاعتوں پر پائیدار رہ کر اور محرمات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں۔اور اپنے رب کے لیے قصد ونیت کو خالص کریں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔آپ ان چیزوں کی طرف جلدی کریں جنہیں آپ کا مولا پسند کرتاہے اور آپ سے راضی ہوتا ہے۔ہر آدمی کو اُن اعمال پر روکا جائےگاجن کا اُس نے ارتکاب کیا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’جو کوئی عاجلہ کا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لئے سعی کرے جیسی کہ اس کے لئے سعی کرنی چاہئے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی ۔‘‘ (الاسراء:۱۸۔۱۹) اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا پھر انبیا ء کو بھیجا ،کتابیں نازل کیں تاکہ صرف اُسی کی عبادت کی جائےاور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے:’’میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات:۵۶)
یہ عبادت اخلاص کے بغیر انجام نہیں پاسکتی کیونکہ بندہ اس عبادت سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی چاہتا ہے ،مگر شرط یہ ہے کہ اس  میں   ریا کاری ہو نہ شہرت کی طلب۔ اخلاص دین کی حقیقت ،اُس کی بنیاد اور اُس کی قبولیت کی شرط ہے۔اُس کا مقام وہی ہے جو مقام جسم میں روح کا ہے ۔لہٰذا اُس شخص کی کوئی عبادت نہیں جس میں اخلاص نہیں ۔ اخلاص سے درجات بلند کئے جاتے ہیں ،لغزشیں معاف کی جاتی ہیں ،دل مطمئن ہوتا ہے اور ذہن کو سکون ملتاہےاخلاص بڑا کٹھن ہے۔اس میں جدو جہد اور دائمی احتساب کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ کسی تاریک رات میں سیاہ چکنے پتھر پرچلتی چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جو عبادت کو فاسد اور اجر کو برباد کردیتا ہے۔اللہ جل و جلالہ بڑا بے نیاز ،لائقِ جلال اور صاحبِ حمد و ثنا و عظمت ہے ۔اُسے پسند نہیں کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔پھر بھی اگر بندہ شرک کرے تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس کے شرک کے ساتھ اُس کے حال پر چھوڑ دیتاہےاور اُس پر اُس کے عمل  کو رد کردیتا ہے ۔مسندِ امام احمد میں  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  تمہارے اوپر مجھے جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ ہے شرکِ اصغر۔صحابہ کرام نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب لوگوں کو اُن کے اعمال کا بدلہ دے گا تو فرمائے گا:تم اُن کے پاس جاؤ جنہیں تم دنیا میں دکھا تے تھے اور پھر دیکھو کہ کیا تم اُن کے پاس کوئی بدلہ پاتے ہو؟’’جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔ ہاں یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کےاعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں۔‘‘ (ہود:۱۵۔۱۶)جو چیزیں اخلاص پر نفس کی تربیت کرنے اور ریاکاری کے اسباب کو دور کرنے میں مددگار ہوتی ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ مومن اپنے نفس کے لئے کوئی پوشیدہ نیک عمل  مقرر کرے جس پر اللہ عزوجل کے پاس اجر کی امید رکھے۔ گردشِ شب و روز میں غور و فکر کرنا،اُن کی نشانیوں میں نظر دوڑانا،آسمان و زمین کی تخلیق کے بارے میں سوچنا اور اُن کے خالق کی تسبیح کرنا۔ نیک نیت پوشیدہ نیک اعمال میں سے ہے۔سو جس  نے پوشیدہ نیک عمل کا ارادہ کیااور اُسے انجام نہ دے سکاتو اللہ تعالیٰ اپنے پاس اُس کی پوری نیکی لکھے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے سچائی کے ساتھ شہادت کا سوال کرے گاتو اللہ تعالیٰ اُسے شہداء کے مقام تک پہنچائے گااگرچہ اُس کی مو ت اپنے بستر پر ہی کیوں نہ ہو۔
سنن ترمذی میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لئے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے  اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے۔ ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔  دوسرا وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا۔ تیسرا وہ شخص ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور چوتھا بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا۔
پوشیدہ نیک عمل سچائی اور اخلاص کی دلیل ہے ۔اس کے ذریعے بندہ اپنے رب کا تقرب حاصل کرتاہےاور امید کرتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اسے اُس دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عنایت کرے گا جس دن عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ 
تنہائی کی عبادت کے ثمرات میں سے دل کی دُرستگی ،استقامت ،پاکیزگی ،صفائی ،شہوت و شبہات سے اُس کی دوری اور آزمائشوں اور فتنوں کے وقت اُس کی ثابت قدمی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یک سُوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے۔‘‘ 
(المزمل:۵)
پوشیدہ نیک عمل شیطان کے اوپر سخت ترین اعمال میں سےہیں۔ شیطان بندے کے ساتھ ہمیشہ لگا رہتاہے یہاں تک کہ اُس کے عمل کو رازداری سے اعلان کی طرف،اخلاص سے شرک و ریا کاری ، خودپسندی و شہرت  کی طرف منتقل کردیتا ہے۔ اللہ  کے بندو! اپنی زندگی کی کتاب کو کھول کر ٹٹولو اور دیکھو کہ کیا تم اپنے اعمال کے دفتر میں کوئی نیک عمل پاتے ہوجسے تم نے قیامت کے دن کےلئے جمع کررکھا ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK