Inquilab Logo

اسمبلی انتخابات والی پانچ ریاستوں کی صورتحال اور وہاں کے اہم و بنیادی مسائل

Updated: January 18, 2022, 3:46 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

الیکشن کمیشن نے گزشتہ دنوں اسمبلی انتخابات کیلئے تاریخوں کااعلان کردیا جس کے بعد سیاسی جماعتوں کی بھاگ دوڑ شروع ہوگئی لیکن کیا ان کی بھاگ دوڑ مثبت سمت میں ہے؟ انقلاب نے ان کالموں میں اسی کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

پانچ ریاستوں میں انتخابی بگل بجتے ہی سیاسی گہماگہمی بڑھ گئی ہے... اور حسب توقع اس گہماگہمی کا مرکز اترپردیش ہے۔اس مشہور کہاوت  کے پیش نظر کہ مرکز ی اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گزرتا ہے، پورے ملک کی نگاہیں بھی اترپردیش ہی پر مرکوز ہیں۔ یہ ایک عام تصوہے کہ  بی جے پی اگر یوپی میں ہار جاتی ہے تو لوک سبھا  میں بھی  وہ شکست سے دوچار ہوسکتی ہے ، جیسا کہ امیت شاہ نے کچھ دن قبل کہا تھا کہ ۲۰۲۲ء میں یوگی کی کامیابی ہی ۲۰۲۴ء میں مودی کی کامیابی کی ضمانت ہوگی... کیا واقعی ایسا ہے؟  بلاشبہ اُترپردیش ایک بڑی ریاست ہے جہاں سے لوک سبھا کیلئے ۸۰؍ اراکین ، راجیہ سبھا کیلئے ۳۱؍ اراکین، ودھان سبھا کیلئے ۴۰۳؍ اور ودھان پریشد کیلئے ۱۰۰؍ اراکین کاانتخاب ہوتا ہے۔یہ ایک ایسی تعداد ہے جس پر تمام سیاسی جماعتیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی ہیں۔ عام طورپر جس جماعت کی حکمرانی لکھنؤ میں ہوتی ہے، اس کا دبدبہ مرکز پر بھی ہوتا ہے اور مرکزی اقتدار میں اس کی حصہ داری بڑھ جاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیگر ریاستوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ چونکہ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کو سیمی فائنل قرار دیا جارہا ہے، اسلئےضروری ہے کہ دوسری ریاستوں کے  انتخابی نتائج پر بھی توجہ دی جائے۔     آئیے! دیکھتے ہیں کہ اترپردیش سمیت ان پانچ  ریاستوں کے انتخابی نتائج قومی سیاست پر کس طرح  کے اثرات مرتب کریںگے؟ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ ان پانچ میں سے چار ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے جہاں اس کا مقابلہ الگ الگ جماعتوں سے ہے۔ اترپردیش میں اس کا براہ راست مقابلہ سماجوادی پارٹی سے ہے جبکہ اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں کانگریس اور دیگر جماعتوں  سے ہے،اسلئے ان تمام ریاستی انتخابات کے نتائج کے اثرات الگ الگ مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان انتخابات کو   سیمی فائنل سمجھنے کی صورت میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ بی جے پی کے مقابلے کون سی جماعت کھڑی ہوگی؟اس لحاظ سے دیکھیں تو چار جماعتیں خم ٹھونک کرمیدان میں اُترنے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن وہ اُسی صورت میں خم ٹھونک سکیں گی، جب ان پانچ ریاستوں کے نتائج ان کے موافق ہوں۔ یہ چار جماعتیں کانگریس، سماجوادی پارٹی، ترنمول کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہیں۔   سب سے پہلے ہم اُترپردیش کا جائزہ لیتے ہیں۔مختلف انتخابی جائزوں میں سماجوادی پارٹی کو بی جے پی کے بہت نزدیک بتایاجارہا ہے جبکہ بی جے پی میں مچی افراتفری اور اس کے لیڈروں میں نظر آنے بے چینی بتاتی ہے کہ زمینی سطح کی صورتحال میں سماجوادی پارٹی کو برتری حاصل ہے۔  اگر یہ درست ہے اور اترپردیش میں سماجوادی پارٹی، بی جے پی سے اقتدار چھین لیتی ہے تو ایک بڑی ریاست کی ایک بڑی جماعت  کی حیثیت سے مرکزی اقتدار کیلئے اس کی دعویداری بڑھ جائے گی۔اسی کے ساتھ اکھلیش یادو کو ایک کرشماتی لیڈر بھی قرار دیا جانے لگے گا.... لیکن یہ سب اُسی صورت میں ہوگا جب وہ  بی جے پی کو شکست سے دوچار کرسکیں اور اقتدار پر قابض ہوجائیں، بصورت دیگر ان کے سیاسی کریئر کا گراف بہت تیزی کے ساتھ نیچے گرے گا اور وہ لوک سبھا کے انتخابات میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پائیں  گے۔   ان انتخابات میں کانگریس کا بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اترپردیش میں اس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ الیکشن میں ۶ء۲۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ اسے صرف ۷؍ سیٹیں مل سکی تھیں۔ اگر اس مرتبہ وہ اپنے ووٹ فیصد اور سیٹوں میں تھوڑا بہت بھی اضافہ کرلیتی ہے، تو اس کے حق میں بہتر ہوگا لیکن اس کا اصل امتحان پنجاب، اتراکھنڈ اور گوا میں ہوگا ۔ پنجاب میں جہاں اسے اقتدار بچانے کا چیلنج ہے، وہیں اتراکھنڈ اور گوا میں بی جے پی حکومت سے عوام کی ناراضگی کا فائدہ اٹھانا ہے۔ پنجاب میں کانگریس کا مقابلہ عام آدمی پارٹی کے ساتھ ہی پارٹی لیڈروں کے آپسی چپقلش سے بھی ہے۔ یہاں نوجوت سنگھ سدھو اور چنی کے درمیان جاری سرد جنگ سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اُترپردیش:  تقریباً۲۳؍ کروڑ کی آبادی والی ریاست  اترپردیش میں مسائل  کا انبار ہے۔ مسائل سامنے ہی بکھرے پڑے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی نظریں اُن پر نہیں جارہی ہیں۔برسراقتدار جماعت اگر اس سے چشم پوشی کرتی ہے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے، افسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بھی انہیں انتخابی موضوع نہیں بنا رہی ہیں۔یہاں ایک بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ مرکزی وزارت برائے شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق اترپردیش میں بے روزگاری کی شرح ۴ء۲؍ فیصد ہے۔ ۲۰۱۷ء میں بی جے پی نے یہاں تعلیم، صحت اور سیکوریٹی کے شعبے میں فوری طور پر ملازمتوں کی تقرری کا وعدہ کیا تھا لیکن ان میں سے کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا ۔ تعلیم کے شعبے میں بھرتیوں کااعلان کیابھی گیا اور اس کیلئے امتحانات کی تاریخ بھی طے کردی گئی تھی لیکن عین امتحان کے دن پیپر لیک ہوجانے کی وجہ سے امتحان ملتوی کردیاگیا، جس کی وجہ سے تقرری کا معاملہ کھٹائی  میں پڑگیا۔  دوسرا بڑا مسئلہ صحت کے شعبے میں ہے۔کورونا کی دوسری لہر میں گنگا میں تیرتی لاشوں نے ریاست کے ہیلتھ انفراسٹرکچر کی پول کھول کر رکھ دی تھی۔اس کے علاوہ بی آر ڈی اسپتال میں دماغی بخار کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے لیکن اس پر قابو پانے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بن سکی ہے۔ ریاست کا تیسر ا بڑا مسئلہ لاقانونیت کا ہے۔ یوگی حکومت میں اناؤ، ہاتھرس  اور  لکھیم پور جیسا سانحہ پیش آیا ہے۔ حکومت کا سارا زور انتقامی سیاست پر ہے،اسی لئے وہ شاید لااینڈ آرڈر کو اہمیت نہیں دے  رہی ہے۔  ان سب مسائل کے باوجود وہاں پر انتخابی موضوعات میں یہ سب شامل نہیں ہے بلکہ تمام جماعتیں ذات پات کو بنیاد بنا کر الیکشن لڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اسی طرح اتراکھنڈ اور گوا میں بھی کانگریس کیلئے ماحول سازگار ہونے کے بعد بھی پارٹی میں جاری رسہ کشی سے پریشانی ہے۔ اس کے باوجود اگر ان تین ریاستوں میں کانگریس  اقتدار حاصل کرلیتی ہے تو آئندہ لو ک سبھا انتخابات میں وہ بی جے پی سے مقابلے کیلئے خود کو تیار کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی اور اس کے لیڈروں میں جوش و خروش بڑھ جائے گا، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا.... تو کانگریس مقابلے سے باہر ہوسکتی ہے۔ کانگریس کو مقابلے میں بنے رہنے کیلئے کسی بھی صورت میں پنجاب کو جیتنا ہوگا اور باقی تین ریاستوں میں سے ایک یا دو میں کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ مغربی بنگال میں الیکشن کے بعد ہی سے ممتا بنرجی کے عزائم کافی بلند ہوگئے ہیں اور وہ مرکزی قیادت کا خواب دیکھنے لگی ہیں۔ایسے میں ضروری ہے کہ وہ دوسری ریاستوں میں اپنی سیاسی طاقت بڑھائیں۔ اسی کے پیش نظر انہوں نے  شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ گوا پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ ان میں دو ریاستوں یعنی منی پور اور گوا میں بھی الیکشن ہونے جارہا ہے۔  اگر وہ  ان میں سے کسی ایک بھی ریاست میں اقتدار حاصل کرپاتی ہیں تو مرکزی سطح پر ان کا قد مزید بلند ہوجائے گا اور اپوزیشن کے درمیان قیادت کی ان کی دعویداری بڑھ جائے گی .... لیکن اگرایسا نہیں ہوا تو یہ تسلیم کرلیا جائے گا کہ انہیں مغربی بنگال تک ہی محدود رہنا چاہئے۔  اسی طرح سے عام آدمی پارٹی بھی قومی جماعت بننے اور  بی جے پی کا متبادل بننے کا خواب دیکھ رہی ہے لیکن اس کےاس خواب کی تعبیر کا دارومدار  پنجاب، اتراکھنڈ اور گوا کے انتخابی نتائج پر ہے۔  پنجاب میں وہ قدرے بہتر پوزیشن میں ہے لیکن اتراکھنڈ اور گوا کے تعلق سے ایسا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر وہ ان تین ریاستوں میں سے کسی ایک میں بھی اقتدار پرقابض ہوجاتی ہے یا ان تینوں میں دوسرے نمبر کی پارٹی بن جاتی ہے تو اس کو اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

اتراکھنڈ:  یہاں موسمی آفات سے نمٹنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہر سال بارش میں  یہاں پہاڑی خطوں میں رہنے والے اپنی جان ہتھیلی پر لے کر چلتے ہیں۔  یہاں کے لوگوں کی بنیادی آمدنی پھلوں کی تجارت اور سیاحت  ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کافی معاشی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے  جہاں سیاحت مار کھائی ہے، وہیں کارپوریٹ کے تئیں حکومت کی الفت نے کسانوں کا بیڑہ غرق کیا ہے۔  افسوس کہ یہاں پر ان موضوعات پر کوئی بات نہیں ہورہی ہے۔اس کے برعکس فرقہ وارانہ رخ پر الیکشن لڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔  

پنجاب:  یہاں کا ایک بڑا مسئلہ منشیات کا غیرقانونی کاروبار ہے لیکن کوئی سیاسی جماعت اس پر آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی  ہے کیونکہ الزام ہے کہ ان کی فنڈنگ کا زیادہ تر انحصار انہیں ذرائع پر ہے۔ چند سال قبل عام آدمی پارٹی نے اسے ایک بڑا انتخابی موضوع بنایا تھا لیکن اب وہ بھی خاموش ہے۔

گوا:  یہاں پر بے روزگاری کی شرح ۱۱ء۷؍ فیصد ہے جو کہ قومی شرح ۸ء۸؍ سے بہت زیادہ ہے۔عام طورپر چھوٹی ریاستوں میں بے روزگاری کی شرح کم ہونی چاہئے لیکن یہاں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں  سیاسی جماعتوں کی پوری توجہ سیاسی جوڑ توڑ پر ہی مرکوز رہی ہے مگر افسوس کہ ر یاستی کی اپوزیشن جماعتوں نےبھی اسےانتخابی موضوع نہیں بنایا ہے۔ 

منی پور:  یہاں کے بنیادی مسائل میں دراندازی ، منشیات اور جرائم میں اضافہ شمار کئے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سیکوریٹی فورسیز کو حاصل خصوصی اختیارات جسے ’افسپا‘ کہا جاتا ہے، سے بھی یہاں کے عوام کو مسئلہ ہے لیکن اسمبلی انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت نے ان موضوعات کو اپنی  ترجیح میں نہیں رکھا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK