Inquilab Logo

بینا بھی نابینا جیسے دُنیا تیری خیر

Updated: November 20, 2021, 9:36 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

جون ایلیا نے کہا تھا: ’’مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں=یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا؟‘‘ ۔ اپنے آس پاس کی دُنیا کا جائزہ لیجئے تو جون کے خیال سے اتفاق کئے بغیر نہیں رہا جاسکے گا۔ ہمارے آس پاس بھی کوئی کسی کو ٹوکنے والا نہیں ہے۔ سب اپنی اپنی مصلحتوں کے اسیر ہیں۔ ٹوکنے کی روایت دم توڑ چکی ہے۔

John Elia had said: "I don`t even have a bite = that`s what happens in the family
جون ایلیا نے کہا تھا: ’’مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں=یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

حکایات سعدی میںہے کہ ایک بڑھیا کی بینائی زائل ہونے لگی تو اسے فکر ہوئی۔ اس نے ایک معالج سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر میری بینائی مستحکم ہوگئی تو منہ مانگی دولت دوں گی مگر افاقہ نہ ہوا تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ دوں گی۔ معالج نے یہ شرط منظور کرلی۔ وہ روزانہ بڑھیا کے گھر جانے لگا جو خاصی امیر تھی۔ روزانہ اس کی آنکھوں کو دھوتا اور ان میں دوا ڈالتا۔ معالج اچھا تھا مگر چوری کی خصلت کا مارا ہوا تھا  چنانچہ جب بھی بڑھیا کے گھر جاتا اس کی دھندلی بینائی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے گھر کی کوئی نہ کوئی چیز چرا لاتا۔ دن گزرتے گئے اور بڑھیا کا گھر ’’صاف‘‘ ہوتا رہا۔ پھر وہ دن آگیا جب  اس کے گھر کا ’’صفایا‘‘ ہوچکا تھا۔ اِدھر معالج کے مسلسل علاج کے سبب  بڑھیا کی بینائی مستحکم ہوگئی تو معالج نے اپنی اُجرت کا مطالبہ کیا اور یاد دلایا کہ آپ نے منہ مانگی دولت دینے کا وعدہ اور معاہدہ کیا تھا۔ معالج کے مطالبہ پر بڑھیا چراغ پا ہوگئی۔ کہنے لگی کہ خبردار جو اُجرت طلب کی، تم نے تو مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ معالج گھبرا گیا مگر بدمعاشی سے باز نہ آیا۔ اس نے بڑھیا کے خلاف دعویٰ دائر کردیا۔ قاضی نے بڑھیا کو طلب کیا اور پوچھا کہ وہ اُجرت کے وعدے سے کیوں مکر رہی ہے۔ بڑھیا نے صاف اور دوٹوک انداز میں قاضی صاحب کو پوری داستان سنائی پھر حاصل کلام کے طور پر کہا کہ قاضی صاحب، جب بینائی متاثر تھی تو مجھے گھر کی ہر شے دھندلی دکھائی دیتی تھی، اب بینائی بحال ہوگئی ہے تو گھر میں ایک بھی شے دکھائی نہیں دیتی۔
 نہ جانے عمر کے کس دور میں یہ حکایت پڑھی تھی جو گزشتہ دنوں اُس وقت یاد آگئی جب   ایک اداکارہ نے اول فول بکتے ہوئے پہلے تو اُس سرمایۂ  ِ آزادی کی تحقیر کی جو ہزارہا قربانیوں کے بعد میسر آئی تھی  اور پھر اُس سپہ سالارِ جنگ آزادی کو ہدف تنقید بنایا جس کے فلسفۂ عدم تشدد کودُنیا آج بھی قدر کی نگاہ دیکھتی ہے۔ گستاخی اور بدزبانی اس دور میں عام ہے چنانچہ ایسے واقعات بار بار ہورہے ہیں۔  بڑھیا کی طرح سماج کی بینائی بھی متاثر ہے۔ جنہیں معالج سمجھا جاتا ہے وہ ادب و تہذیب اور انسانی و اخلاقی قدروں کی پامالی کے خود بھی مرتکب ہیں اور دوسروں کے ارتکاب پر خاموش رہ کر اُن کی گستاخیوں کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑھیا کے گھر کی طرح سماج خالی ہوتا جارہا ہے۔ ادب و آداب کی چوری ہوئی، مرتبہ و لحاظ کی چوری ہوئی، تہذیبی قدروں کی چوری ہوئی، سچ اور دیانت کی چوری ہوئی اور ایسی ہی کئی قیمتی اشیاء ’’صاف‘‘ ہوگئی ہیں یا  ہوتی جارہی ہیں۔ اب اگر سماج کی بینائی بڑھیا کی بینائی کی طرح واپس آجائے  تو اسے اپنا گھر خالی دکھائی دے گا۔ تب سماج بھی قاضی (وقت یا آئندہ نسلوں سے)  کہے گا کہ جب بینائی متاثر تھی تو گھر کی ہر شے دھندلی دکھائی دیتی تھی، اب بحال ہوگئی ہے تو ایک بھی شے دکھائی نہیں دیتی۔ 
 بڑھیا کا گھر دھیرے دھیرے صاف ہوا۔ سماجی اخلاقیات بھی دھیرے دھیرے فوت ہوئیں اور ہورہی ہیں۔ ایک اِس اداکارہ  پر کیا موقوف ہے۔ کتنے ہی ہیں جو چرب زبانی اور بدزبانی میں، جھوٹ کیا سفید جھوٹ بولنے میں، ادب و تہذیب کو بالائے طاق رکھ دینے میں اور گستاخانہ طرز عمل اپنانے میں کسی ابلیسی یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی ہیں۔ اگر بڑھیا کے گھر میں کوئی اور ہوتا جس کی بینائی سلامت ہوتی تو معالج روزانہ کوئی نہ کوئی قیمتی شے چرا نہ پاتا۔ وہ روکتا، ٹوکتا بلکہ اس کی موجودگی میں معالج جرأت ہی نہ کرپاتا۔ سماج کا مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی بینائی سلامت سمجھی جاتی ہے اُنہیں بھی دھندلا دکھائی دیتا ہے اور جن کی بینائی واقعی محفوظ ہے اُنہوں نے آنکھیں چرانے کی روایت قائم کرلی ہے۔ اُنہیں دکھائی تو دیتا ہے مگر وہ (زوال و ادبار کی طرف) دیکھنا نہیں چاہتے۔ اُن کا ایقان ہے کہ مصلحت میں عافیت ہے۔ مصلحت کا یہ جزیرہ دُنیا کے کسی بھی جزیرہ سے زیادہ وسیع ہے۔ اس میں مادی منفعت کا کہیں گہرا کہیں اُتھلا پانی ہے جس میں مسلسل لہریں بنتی رہتی ہیں جو دل کو لبھاتی ہیں۔ کبھی کبھی انسان خود بھی ایک آدھ کنکری پھینک کر بننے والی لہروں کو حسرت آمیز نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ اب تو یہ اُمید بھی ختم ہوتی جارہی ہے کہ کبھی بڑھیا کی بینائی واپس آئے گی اور اُسے اپنے گھر کی ایک ایک شے کے غائب ہونے یا چرا لئے جانے کا احساس ہوگا۔ اس لئے کہ سماج نے جھوٹ کے ذریعہ اپنا کام نکالنے کو ذہانت، گستاخی اور بدزبانی کو جرأت اور  دوسروں کی تذلیل کو اپنی فوقیت سمجھ لیا ہے۔ دبستان تہذیب و ادب میں سناٹا ہے۔ سیکھنے سکھانے کا عمل گھر کے کسی گوشے میں دم سادھے پڑا ہے۔ ایک وہ معاشرہ تھا کہ بچہ جب کچھ سیکھنے کے قابل ہوتا تو اسے پہلا سبق تہذیب و ادب کا سکھایا جاتا تھا۔ الفاظ کے انتخاب کی تدریس سے پہلے لب و لہجہ کی مشق کرائی جاتی تھی کہ الفاظ کی معنویت بڑھ جاتی ہے اگر لب و لہجہ اُن کے موافق اور شایان شان ہو۔ اب نہ الفاظ کی قدر ہورہی ہے نہ لب و لہجہ کی فکر۔تہدیب کے گھر سے روزانہ چوری ہورہی ہے اور کسی کو اس کا احساس نہیں ہے۔ 
 اس کالم میں پہلے کبھی لکھا جاچکا ہے کہ راقم ایک مرتبہ ویتنام کے دورہ پر تھا ایک مجلس میں چند طلبہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے ویتنام میں بابائے ویتنام کہلانے والے ہو چی من کی قدرومنزلت کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا چنانچہ طلبہ سے  دریافت کیا کہ آپ کی نظر میں ہوچی من کی کیا اہمیت ہے؟ ایک طالبہ نے فوراً جواب دیا کہ وہی جو آپ کے دل میں گاندھی کی ہے۔ اُس وقت گو کہ میں نے خوشی کا اظہار کیا مگر اُس وقت دل میں احساس ندامت کی ایک تیز لہر اُٹھی تھی کہ یہ بچی کتنی سادہ لوح ہے، اچھا ہے اسے ہمارے ملک کے حالات کا علم نہیں ہے جہاں گاندھی کی ویسی قدر و منزلت باقی نہیں رہ گئی ہے جیسی کہ تھی یا ہونی چاہئے۔ اب اُس بچی سے ملاقات ہو تو یقیناً وہ وہی جواب نہیں دے گی جیسا اُس وقت دیا تھا۔ اُسے یہ علم ہوہی چکا ہوگا کہ علم و ادب اور تہذیب و تمدن کی اس سرزمین پر گاندھی کے قول (کہ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو اسے دوسرا گال بھی پیش کردو) کو بھیک سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ 
 مسئلہ یہ نہیں کہ کنگنا جیسوں کو کس طرح خاموش کیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم معالج کو چوری سے باز رکھنا چاہتے ہیں جبکہ بڑھیا کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ اس کے پاس کوئی ’’بینا‘‘ موجود رہے جو روکے ٹوکے یا جسے دیکھ کر معالج چوری کی خود ہی ہمت نہ کرے    ۔    n

editoral Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK