Inquilab Logo

کئی اندیشے ہیں جنہوں نے ملک بھرمیں کسانوں کو سڑکوں پر اُترنے کیلئےمجبور کیا

Updated: September 27, 2020, 4:00 AM IST | Arqam Noorulhasan

زرعی اصلاحات کا قانون بظاہرکسانوں کو ایک طرح سےمنڈیوں اور دلالوں سے آزادی دلانے والا قانون معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے ذریعے حکومت بڑی آسانی سےکارپوریٹ کمپنیوںکو کسانوںکے دروازے پر لا کھڑا کر رہی ہے ۔ممکن ہے مستقبل میںاے پی ایم سی منڈیاں ختم کردی جائیں اورکسانوں کو پرائیویٹ خریداروں اور کارپوریٹ اداروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاجائے ، پھروہ جو چاہیں،قیمتیں لگائیں، کسان کچھ نہیں کرسکیں گے

Farmer Protest - Pic : PTI
زرعی بل کیخلاف مختلف کسان تنظیموں کا احتجاج جاری ہے ۔ تصویر : پی ٹی آئی

ملک میں کسان ایک بارپھر سڑکوںپر اترے ہیں۔ یہ تشویش کامقام ہےکہ ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی شعبۂ زراعت کواپنے خون پسینے سے سینچنے والے کسانوں اور کاشتکاروںکوصرف اسلئےسڑکوںپر اترنا پڑا ہےکہ وہ اپنی پیداوار کا بہتر مارکیٹ چاہتےہیں،بہتر معاوضہ چاہتے ہیں اوربہتر طورپریہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کی پیداوار کی خریدوفروخت پر ان کا کنٹرول رہے ،نہ کہ مڈل مین (آڑھتیوں یا دلالوں) اورکارپوریٹ کا۔ اب یہاں یہ بھی مسئلہ ہےکہ کچھ کسان یہ نہیں چاہتے کہ انہیں آڑھتیوں سے آزادمنڈی ملے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ آڑھتی کسانوںکو ان کی پیداوار کی مناسب قیمت دلانے میں تعاون کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوںپارلیمنٹ میںزرعی اصلاحات سے متعلق جو ۲؍ بل منظورکئے گئے ہیںان کے تعلق سے حزب اقتدار اورحزب اختلاف میں روایتی کشمکش شروع ہوچکی ہے جواس طرح کے معاملات میں ہمیشہ دیکھی جاتی ہے۔ حکومت کا دعویٰ  ہےکہ  یہ بل زراعت کے شعبے کیلئے سنگ میل ثابت ہوں گے اور اس سے کسان اپنی پیداوار فروخت کرنے کیلئے منڈیوںکے محتاج نہیں ہوںگے جبکہ اپوزیشن  ان نئے  قوانین کو کسانوں کیلئےہلاکت خیز قراردے رہا ہے۔
 یہ ایک کافی تحقیق طلب موضوع ہےکہ کسانوں کوحکومت کے دعوؤں کے مطابق ان اصلاحات سے کیا فائدہ ہوگا اوراپوزیشن کے دعوؤںکے مطابق یہ قوانین کس طرح کسانوںکیلئے تباہی کا باعث بنیں گے ۔اس تعلق سے تجزیہ کاردونوں پہلوؤںکو سامنے رکھ کر تجزیہ کررہے ہیں لیکن حکومت کے دعوؤں پر سوال اٹھانے کیلئے یہی کافی ہےکہ غذائی پروسیسنگ صنعت کی مرکزی کابینی وزیر ہرسمرت کوربادل نے انہی بلوںکے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ  دیا ہے۔یہ کوئی اپوزیشن کا حملہ نہیں ہے بلکہ خود حکومت کے اندر سے اٹھنے والی مخالفت کی آوازہے۔جمعہ کوپنجاب اور ہریانہ میں ان بلوںکے خلاف کسان تنظیموں نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے سڑکیںاور شاہراہیں جام کردیں۔ ان کی تشویش پر اگر غور کیاجائے اوران بلوں کی پیچیدگیوں میں نہ جاتے ہوئے صرف سطحی طورپر بھی دیکھا جائے تو بھی صاف معلوم ہوتا ہےکہ پیداوار کی خریدو فروخت میں کسانوں اورپرائیویٹ کمپنیوں کو براہ راست آمنے سامنے کردیاگیا  ہے۔ کسان جنہیں حکومت سے اپنی پیداوار کی کم از کم سہارا قیمت(ایم ایس پی) مل جاتی ہے،  ان کا مستقبل میں جب براہ راست پرائیویٹ کمپنیوں اور سپرمارکیٹس سے سامنا ہوگا توممکن ہےکہ اس ایم ایس پی  سے انہیں محروم کردیاجائے ۔ یہ بعد کی بات ہے لیکن کسانوں کوشدید اندیشہ یہی ہے۔ 
 بی بی سی نے کسانوں کے تعلق سے ان قوانین اورکسانوںپر پڑنے والے ان کے اثرات ونتائج  کا تفصیلی جائزہ لیا ہےنیز پرانے اوربلوں کی منظوری کی صورت میں وضع ہونے والے نئے طریق کار کاموازنہ کیا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’’ پرانے طریق کار میں صرف حکومت کے متعین کردہ ایجنٹ ہی کسانوں سے ان کی پیداوار خرید سکتے تھے اور کسی کو یہ اجازت حاصل نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ان قوانین میں ’کنٹریکٹ فارمنگ‘ کے قوانین بھی وضع کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کو وہی اجناس  کی کاشت کرنی ہوتی تھی جو کسی ایک مخصوص خریدار کی مانگ کو پورا کریں ۔‘‘ جبکہ نئے طریق کار کے مطابق کسان براہ  راست  بڑی کمپنیوں، سپر مارکیٹس اور آئن لائن  اپنی اجناس وپیداوار فروخت کرسکیںگے ۔ یہ بظاہرکسانوں کو ایک طرح سےمنڈیوں اور دلالوں سے آزادی دلانے والا قانون معلوم ہوتا ہے لیکن  اس کے ذریعے حکومت بڑی آسانی سےکارپوریٹ کمپنیوںکو کسانوںکے دروازے پر لا کھڑا کررہی ہے جس سے کئی قسم کے اندیشے پیدا ہوتے ہیں۔ 
 مثال کے طورپرپنجاب کے ایک کسان ملتان سنگھ رانا نے بی بی سی  سے گفتگو کرتے ہوئے  جو بات کہی  اس سے کسانوںکا مسئلہ سمجھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ابتدا میں تو کسانوں کو اپنی اجناس نجی خریداروں کو فروخت کرنے کی ترغیب دی جائے گی لیکن مستقبل میں ممکن ہے کہ  منڈیاں ختم کر دی جائیں  اور کسان  نجی خریداروں اور کاروباری اداروں کے رحم و کرم پر  رہ جائیں اور وہ جو چاہیں، قیمتیں لگائیں ۔اس کسان کی بات میں ایک سچائی معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ اب ہر طرح کے روایتی کاروبار اور چھوٹی صنعتوں کو یا تو ختم کیاجارہا ہے یا اصلاحات کے نام پر انہیں کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کر دیاجارہا ہے۔ جس سے صورتحال یہ پیدا ہورہی ہے کہ ہر جگہ کارپوریٹ کا جال پھیلتا جارہا ہے۔ اسٹارٹ اَپس اورہنر ہاٹ کے ذریعے نوجوانوں اور چھوٹے کاروباریوںکو مین اسٹریم سے جوڑنے کے اقدامات توکئے جارہے ہیںلیکن  ان  سے مقصودبھی کاروبار اور تجارت کی باگ ڈور کارپوریٹ کو دینا ہے۔  وہ اس طرح کہ یہ کاروبارپوری طرح حکومت کی سرپرستی میں چلائے جارہے ہیں۔اسٹارٹ اَپ اور ہنرہاٹ حکومت کے اپنے پروگرام ہیں۔ ان میں حکومت تعاون کرے گی۔اب جب حکومت تعاون کرےگی تو کسی نہ کسی راستے بڑے کارپوریٹ گھرانوں اور صنعت کاروںکو بھی ا ن میں مداخلت کاموقع  د ے گی۔کسانوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا جارہا ہے۔ انہیں حکومت بظاہر یہ موقع دے رہی ہےکہ وہ آزادانہ اپنی پیداوار بڑی کمپنیوں کو فروخت کر سکیں لیکن  منڈی  اور آڑھتیوں سے آزاد اس لین دین میں بڑی کمپنیوں نوں کو جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے لیکن منڈی اور آڑھتیوںکو ہٹانے کی صورت میں  جو جگہ بچے گی اس میں بڑی کمپنیاں اپنی متوازی منڈی بھی چلا سکتی ہیں۔ پھر اگر ایک بار یہ کا رپوریٹ متوازی منڈی چل پڑی توپھر بعید نہیں کہ کسانوںکا کوئی پرسان حال ہی نہ رہے۔ پھر کسان اس متوازی منڈی کے محتاج ہوجائیں گے ۔ وہاں کارپوریٹ کی متعین کردہ قیمتیں ہی بنیاد ہوں گی۔ اس طرح زرعی شعبہ پرکارپوریٹ کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی ۔ اب دوہی  اجارہ دار ہوں گے حکومت اورکارپوریٹ اور کسانوںکی حیثیت صرف پیداوار فراہم کرنے والےکی ہوگی ، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 
 یہ وہ اندیشے اور خوف ہیںجو اس وقت کسان تنظیموں کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ بڑے کسانوں کیلئے ممکن ہےکہ صورتحال اتنی پریشان کن نہ ہوکیونکہ انہیں اپنی زمین کی بھی اچھی خاصی رقم مل سکتی ہے لیکن چھوٹے کسانوں کیلئے یقینی طورپر حالات سنگین رخ اختیار کرنے والے ہیں۔ کسانوں  کے  اس طرح سڑکوں پر اترنے کو حکومت اگر سنجیدگی  سے نہیں دیکھتی  ہے  اور انہیںاعتماد میں نہیں لیتی ہےتوپھراس ملک کی حیثیت زرعی ملک کی نہیں رہ جائے گی اور یہ کسانوں کا دیش نہیں رہ جائے گا۔
  ۲۰۱۶ء میں نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او )کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی ۲۰۱۲ء سے جون ۲۰۱۳ء کے درمیان ایک اوسط کسان گھرانے کی ماہانہ آمدنی ۶۴۲۶؍ روپے تھی اور سالانہ ۷۷۱۱۲؍روپے۔اب کسی کارپوریٹ ملازم کی تنخواہ اور آمدنی کا اس سے موازنہ کرکے ا ندازہ لگالیجئے کہ ملک میں ترجیحی مقام کسے مل رہا ہے، زراعت کو یا کارپوریٹ کو

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK