Inquilab Logo

ایک منظر کے عقب میں ہیں بہت سے منظر

Updated: February 08, 2020, 9:17 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

ملک بھر میں جاری احتجاج یقیناً رنگ لائے گا اور مظاہرین عظیم الشان کامیابی سے ہمکنار ہونگے مگر وہ اب بھی کامیاب ہیں ۔ اُنہیں ایسی ایسی کامیابیاں ملی ہیں جنہیں بھلے ہی محسوس نہ کیا جارہا ہو مگریہ بڑی حوصلہ افزا اور خوش آئند ہیں۔

سی اے اے کے خلاف احتجاج کرتی ہوئی خواتین۔ تصویر: آئی این این
سی اے اے کے خلاف احتجاج کرتی ہوئی خواتین۔ تصویر: آئی این این

تانیہ اَمین آسام کی سلچر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہی ہیں مگر سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کو اس حد تک ضروری سمجھتی ہیں کہ کولکاتا کے پارک سرکس میدان میں اپنے شوہر کے ساتھ روزانہ آتی ہیں ۔ شمپا سرکار کڈ گھاٹک (مغربی بنگال) کے ایک اسکول میں بنگلہ پڑھاتی ہیں اور جب بھی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی سے فراغت پاتی ہیں ، مظاہرہ میں شریک خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے مقصد سے پارک سرکس میدان چلی آتی ہیں ۔ ایک اور خاتون ہیں پربھاتی پرمانائیک۔ سیلم پور میں جھوپڑ پٹی کے بچوں کیلئے مفت کوچنگ کا اہتمام کرتی ہیں اور پارک سرکس میدان کے احتجاج میں تقریباً روزانہ شامل رہتی ہیں ۔ ایک معاصر انگریزی اخبار نے ان کی جو تصویر شائع کی ہے اُس میں اِنہیں ’’لباس سے‘‘ نہیں پہچانا جاسکتا کہ کس فرقہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ تینوں ایک ہی محلہ ’ڈھاکریہ‘ میں رہتی ہیں مگر پارک سرکس کے احتجاج سے قبل ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں ۔ عمر کے تفاوت کے باوجود اب یہ ایک دوسرے کی بہترین دوست ہیں ۔ یہ پہلا منظر ہے۔ 
 دوسرے منظر کا کچھ اس طرح تصور کیا جاسکتا ہے۔ صادقہ ایک نجی اسکول میں پڑھاتی ہیں ۔ سنیتی ایک پرائیویٹ فرم میں کمپیوٹر آپریٹر ہیں ۔ سینڈرا کا تعلق ایک این جی او سے ہے۔ تینوں الگ الگ محلوں میں رہتی ہیں مگر کبھی کسی موڑ پر ایک دوسرے سے نہیں ملیں ۔ شہر کے ایک میدان پر سی اے اے مخالف احتجاج شروع ہوا تو انہوں نے محسوس کیا کہ اس میں شرکت ضروری ہے۔ تینوں اپنے روزمرہ کے معمول اور مصروفیت سے وقت نکال کر میدان پر پہنچتی ہیں اور دو گھنٹے تک احتجاج میں شریک رہتی ہیں ۔ اسی میدان پر اُن کی پہلی ملاقات ہوئی تھی اور اب تینوں نے مشترکہ سہولت سے ایسا وقت مقرر کرلیا ہے کہ ایک ہی وقت میں میدان پر پہنچیں ۔ یہ بیٹھتی بھی ایک ہی جگہ ہیں اور ان کی واپسی بھی ایک ہی وقت پر ہوتی ہے۔ اب اس دوستی کو کئی دن گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں دیگر خواتین کے ساتھ ان کا وہاٹس ایپ گروپ بن چکا ہے۔ یہ دن بھر بھی ایک دوسرے کے رابطے میں رہتی ہیں ۔ 
 تیسرا منظر بھی کچھ اس طرح کا ہوسکتا ہے۔ رابعہ کی ذمہ داریوں میں چولہا چکی کے علاوہ بچوں کو اسکول پہنچانا، واپس لانا، سودا سلف کیلئے بازار جانا اور شام میں بچوں کا ہوم ورک کروانا شامل ہے۔ احتجاج میں خواتین کی شرکت ضروری ہے اس لئے رابعہ کے شوہر نے کہا کہ سودا سلف مَیں لے آیا کروں گا اوربچوں کا ہوم ورک بھی کروا دیا کروں گا مگر تم مظاہرہ کیلئے وقت نکالو۔ اب رابعہ روزانہ دو گھنٹے مظاہرہ میں حاضری دیتی ہیں اور خوش ہیں کہ ایک اہم اور ضروری کام کیلئے، شوہر کے گرانقدر تعاون سے وقت نکال رہی ہیں ۔ 
 مظاہروں کے ایسے مناظر سے کوئی بھی ناواقف نہیں ہوگا۔ مگر کیا ہر کوئی ان میں چھپے ہوئے پیغام سے بھی واقف ہے؟ شاید ہاں ، شاید نہیں ۔ آئیے ان پیغامات کو سمجھتے چلیں : پہلے منظر کو ’’رابطہ‘‘ کے نقطۂ نظر سے دیکھیں ۔ ایک ہی محلے کی تین خواتین ہیں جو کل تک ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں ، اب جان گئی ہیں اور ایک دوسرے کی بہترین دوست بن چکی ہیں ۔ دوسرے منظر کو ’’فرقہ وارانہ اتحاد‘‘ کے نقطۂ نظر سے سمجھئے۔ صادقہ، سنیتی اور سینڈرا، تینوں برسرِکار ہیں جن میں کل تک تال میل نہیں تھا۔ آج ہوگیا ہے اور یہ تینوں بھی تانیہ، شمپا اور پربھاتی کی طرح بہترین دوست بن چکی ہیں ۔ انہیں افسوس ہے کہ اب تک کیوں نہیں ملے۔ تیسرے منظر کو، گھریلو ذمہ داریوں میں ’’زن و شو (بیوی اور شوہر) کی مشترکہ اور لازمی حصہ داری‘‘ کے زاویہ سے دوبارہ پڑھنے کی زحمت گوارا فرما لیجئے آپ بھی گواہی دیں گے کہ دُنیا بدل گئی ہے مگر، آج بھی اکثر گھروں میں ایسا نہیں ہوتا۔
 (۱) رابطہ (۲) فرقہ وارانہ اتحاد اور (۳) گھریلو ذمہ داریوں میں زن و شو (بیوی اور شوہر) کی لازمی اور مشترکہ حصہ داری سے ملک کے تئیں ، سماج اور معاشرہ کے تئیں اور خانگی زندگی کے تئیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ملک کا شہری اور سماج کا فرد ہونے کے ناطے ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ۔ تانیہ، شمپا اور پربھاتی میں رابطہ ضروری ہے خواہ مظاہرہ میں شرکت کیلئے پارک سرکس میدان میں ملیں یا اس کے بغیر ہی ایک دوسرے کو جانیں اور ایک دوسرے سے بہتر اور مثالی تعلق رکھیں ۔ ایسی خواتین جب ملیں گی تو ملک اور معاشرہ کی بھلائی کیلئے بہت کچھ کرسکتی ہیں ۔ صادقہ، سنیتی اور سینڈرا الگ الگ فرقوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر احتجاج کو ضروری سمجھتے ہوئے ایک جگہ جمع ہوئیں ۔ اگر یہ اپنی نئی نئی دوستی کو تاعمر نبھانے کا قصد کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ فرقہ وارانہ اتحاد اور یکجہتی کو تقویت نہ ملے۔ ایسی بہت سی صادقائیں ، سنیتیاں اور سینڈرائیں جب فرقہ وارانہ اتحاد کے استحکام کا ہدف پانے کیلئے ایک دوسرے کے رابطے میں رہیں گی تو کوئی وجہ نہیں کہ سماج کو بانٹنے والوں کو شکست فاش نہ ہو۔ وہ اب بھی اپنے نفرت انگیز مشن میں ناکام ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ رابعہ ان دنوں حیرت انگیز مسرت سے دوچار ہیں کہ پچیس برس کی ازدواجی زندگی میں اُن کے شوہر نے کبھی ایسا نہیں کہا تھا کہ مَیں فلاں فلاں معاملات میں ہاتھ بٹا دوں گا تم فلاں مقصد کیلئے وقت نکالو۔ یہ پہلا موقع ہے جب اُنہوں نے اس فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ ایسی تمام رابعاؤں کو گھریلو ذمہ داریوں سے مہلت ملے تو یقین جانئے کہ وہ بڑے کارآمد مشن لے کر آگے بڑھیں گی اور ملک،قوم،ملت اور معاشرہ کیلئے نافع ثابت ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کل تک ہم ملک اور سماج میں آنکھ بند کرکےزندگی گزار رہے تھے۔ گزشتہ پینتالیس پچاس دنوں میں احتجاج کی طویل داستان کے جلو میں سیکڑوں چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی معرض وجود میں آتی رہیں جنہیں ضروری اہمیت نہیں ملی یا اُن پر توجہ ہی نہیں کی گئی۔ احتجاج تو اب بھی کامیاب ہے اور خدا نے چاہا تو حتمی کامیابی سے بھی ہمکنار ہوگا مگر یہ مزاحمت اور اس کیلئے دی جانے والی قربانی بہت کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع بھی فراہم کررہی ہے۔ بعد ازخرابیٔ بسیار ہی سہی، اس موقع سے فائدہ اُٹھالینا حالات کا اہم تقاضا ہے۔ 
 سماج میں الگ تھلگ زندگی گزارنے سے نہ تو سماج، سماج رہ جاتا ہے نہ شہری، شہری۔ فرقہ وارانہ اتحاد اور یک جہتی کیلئے باقاعدہ اور شعوری کوشش نہ ہو تو فرقہ پرستوں کو تقسیم پسندانہ ہتھکنڈے آزمانے کی آزادی مل جاتی ہے اوراپنے مشن میں کامیابی بھی۔ خانگی اُمور میں شوہر اپنی حصہ داری اور ذمہ داری محسوس نہ کرے تو خواتین ہی پر سارا بوجھ پڑجاتا ہے اور وہ گھر تک محدود ہوجاتی ہیں ، سماج کے تئیں اپنا فرض نہیں ادا کرپاتیں ۔اگر ہندوستانی سماج اور مسلم معاشرہ طویل مدت تک خواب غفلت میں رہنے کے بعد اب جاگ گیا ہے تو جاگتا رہے۔ یہ بیداری ضروری بھی ہے اور خوش آئند بھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK