Inquilab Logo

آباد اس جہاں میں ہیں ایسے جہان بھی

Updated: June 27, 2021, 8:05 PM IST | Shahid Latif

اُردو زبان کی ترویج و اشاعت میں اُن ملکوں کا بھی حصہ ہے جو اس زبان کی تدریس اور فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ چونکہ ہمیں اس کی اطلاع نہیں ہے اسلئے ہم اُردو کی بقاء کا فیصلہ اپنے حالات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

کووڈ کی دوسری لہر کے دوران وطن عزیز کو مدد فراہم کرنے والے ملکوں میں جہاں امریکہ، روس، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، آئر لینڈ اور نیوزی لینڈ شامل تھے وہیں چند دیگر ممالک بھی تھے مثلاً سنگاپور، کویت، پرتگال اور لکژمبرگ۔ ان میں ایک بہت مختصر ملک کا بھی نام تھا۔ اس کا رقبہ صرف ۲۰۴۰؍ مربع کلومیٹر اور آبادی صرف ساڑھے تیرہ لاکھ ہے۔ بحرہند میں مدغاسکر سے ۵۰۰؍ میل مشرق میں واقع یہ ملک براعظم افریقہ کا ایک خوبصورت جزیرہ ہے جو ماریشس کہلاتا ہے۔ اس مہربان نے ہمارے لئے ۲۰۰؍ آکسیجن کانسنٹریٹرس بھجوائے۔ بڑے ملکوں کے پاس وسائل بے شمار ہوتے ہیں اس لئے اُن کا تعاون قیمتی ہونے کے باوجود اتنا قابل ذکر نہیں ہوتا جتنا چھوٹے ملکوں کا ہوتا ہے جن کے وسائل محدود ہوتے ہیں۔ ماریشس کی فی کس آمدنی ۸۷۰؍ ڈالر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ کی فی کس آمدنی (پر کیپیٹا جی ڈی پی) ۶۸؍ ہزار ڈالر اور فرانس کی ۴۵؍ ہزار ڈالر ہے۔ سچ ہے کہ ملک چھوٹا یا بڑا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ دل کتنا بڑا ہے۔ سنگاپور اور کویت جیسے ممالک بھی چھوٹے ہیں مگر ان کی آمدنی اور وسائل زیادہ ہیں اس لئے دست تعاون دراز کرنے والوں میں ماریشس کا نام دیکھ کر بطور خاص خوشی ہوئی۔ اس خوشی کی اور بھی وجوہات ہیں،مثلاً: مجھے کئی ملکوں سے بڑی اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ ماریشس ان میں سے ایک ہے۔ اپنائیت کی پہلی اور بڑی وجہ تو یہی ہے کہ اس ملک میں رہنے بسنے والوں میں خاصی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو ہندوستانی ہیں۔ کسی دور میں یہ لوگ ہندوستان سےبغرض روزگار ماریشس لے جائے گئے تھے۔ اُنہوں نے وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ممکن تھا کہ بعد کی نسل، جس کی پیدائش ماریشس میں ہوئی، اپنی مذہبی و تہذیبی اقدار پر مضبوطی کے ساتھ قائم نہ رہتی   مگر جو پہلی پیڑھی وہاں پہنچی تھی اس نے اُن کی مکمل تربیت کا انتظام کیا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے مساجد میں مکاتب قائم کئے تاکہ بچے دینی تعلیم سے بھی بہرہ مند ہوں اور اُردو بھی سیکھیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کے ساتھ ایک کام اور ہوا۔ ان لوگوں نے بچوں کی تعلیم کیلئے اُردو اسکول قائم کئے۔ چند سال پہلے قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کی عالمی کانفرنس میں جو بیرونی مندوبین شریک ہوئے تھے اُن میں ماریشس کے اہل علم و ادب بھی تھے۔ کانفرنس کے بعد ذاتی ملاقاتوں میں ان سے ماریشس میں اُردو تعلیم کی بابت بہت سی باتیں جاننے کا موقع ملا تو حیرت بھی ہوئی، افسوس بھی۔ حیرت اس بات کی تھی کہ ماریشس میں کم و بیش ۲۰۰؍ اُردو اسکولیں ہیں جو کہ ہمارے یہاں کی اُتنی آبادی میں نہیں ملیں گے جتنی آبادی ماریشس کی ہے۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ اخبار سے وابستگی کے باوجود مجھے تب تک اس حقیقت کا علم نہیں تھا۔
 اُنہی دنوں کی ملاقاتوں میں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ماریشس میں اُردو کا کم از کم اتنا رواج تو ضرور ہے کہ بازار میں کسی دکاندار سے اُردو ہندی میں کلام کیجئے تو وہ آپ کی بات سمجھ بھی لیتا ہے اور جواب بھی عنایت کردیتا ہے۔ ویسے یہاں کی عام بول چال کی زبان کریول کہلاتی ہے۔ فرانسیسی بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ کئی مساجد میں جمعہ کا خطبہ اُردو میں ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ خوشی یہ جان کر ہوئی کہ یہاں کے اہم شہر پورٹ لوئس کی جامع مسجد کا خطبہ اُردو سے فرانسیسی میں ترجمہ ہوکر براہ راست ریڈیو سے نشر بھی ہوتا ہے۔ اُردو کا جلوہ یہیں تک محدود نہیں۔ اُردو اسکولوں ہی میں نہیں  ہے، کالجوں میں بھی شعبہ ہائے اُردو قائم ہیں۔ عالمی اُردو سمینار بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ خود ہمارے ملک سے کئی ممتاز ادباء و قلمکار ان سمیناروں میں مدعو کئے جاچکے ہیں جو گواہی دیں گے کہ ماریشس کے ماحول میں اُردو کس طرح بڑے اطمینان سے سانس لیتی ہے۔  اس ملک میں غالب کے مداح بھی ہیں، جو شرح دیوان ِغالب ہی سے استفادہ نہیں کرتے، تفہیم ِ غالب کے لئے سمینار بھی منعقد کرتے ہیں۔ کم از کم ایک سمینار سے مَیں واقف ہوں جو ۲۰۱۹ء میں ہوا تھا۔  
 ماریشس سے اپنائیت کی دوسری وجہ وہ سفرنامہ ہے جو مَیں نے ماضی میں کبھی پڑھا تھا۔ اس کا نام ہے ماریشس میں دھنک اور اس کے مصنف ہیں قمر علی عباسی۔ اس مضمون کیلئے جب ماریشس کے حوالے سے مذکورہ باتیں یاد آنے لگیں تو یہ سفرنامہ بھی یاد آیا۔ تلاش کرنا اس لئے ممکن نہیں تھا کہ کتابوں کی الماری کو ہاتھ لگانے سے پہلے مجھے کئی مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ ایسا کیا جائے یا نہیں کیونکہ کتاب تلاش کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو الماری کی ہر کتاب پر ٹھہرنا اور رُکنا پڑتا ہے۔ ا سلئے جب زیادہ فرصت ہوتی ہے تبھی یہ کار خیر انجام دے پاتا ہوں۔ خدا بھلا کرے ’’ریختہ ڈاٹ آرگ‘‘ کا جس کی ای بک لائبریری نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس پر تلاش کیا تو یہ سفرنامہ مل گیا۔ مجھے یاد تھا کہ کہاں کون سی بات سے میرے منہ سے بے ساختہ واہ نکلا تھا۔ ورق گردانی کی تو وہ ابواب مل گئے۔ اس میں ایک باب گنے کے پھوک سے متعلق ہے۔ اس کے دو جملے نقل کرتا ہوں۔ یاد رہے کہ ماریشس میں گنے (نیشکر) کی فصل بڑے پیمانے پرہوتی ہے۔  
 پہلا جملہ: ماریشس میں سیروتفریح کیلئے آتے جاتے گنے کے اتنے کھیت دیکھے تھے کہ دشمنوں تک سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے کو جی چاہنے لگا تھا۔ دوسرا جملہ:  ایک زمانے میں گنے سے رس نکالنے کے بعد اس کا پھوک جلا دیا جاتا تھا یا جانوروں کو کھلایا جاتا تھا لیکن اب یہ قیمتی چیز ہے۔ اس سے کئی اہم کام لئے جاتے ہیں۔ اس سے کھاد بناکر کھیتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ الکحل نکالی جاتی ہے جو دواؤں اور پرفیوم میں ڈالا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ ان دنوں ماریشس میں ۴۰؍ فیصد بجلی گنے کے پھوک سے بنا کر استعمال کی جاتی ہے۔‘‘ 
 میںنے پہلے جملے کا انتخاب یہ سوچ کر کیا کہ ایک مختصر جملے سے اندازہ ہوجائے کہ کتاب کتنی دلچسپ ہوگی۔ دوسرے جملے کا انتخاب لفظ ’’پھوک‘‘ کیلئے کیا کہ اگر آپ کے علم میں ہے تو تازہ ہوجائے اور اگر نہیں ہے تو ذخیرۂ الفاظ میں ایک لفظ کا اضافہ ہوجائے۔ اب ہمہ وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اپنی زبان کے یہ الفاظ نابود نہ ہوجائیں جو لغت میں تو ہیں مگر لغت کتنوں کے پاس ہے؟ ہم ہندوستانیوں کے پا س اس لئے نہیں ہے کہ ہم اُردو کو گھر کی زبان سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں مگر ماریشس جیسے ممالک، جو اس زبان سے لوَ لگائے ہوئے ہیں، لغت کو دوست بنالیں تو کیا کہنا!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK