Inquilab Logo

غریبوں اور مظلوموں کامسیحا کوئی نہیں

Updated: September 23, 2021, 2:15 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

۱۶؍ دسمبر۲۰۱۲ء کو ایسی ہی ایک واردات ، ۲۳؍سالہ پیرامیڈیکل طالبہ ( جسے نربھیا کا نام دیا گیا) کے ساتھ پیش آئی جس نے پورے ملک کو دہلادیا۔ سانحہ جتنا بھیانک تھا، ردِعمل اتنا ہی شدید تھا۔ پورے ملک میں جب تک وہ زندگی اور موت سے جوجھتی رہی، مظاہرے ہوتے رہے۔

The 5 wounds inflicted on Rabia`s body are indicative of a premeditated brutal murder, including humiliation.Picture:Inquilab
رابعہ کے جسم پر لگے ۵۰؍زخم ایک منصوبہ بند سفاکانہ قتل کا اشاریہ ہیں جس میں آبروریزی بھی شامل ہے تصویر انقلاب

کسی   بھی معاشرے کی شناخت خواتین واطفال کے تئیں اس کے رویّے سے ہوتی ہے جن کا شمار سماج کے کمزور طبقے میں ہوتا ہے۔ اس پیمانے پر جب ہم وطن عزیزکا جائز لیتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب خواتین اور نابالغ لڑکیوں ( جن میں کمسن بچیاں بھی شامل ہیں) کی آبروریزی کی خبریں نہ آتی ہوں۔ اس ضمن  میں  اگر دہلی کو ’ریب کیپیٹل ‘ ہونے کا امتیاز حاصل ہے تو آمچی ممبئی بھی جسے خواتین کے لئے محفوظ ترین شہر سمجھا جاتا تھا پیچھے نہیں ہے۔ گزشتہ چار برسوں سے ملک کے ۱۹؍ میٹرو شہروںاور قومی سطح پر  ممبئی  کا نمبر دوسرا اور تیسرا  ہے۔ اب  تو مجرمین کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مقصد برآری کے بعد مظلومین کو قتل کرنے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتا ۔ تسلسل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر عوامی ردّعمل بے حسی کا غماز ہے۔ لوگ  اُسے معمول کے واقعات سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے جب اس طرح کی واردات پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہے اور لوگ  غم وغصہ کے اظہار کے لئے سڑکوں پر اُتر آتے ہیں۔ ۱۶؍ دسمبر۲۰۱۲ء کو ایسی ہی ایک واردات ، ۲۳؍سالہ پیرامیڈیکل طالبہ ( جسے نربھیا کا نام دیا گیا) کے ساتھ پیش آئی جس نے پورے ملک کو دہلادیا۔ سانحہ جتنا بھیانک تھا، ردِعمل اتنا ہی شدید تھا۔ پورے ملک میں جب تک وہ زندگی اور موت سے جوجھتی رہی، مظاہرے ہوتے رہے، کینڈل مارچ نکالا گیا، صحتیابی کی دعائیں مانگی گئیں اور ملزمین کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ زور پکڑگیا۔  خواتین یہ کہتی سنائی دیں کہ پھانسی کی سزا ہلکی ہوگی ملزمین کو ہمارے حوالے کردیاجائے تاکہ جس طرح انہوںنے نربھیا کو تڑپایا ہم بھی انہیں ویسا ہی تڑپاکر ماریں ۔
 عوامی برہمی کو دیکھتے ہوئے منموہن سنگھ حکومت حرکت میں آئی، آئین میں ترمیم کے ذریعے نادر ترین جرائم میں سزائے موت کا عندیہ دیا، پولیس گشت بڑھانے کی بات کی ، روزمرہ سماعت کی بنیاد پر فاسٹ ٹریک کورٹ ، نربھیا سانحہ کی جانچ اور خواتین کے تحفظ میں بہتر ی لانے کے لئے عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔ ایک طرف یہ سب ہورہا تھا دوسری طرف دن بدن نربھیا کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ حادثے کے دوہفتے بعد بالآخر اس نے موت کے آگے سپرڈال دی ۔ پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا اورایک بار پھر ملزمین کے لئے سزائے موت کی مانگ میں شدت آگئی۔ 
 خواتین کے خلاف جرائم پر سابق چیف جسٹس آف انڈیا آنجہانی جے ایس ورما کی سربراہی میں قائم کئے گئے سہ نفری کمیشن کی رپورٹ ، ایک جامع رپورٹ ہے۔ جس میں جرائم کے ہرپہلو کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جنسی نقطہ ٔ نظر سے ہر قابل اعتراض رویے پر گرفت کی گئی ہے اور عورتوں کو چھیڑنے ، ستانے، فقرہ کَسنے، گندے اشارے کرنے حتٰی کہ شوہر کی طرف سے کی جانے والی زبردستی کو بھی قانون کے دائرے میں لانے کی سفارش کی گئی ہے۔ سنگین معاملات میں سزاؤں کی مدّت بڑھائی گئی ہے لیکن سزائے موت، خصّی بنانے اور سِن بلوغت کی عمر ۱۸؍ سے ۱۶؍ سال کرنے کی تجاویز کو مسترد کیا گیا ہے۔ اجتماعی آبروریزی کے معاملات میں بھی یہی  پیرایہ اختیارکیا گیا   ہے۔ رپورٹ میں سیاستدانوں پر بھی نکیل کَسی گئی ہے۔ سیاست کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے کیلئے انتخابی قوانین میں ترمیم کا مشورہ دیا گیا ہے  تو جنسی جرائم میں ملوث پولیس اور  فوج کے اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ مؤخرالذکر کو مسلح افواج خصوصی اختیار ات قانون کا تحفظ دینے کے بجائے  فوجداری قانون کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے ۔ کمیشن نے بے لاگ لپیٹ، خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کے لئے حکومت اور پولیس کو راست طورپر ذمہ دار ٹھہرایا ہے اورکہا کہ اگر موجودہ قوانین پر سختی سے عمل کیاجاتا تو صورت حال ابتر نہ ہوتی۔ کمیشن نے رپورٹ کی تیاری میں سرکاری محکموں کی سرد مہری اور عدمِ تعاون کی بھی شکایت کی ہے۔
 اس لمبی  تمہید کی ضرورت اس لئے پڑی کہ اگر حکومت کمیشن کی سفارشات کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو  فاسٹ ٹریٹ کورٹ اور دیگر اقدامات کے ذریعے خواتین کے خلاف جرائم میں کمی  محال نہ ہوتی۔ ایسا اس لئے نہیں ہوا کہ انکوائری کمیشن کا قیام، نمائشی اور عوامی وسیاسی دباؤ میں آکر کیاجاتا ہے۔ دکھاوے کے لئے حکومتیں بھلے ہی کچھ سفارشوں کو نافذ کرنے کا اعلان کریں، کوئی حکومت سفارشات پر عمل کرنے کی پابند نہیں  ہوتی ہے۔ ورما کمیشن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کچھ اعلانات واقدامات ضرور کئے گئے جو عارضی ثابت ہوئے۔ فاسٹ ٹریک کورٹ نے فیصلہ سنانے میں نومہینے لئے۔ چھ ملزمین میں سے ایک نے خودکشی کرلی، دوسرے کو نابالغ ہونے کی وجہ سے تین سال کیلئے بچوں کی اصلاحی جیل بھیج دیا بقیہ چاروں کو  پھانسی دیدی گئی۔ اس کے باوجود ریب کے معاملات میں کوئی کمی  نہیں آئی ۔ 
 سچ یہ ہے کہ انصاف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت، پولیس، اور عدلیہ کا رویہ ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس  دیپک گپتا کہتے ہیں کہ ہمارا قانون اور قانونی وعدالتی نظام اثر ورسوخ والے امیر وطاقتور لوگوں کے معاملے میں  متحرک ہوجاتا ہے، عام اور غریبوں  کے لئے نہیں۔ پچھلے دنوں ساکی ناکہ میں ہوئے ایک ریپ اور مرڈر کیس میں ہوئے مظاہروں کے بعد مہاراشٹر حکومت نے فاسٹ ٹریک  کورٹ اور دیگر اقدامات کا اعلان کیا ۔ لیکن دہلی کی ایک سِول ڈیفنس آفیسر رابعہ سیفی کا بے رحمانہ قتل  جس میں اس کا گلا ریتا گیا  اور مخصوص  اعضاء سے لے کر چہرے تک کو زخمی کیا گیا، آج  بھی اسرار کے پردے میں گُم ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ریپ سے  انکار کیا گیا ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ   قاتل نے خودسپردگی کے ساتھ اعتراف جرم بھیکیا ۔ رابعہ کے گھروالے اسے ماننے پر آمادہ نہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ کام کسی ایک شخص کا نہیں ہوسکتا۔ رابعہ کے جسم پر لگے ۵۰؍زخم ایک منصوبہ بند سفاکانہ قتل کا اشاریہ  ہیں جس میں آبروریزی بھی شامل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے خلاف ہونے والے مظاہرے    اثر دکھاتے ہیں یا یہاں بھی اُس کا مذہب آڑے آتا ہے  کیونکہ دہلی اور ہریانہ ( جہاں اُس کا قتل ہوا) کا لاء اینڈ آڈر بی جے پی حکومتوں کے ہاتھوں میں ہے۔n

protest Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK